• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14 اگست کا ایک یادگار مشاعرہ

14اگست کے حوالے سے مجھے اپنے ایک نقال شاعر دوست، احمد رضا کا کردار یاد آگیا۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے، جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اُس وقت ہر چیز خالص ملتی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء سمیت کسی شے میں ملاوٹ کا تصوّر تک نہ تھا۔ ایسے دور میں ہم دوستوں کا ایک ادبی گروپ تھا، اس میں ہمارا ایک شیخی خور ساتھی بھی تھا، جسے ’’ہم دو نمبر شاعر‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ اگرچہ شاعر و ادیب تو نہ تھا، مگر بلا کا ذہین اور بہت اچھا اداکار ضرور تھا۔معروف شخصیات کی نقالی اس خوبی سے کرتا کہ حقیقت کا گمان ہونے لگتا ، خاص طور پر شاعروں کا بہروپ اس کمال سے بھرتا کہ لوگ اَش اَش کر اٹھتے۔ وہ شاعری میں بہزاد لکھنوی اور ادب میں علی سردار جعفری کو مثالی سمجھتا تھا اور اپنا حلیہ بھی علی سردار جعفری جیسا بنارکھا تھا۔ ان کی طرح کھدّر کا لمبا کُرتا، واسکٹ پہنتا، ڈارک برائون موٹے فریم کی عینک لگاتا اور ان ہی کی طرح لمبے بال بھی رکھے ہوئے تھے۔ جب وہ ادبی محفلوں میں جاتا، تو اس کے ہاتھوں میں چند ادبی رسالے، سگریٹ کا پیکٹ اور ماچس ہوتی۔ وہ اگرچہ خود سگریٹ نہیں پیتا تھا، مگر علی سردار جعفری دکھائی دینے کے شوق میں سگریٹ اور ماچس بھی ضرور ساتھ رکھتااور اسٹیج پر دُور سے واقعی ان جیسا دکھائی دیتا۔ وہ جب مشہور شعراء کلام، علی سردار جعفری کے انداز میں سناتا، تو ایک سماں سا بندھ جاتا۔ لوگ اسے ذوق و شوق سے ادبی محافل میں مدعو کرتے تھے۔ اس نے اپنا قلمی نام احمد رضا رکھا ہوا تھا، ہماری جوانی کا آغاز تھا، نئے ملک میں اپنے قدم جمانے کے لیے ہر نوجوان پُرجوش دکھائی دیتا تھا۔ احمدرضا ایک دَم پر لگاکر اڑنا چاہتا تھا۔ وہ ادبی محافل میں مقبول تو ہوگیا تھا، مگر دوسروں کے کلام اور ان کے حلیے کی نقالی کے حوالے سے حاصل ہونے والی مقبولیت سے جلد اکتا بھی گیا ۔ اب وہ خود شاعربننا چاہتا تھا، مگر کیسے بنے، یہ تو خداداد صلاحیت ہوتی ہے، جو اس میں موجود ہی نہ تھی۔ سخن فہم ضرور تھا، مگر شاعری کی صلاحیت سے عاری تھا۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار جب ہم سے کیا، تو سب نے اسے سمجھایا کہ ’’جس طرح ہو، اسی طرح مقبول رہو، شاعری کروگے، تو وہ محض تُک بندی ہوگی اور جو شہرت تم نے مشہورشعراء کے کلام اور ان کی نقالی سے حاصل کی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔‘‘مگر وہ نہ مانا۔

