• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ جنگ کی نوعیت اور کردار بدل چکے ہیں۔ ہائبرڈ وار میں نوجوان اب ہمارے دشمنوں کا بڑا ہدف ہیں۔ نوجوان پُرعزم رہیں اور ایسے تمام خطرات کو شکست دیں۔‘‘ بلاشبہ ،نوجوان مُلکی آبادی کی غالب اکثریت ہیں، اسی لحاظ سے اُن پر مُلک کو ترقّی دینے اور مضبوط کرنے کی بھی سب سے زیادہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے۔ تاہم، یہ ذمّے داری اُسی وقت ادا کی جاسکتی ہے، جب اُنہیں معلوم ہو کہ مُلک و قوم کس قسم کی آزمائش سے دوچار ہے؟ اور اگر قوم حالتِ جنگ میں ہے، تو اس جنگ کی کیا نوعیت ہے؟ نیز، اس میں فوج، عوام اور نوجوانوں کا کیا کردار ہے؟

جب تک دنیا ہے، جنگ اور امن کی آنکھ مچولی بھی جاری رہے گی۔ یہ شاید انسانوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ جتنی توانائی چند روزہ جنگ کے میدان میں ضایع کرتے ہیں، اُسے جمع کرنے میں اُنھیں برسوں لگتے ہیں۔ عموماً سبھی امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بات چیت، مذاکرات اور طرح طرح کے فورمز بھی بنائے جاتے ہیں، لیکن قوموں اور مُلکوں کے درمیان اچانک مفادات کا ایسا ٹکرائو اُبھرتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ وہی لوگ، جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہوتے ہیں، آپس میں دشمن بن جاتے ہیں۔ اس طرح کی جنگوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے ایک جدید قسم،’’ ہائبرڈ جنگ‘‘ ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیا جائے کہ ہائبرڈ اور روایتی جنگ میں کیا فرق ہے۔ کارل وان کلازوچ کا، جو جنگی حکمتِ عملی کے مستند فلسفیوں میں شمار ہوتے ہیں، کہنا ہے کہ’’ جنگ، درحقیقت سیاست ہی کا تسلسل ہے، گو اس کے ذرایع مختلف ہیں۔‘‘ جن ماہرین نے ہائبرڈ جنگ کی اصطلاح متعارف کروائی، اُن کے مطابق’’ ہائبرڈ جنگ میں روایتی جنگ کے ساتھ، دشمن کو زیر کرنے کے لیے پروپیگنڈے وغیرہ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ دشمن کو کم زَور یا گُم راہ کر کے اُس کی یک جہتی کو نقصان پہچایا جا سکے۔‘‘ چوں کہ یہ انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور اسمارٹ فونز کا زمانہ ہے، اس لیے سب سے زیادہ اہمیت اسی ٹول کو ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کے طور پر دی جارہی ہے۔‘‘ ہائبرڈ جنگ کے ماہرین میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکا سے ہے، اسی لیے اُن کے سامنے روس اس ہائبرڈ جنگ کی بڑی مثال ہے۔ اُن کی تھیوری ہے کہ روس اسی جنگ کے طریقۂ کار کو بروئے کار لاکر اپنے ٹوٹنے اور سُکڑنے کے بعد دوبارہ ایک بڑی طاقت کا رُوپ دھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اس جنگ کا صدر پیوٹن سے براہِ راست تعلق جوڑتے ہیں، جس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ روس کے بکھرنے کے بعد جس روسی لیڈر نے سب سے زیادہ اور پُرزور غم منایا ، وہ پیوٹن تھے۔ اُنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بار ہا قسم کھائی کہ وہ روس کی عظمتِ رفتہ بحال کریں گے۔ وہ سوویت ایمپائیر کی شکست و ریخت کو مغربی طاقتوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔2005 ء میں ایک خطاب میں اُنہوں نے کہا’’ سوویت یونین کا بکھرنا، تاریخ کا سب سے بڑا جیو پولیٹکل المیہ ہے۔‘‘ دوم، صدر پیوٹن کا تعلق روس کی بدنامِ زمانہ انٹیلی جینس ایجینسی،’’ کے جی بی‘‘ سے تھا اور وہ اس کے اعلیٰ عُہدے دار رہے۔ امریکی ماہرین کو یقین ہے کہ وہ کنونشنل وار سے زیادہ انٹیلی جینس جنگ کو استعمال کر رہے ہیں۔ 

اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ روس کے لیے روایتی یا نیوکلیئر جنگ میں امریکا یا مغربی طاقتوں کو شکست دینا ممکن نہیں۔ سرد جنگ اور اس کے بعد، افغانستان اور یورپ کے میدانوں میں اپنی تمام تر ایٹمی برتری کے باوجود، وہ مغرب کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہی نہیں ہوا، بلکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہونا پڑا۔ ماہرین کے مطابق، اگر خالص فوجی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو1980 ء کے زمانے میں، جب مغرب اور روس تیسری جنگِ عظیم میں ملوّث تھے(اسے تیسری جنگِ عظیم ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ دو سُپرپاورز کے درمیان تھی )، روس کے پاس نہ تو ہتھیاروں کی کمی تھی اور نہ ہی فوج کی۔ اُس کے جوہری اسلحہ خانے میں تو امریکا سے بھی زیادہ میزائل اور ایٹم بم موجود تھے، لیکن جب اصل معرکہ درپیش ہوا، تو یہ سارے روایتی جنگی ہتھیار دَھرے کے دَھرے رہ گئے۔ سوویت حکم ران، امریکا اور مغرب کی انتہائی مؤثر نظریاتی یلغار کے سامنے بند باندھنے میں ناکام رہے۔ یورپ اور امریکا نے ٹی وی پرپیگنڈے کے ذریعے بھی ثابت کر دیا کہ روس کا کمیونسٹ نظام، ایک جابرانہ نظام ہے، جو اس کے اپنے شہریوں کی آزادی کے ساتھ ظلم ہے۔ اُن کی جانب سے روس کو’’ آہنی پردے‘‘ یا’’ آئرن کرٹن‘‘ کا نام دیا گیا اور حقیقت بھی یہی تھی۔ سوویت کمیونزم نے مساوات کے نام پر جو نظام قائم کیا، اُس نے ڈبل روٹی اور سبزیاں لینے کے لیے بھی لوگوں کو لمبی قطاریں لگانے پر مجبور کیا، جب کہ رہنے کے لیے مناسب مکان بھی عوام کے لیے خواب بن گیا۔ پھر یَک پارٹی اقتدار نے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع سے بھی عوام کو محروم کیا۔ ایسے میں مغربی مُمالک کے ترقّی یافتہ معاشروں کا ماڈل، عام روسیوں کے لیے بڑی کشش کا باعث رہا، جسے اُنہوں نے مغربی یورپ میں خود اپنی آنکھو ں سے دیکھا اور ٹی وی اسکرینز سے بھی متاثر ہوئے۔ یہی سبب ہے کہ گوربا چوف اور بورس یلسن جیسے روسی رہنماؤں نے خود’’ پیراسٹرائیکا‘‘ اور’’ گلاسنوٹ‘‘ کے نظریے پیش کیے، جن کا لبِ لباب ایک کُھلا معاشرتی نظام تھا۔ نیز، نوبل انعام یافتہ مصنّف،Aleksandr Solzhenitsyn اُس زمانے میں روسی عوام کے فکری رہنما اور ہیرو بن گئے، جن کے ناولز میں سویت جبر واستبداد کی داستانیں سُنائی جاتی تھیں۔

اگر دیکھا جائے، تو سوویت یونین کا ٹوٹنا بھی ہائبرڈ وار فیئر ہی کا نتیجہ تھا، کیوں کہ مغرب نے اُس کے خلاف غیر روایتی جنگی ہتھیار استعمال کیے اور وہ کام یاب بھی رہے۔ مغربی حکمتِ عملی کے ماہرین کو یقین ہے کہ اب صدر پیوٹن بھی امریکا اور مغرب کے خلاف اُسی طرح کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں، جو روس کے خلاف اپنائی گئی تھی۔ اس ضمن میں ماہرین اوباما دَور اور 2016 ء کے امریکی صدارتی انتخابات کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہیں۔ اوباما دَور میں یوکرین اور شام کی خانہ جنگی عالمی تنازعات میں سرِفہرست رہی اور ان دونوں میں روس فاتح بن کر سامنے آیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ اُس کی بڑی کام یابی تھی، جب کہ اس کے مقابلے میں امریکا کو عراق، شام اور اس سے قبل ویت نام میں خاصی ناکامی ہوئی۔ ان واقعات کے بعد صدر پیوٹن کا امیج ایک مضبوط لیڈر اور مردِ آہن کے طور پر