ان ہی دنوں ہمارے گروپ میں ایک نئے لڑکے کا اضافہ ہوا۔ ہمارے گروپ میں ایک آرٹسٹ، دوسرا ادیب، تیسرا قصّہ گو، چوتھا علی رضا اور پانچواں میں خود تھا۔ ہم سب بھارت کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ سب میٹرک پاس تھے، دن میں ملازمت کرتے اور رات کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے جاتے۔ علی رضا میٹرک کے بعد کرنال (بھارت) میں سرکاری نوکر بھی ہوگیا تھا، مگر پاکستان کی محبت میں اس نے ملازمت چھوڑدی۔ گھر والے پاکستان جانے پر رضامند نہیں تھے،تو وہ اکیلا پاکستان آگیا۔ والدین بعد میں آکر راول پنڈی میں رہائش پزیر ہوگئے اور علی رضا کراچی چلا آیا۔ کلیٹن روڈ پر اسے سرکاری کوارٹر مل گیا تھااور اس نے پرانا فرنیچر خرید کر اسے اچھا خاصا سجالیا تھا۔ ہماری محفلیں اسی کے کوارٹر میں جمتی تھیں۔ ان میں ادیب، آرٹسٹ وغیرہ تو تھے ہی، مگر اچھے شاعر کی کمی تھی، جو شوکی نامی اس نئے لڑکے کی آمد سے پوری ہوگئی۔ شوکی، لکھنو سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم نے جب اس کی شاعری پڑھی، تو دنگ رہ گئے۔ اتنی کم عمری میں ایسی پختہ شاعری نے ہمیں حیران کردیا۔ تاہم، اس کی ایک کم زوری تھی کہ وہ حد سے زیادہ شرمیلا ہونے کی وجہ سے کسی کے سامنے اپنے اشعار نہیں پڑھ سکتا تھا۔ ترنّم سے پڑھنا تو دور، وہ تحت اللفظ میں بھی اپنا کلام سناتے ہوئے نروس ہوجاتا تھا۔ جب کہ علی رضا کا ترنّم غضب کا تھا۔ شوکی کی خواہش تھی کہ وہ کسی محفل میں اس کا کلام ترنّم میں سنائے۔ شوکی کی اس خواہش پر علی رضا نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ وہ اس کا کلام اپنے نام سے سنائے گا۔ شوکی اعتماد کی کمی سے وقتی طور پر اپنا کلام علی رضا کو دینے پر راضی ہوگیا۔ ہم نے شوکی کو سمجھایا کہ شاعری اولاد کی طرح ہوتی ہے، کسی اور کو دینا بے وقوفی ہے۔ مگر علی رضا نے علیٰحدگی میں اس کا برین واش کرکے اس سے ایک غزل لکھوائی اور ایک ادبی محفل میں ترنّم میں گھول کر سامعین کو سنائی، تو ہر طرف سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور علی رضا یہ بھول گیا کہ یہ شاعری کسی اور کی ہے۔ سارا کریڈٹ اس نے اپنےنام کرکے خوب داد سمیٹی۔

اس کے بعد اس کا یہ وتیرہ ہوگیا کہ شوکی سے فرمائش کرکے غزل لکھواتا اور اپنے نام سے ادبی محفلوں میں لہک لہک کر ترنّم سے پڑھ ڈالتا۔ شوکی اس بات پر خوش ہوجاتا کہ اس کا کلام، حاضرینِ محفل اور شعرا ء میں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ ہمیں یہ طرزِعمل بالکل پسند نہیں تھا، کیوں کہ وہ سچّا دور تھا۔ شوکی اور علی رضا دونوں کو ہم سمجھاتے کہ یہ حرکت اچھی نہیں، سانجھے کی ہنڈیا کسی نہ کسی روز بیچ چوراہے پر پھوٹ جایا کرتی ہے، مگر وہ دونوں اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ علی رضا کا حوصلہ بڑھتا گیا اور شوکی اس کے زیرِاثر آتا چلاگیا۔اگست 1949ء کے شروع کے دنوں میں بڑے جوش و خروش سے ہر جگہ مشاعرے ہورہے تھے۔ 12اگست کی شام کو علی رضا بڑا بوکھلایا ہوا آیا۔ ہم روزانہ کی طرح اس کے کوارٹر میں جمع تھے۔ اس نے بتایا کہ ’’ڈالمیا فیکٹری والوں کی انتظامیہ نے یومِ آزادی کے حوالے سے 14اگست کو ایک بہت بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، جس میں ملک بھر سے نام ور شعراء شرکت کریں گے۔ بھارت سے بھی شاعروں کی آمد متوقع ہے۔ اس مشاعرے میں مجھے بھی کلام پڑھنے کی دعوت دی گئی ہے۔‘‘ وہ خوشی سے بوکھلایا ہوا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اسے اتنے بڑے مشاعرے میں ایک جواں سال شاعر کی حیثیت تسلیم کرکے اسے مدعو کیا گیا تھا۔ اس کی خوشی بجا تھی، مگرہم سب اس بات پر افسردہ تھے کہ ایک حق دار کا حق مارا جارہا ہے۔ پھرعلی رضا نے شوکی، کی طرف خوشامدی انداز سے دیکھتے ہوئے ملتجیانہ لہجے میں کہا کہ’’ وقت کم ہے، مجھے یومِ آزادی کے حوالے سے ایک ایسی نظم لکھ کر دو، جو سامعین کو اٹھ اٹھ کر داد دینے پر مجبور کردے۔‘‘

شوکی اُن دنوں اپنی کسی گھریلو پریشانی میں گِھرا ہوا تھا۔ اس نے وعدہ تو کرلیا، مگر اسے یک سوئی نہ مل سکی۔ دوسرے روز ہم سب اکٹھے ہوئے تو شوکی نے بتایا کہ ’’میں نظم نہیں لکھ سکا، مگر آج رات کوشش کروں گا۔‘‘ علی رضا نے اسے اپنے کوارٹر میں روک لیا۔ دیر تک جاگ کر شوکی نے نظم کا اچھوتا موضوع تو تراش لیا، مگر پوری نظم کےبجائے چند بند ہی لکھ پایا۔ علی رضا کا کہنا تھاکہ اگر مشاعرے سےایک گھنٹے پہلےبھی اسے نظم مل جائے، تو وہ مشاعرہ لُوٹ لے گا۔بہرحال،جیسے تیسے شوکی نے ایک رف سے کاغذ پر نظم مکمل کرلی، مگر اس میں اصلاح اور نظرثانی کی ا بھی ضرورت تھی۔ علی رضا اپنی شخصیت کے بنائو سنگھار میں لگا ہوا تھا، اس سےعجلت میں کاغذمانگا، تو شوکی نے اسے دو تین کاغذ اٹھاکر دے دیئے، جو سب رف سے تھے۔ آخری لمحات میںعلی رضا نےشوکی کے ہاتھ سے کاغذ چھینا، واقعی وقت کم رہ گیا تھا، بھاگم بھاگ ہم مشاعرے میں پہنچے۔ علی رضا شعرائے کرام کی نشستوں کی طرف چلاگیا۔یہ مشاعرہ ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری کے اندر کھلی جگہ پر ہورہا تھا، وہاں بعد میں کراچی کا پہلا ڈرائیواِن سنیما بنا۔ اب اس جگہ ملینیم مال اور بہت سی بلڈنگز بن گئی ہیں۔اس جگہ کا آپ تصوّر کرلیں، کتنی بڑی فیکٹری تھی۔ تقریباً کراچی کے اس زمانے کے سبھی شعرائے کرام اس وقت وہاں موجود تھے۔ حاضرینِ محفل سے پورا پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ منتظمین نے بہت شان دار انتظام کیا ہوا تھا،وسیع و عریض اسٹیج پر بچھی چاندنیوں پر تمام شاعر گول تکیوں سے ٹیک لگائے نیم دائرے کی شکل میں براجمان تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ صاحبِ صدر، جناب ساحل بلگرامی تھے جو شاعروں کی جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔ 

مشاعرہ شروع ہوا۔ روایت کے مطابق پہلےچار پانچ غیرمعروف شاعروں کو اپنا کلام سنانے کے لیے بلایا گیا، اس کےبعد منتظمِ مشاعرہ نے اعلان کیا ’’اب ہم کراچی کے ایک ایسے نوجوان شاعر کو اسٹیج پر بلارہے ہیں، جس نے اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں اور پختہ شاعری سے بہت تیزی سے اپنا مقام بنایا ہےاور اپنی شاعری سے سامعین کو سحر زدہ کرنے میں کام یابی کی منازل طے کرچکے ہیں۔ خوش الحانی میں ان کا منفرد مقام ہے۔ آیئے، جناب احمد رضا صاحب ، اپنے قدردانوں سے داد کی دولت سمیٹیے۔‘‘اعلان ہوتے ہی پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اور موصوف ایک خاص اسٹائل سے اپنے بال انگلیوں سے پیچھے کرتے ہوئے اسٹیج پر آئے۔ پہلے صاحبِ صدر اور پھر دیگر شعرائے کرام کو جھک کر سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ کر ہاتھ میں پکڑی کتاب سے شوکی کی لکھی نظم کا کاغذنکالا۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس نظم کا مصرعِ اولا یہ تھا ’’مطرب ِخوش نوا ٹھہر، نغمہ سرا ابھی نہ ہو‘‘اس نظم میں شوکی پاکستانی عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ابھی وہ جشن نہ منائیں، کیوں کہ دلوں کے زخم ابھی تازہ ہیں اور پاکستان کی تعمیر کی جدوجہد ابھی باقی ہے۔ نظم میں اس خیال کو شوکی نے نہایت اچھوتے پن اور پختگی سے نبھایا تھا۔ نظم سنانے سے پہلے احمدرضا نے سامعین سے مخاطب ہوکر کہا ’’14 اگست بلاشبہ ہمارے لیے تاریخی دن ہے کہ ہم نے لاکھوں لوگوں کی جان کی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ہے، مگر میرے دل پر کچھ عجیب کیفیت طاری ہے کہ وہ خوش بھی ہے اور افسردہ بھی، کیوں کہ ابھی ہمارے زخم تازہ ہیں اور ملک کی تعمیر کی منزل دور ہے۔ اس ملی جلی کیفیت کو میں نے اپنی اس تازہ نظم میں سمو کر پیش کیا ہے۔ عرض کیا ہے ’’مطربِ خوش نوا ٹھہر، نغمہ سرا ابھی نہ ہو۔‘‘

پہلے مصرع ترنّم سے اٹھا کر مصرعِ ثانی ادا کیا، تو پنڈال واہ واہ کی صدائوں سے گونج اٹھا۔ اس داد سے احمد رضا نے خود کو ہوائوں میں اڑتا محسوس کیا۔ اس کا حوصلہ مزید کھل گیا۔ دوسرے شعر پر بھی داد وصول کی، لیکن تیسرے شعر کو ترنّم میں گھول کرابھی نصف ہی پڑھا تھا کہ گڑبڑا گیا۔ وہ کچھ اور ہی معنی دے رہا تھا، بار بارقلم زدہونے سے اس میں کئی الفاظ متبادل بھی لکھے ہوئے تھے۔ دراصل یہ جشن آزادی پر لکھی گئی نظم نہیں تھی، بلکہ شوکی کی کسی اورغزل پر طبع آزمائی تھی، جو اس نے اسی مصرعے پر وقت گزاری کے لیے لکھی تھی، مگر وہ اوٹ پٹانگ لگی، تو ارادہ ترک کرکے وہ نظم لکھنے بیٹھ گیا۔ 

جس وقت احمد رضا نے اس کے ہاتھ سے عجلت میں کاغذ چھینا تھا، یہی کاٹ چھانٹ والی غزل اس کے ہاتھ میں تھی۔ ساری رات کے جاگے ہوئے شوکی سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔ اس کے سامنے کئی کئی بار لکھے کاغذات کا ڈھیر تھا۔ اُس نے ان ہی میں سے جب یہ کاغذ اٹھایا، عین اسی وقت احمدرضا اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر لے گیا اوراپنے ضرورت سے زیادہ اعتماد کے سبب اس پر ایک نظر بھی ڈالنا گوارہ نہ کی۔ حالاں کہ بے چارہ شوکی بار بار کہہ رہا تھا، ’’رضا بھائی! اس کو ایک بار پڑھ لیں، اس میں تصحیح کی بہت گنجائش ہے۔‘‘ شوکی کو یہ پتا نہیں تھا کہ اس نے پیپر ہی وہ تھما دیا تھا، جسے اس نے کاٹ چھانٹ کر ایک طرف پھینک دیا تھا۔ اب بے چارہ احمد رضا تیسرے شعر کے درمیان ہی میں اٹک گیا۔ غلطی سدھارنے کی کوشش کی، تو اور گڑبڑ ہوگئی۔ اس کو چھوڑ کر چوتھے شعر پرگیا، تو کاٹ چھانٹ کی وجہ سے اس کا پڑھنا بھی دشوار ہوگیا۔ صورتِ حال دیکھ کر منتظمِ مشاعرہ نے احمد رضا کو پرچی دی۔ احمد رضا نے پرچی پڑھی، مگر اس وقت سامعین کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ زبردست ہوٹنگ شروع ہوچکی تھی۔ احمد رضا کے اعتماد کے غبارے سے ایسی ہوا نکلی کہ وہ آگے پڑھنے کی بجائے ماتھے سے پسینہ پونچھنے لگا۔ 

اپنے طور پر مصرعِ اوّل دوبارہ پڑھا، تاکہ ہوٹنگ رُک جائے، مگر سامعین نے اس کی بوکھلاہٹ پر فقرے بازی مزید تیزکردی۔ بالآخر احمد رضا یہ کہہ کر کہ ’’اچانک طبیعت کی خرابی کی بنا پر میں نظم پوری نہیں سنا پارہا۔‘‘ مشاعرہ گاہ سے باہر نکل گیا۔وہ اپنے حد سے بڑھے اعتماد کے ہاتھوں مار کھا گیا تھا۔ مشاعرہ چھوڑ کر اس نے ایسی راہِ فرار اختیار کی کہ ہم فوراً مشاعرہ چھوڑ کر اس کے پیچھے لپکے، مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ ہم نے اسے اِدھر اُدھر تلاش کیا، پھر اس کے گھر کا رخ کیا۔اندر گئے، تووہ اپنی چارپائی پر اوندھا پڑا تھا۔ اسے آواز دی، مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سےاکیلا چھوڑدینے کو کہا۔ چوٹ دل پر لگی تھی، اس لیے دل جوئی لازمی تھی۔ ہم صبح تک اس کے پاس رکے رہے۔صبح ناشتا باہر سے لائے، وہ اسی طرح اوندھا پڑا تھا۔ ناشتے کی خوشبو اور ہمارے بلانے پر وہ اٹھا۔ جب ناشتے پر بیٹھا ،تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ وہ دیر تک روتا رہا ہے۔ناشتے کے بعد پھیکی ہنسی کے ساتھ گویا ہوا ’’رات اس’’ دو نمبر شاعر‘‘ نے میری جو رسوائی کی ،اس کو سزا دینے کے لیے میں نے اسے مار ڈالا۔مجھے لگتا تھا کہ میں آدھا شاعر ہو چکا ہوں۔ شوکی کچھ بھی لکھے، میں سنبھال لوں گا، مگر جب کاغذ کھول کر پڑھا، تو اس کی کٹی پھٹی تحریر دیکھ کر چونکا، پھر پتا چلا کہ یہ نظم نہیں، غزل ہے۔ دوسرے شعر تک ترنّم کے سہارے میں نے اسے نبھا دیا، مگر اس کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ ترنّم کی آڑلےکر اپنی تُک بندی کے سہارے اس صورت ِحال کو سنبھال لوں، مگر وہاں ایک سے ایک قابل شاعر موجود تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ غزل میری نہیں ہے۔ سو، مجھے منتظم کے ہاتھ ایک سینئر شاعر کی لکھی پرچی بھجوا دی، جس میں درج تھا ’’صاحب زادے! عزت بچائو، تم شاعر نہیں ہو۔‘‘ اس پرچی نے میرا رہا سہا اعتماد بھی ختم کر دیا۔ 

میں نے پھر بھی کوشش کی، لیکن کسی نے میرے کُرتے کو کھینچ کر غصّے سے جھٹکا دیا اور ایک پرچی اور تھما دی جس پر لکھا تھا ’’بہت اصلاح کی ضرورت ہے، بہتر ہو گا کہ بہانہ بنا کر تشریف لے جائیں۔‘‘ اب مجھے یہ لگا کہ اگر میں نہیں اٹھا، تووہ مجھے دھکّا دے کر اسٹیج سے اتار دیں گے،وہاں سے معذرت کر کے بھاگنا پڑا۔ مجھے اس بے عزتی سے یہ سبق ملا کہ صرف وہ کام کرو، جس کی تمہارے اندر صلاحیت اور قابلیت ہو۔سو، میں نے آج سے اپنا قلمی نام ترک کردیا ہے، مجھے میرے اصلی نام ثاقب ہی سے پکارا جائے۔‘‘ہم سب سمجھے کہ یہ احمد رضا کا وقتی ردّعمل ہے،کچھ روز بعد واپس اپنی پرانی ڈگر پر آ جائے گا، اسے چند دنوںکے لیے اکیلا چھوڑ دینا بہتر ہو گا۔ تین روز تک ہم اس کے کوارٹر پر نہیں گئے۔ چوتھے روز باہمی مشورے کے بعد جب اس کے پاس گئے، تو ہم اسے پہچان ہی نہ سکے۔ اس کی لمبی گھنی زلفیں جو کندھوں تک جھولتی تھیں، کٹ چکی تھیں، بغیر نمبر والی عینک اترگئی تھی، جو وہ مدبّر نظر آنے کے لیے پہنا کرتا تھا۔ اس تبدیلی نے ہمیں حیران کر دیا۔ اس کے بعد اکثر کبھی اس مشاعرے کے حوالے سے ذکر چِھڑتا تو کہتا کہ’’ مجھے 14؍ اگست کے حوالے سے یہ سبق ہمیشہ یاد رہے گا کہ میرے وطن، جس کے لیے ہم نے جان و مال کی اتنی قربانیاں دیں، اس میں ہم دو نمبر کام کبھی نہ کریں۔ یہ میرے رب کا پیغام ہے، جو میں نے قبول کر لیا۔‘‘

ایسے پیارے لوگ اب ڈھونڈے سےبھی نہیں ملتے۔ اب تو اوپر سے لے کر نیچے تک سب ہی دو نمبر کاموں کو کام یابیوں کا زینہ سمجھنے لگے ہیں۔

(سیّد ارشاد وارث، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین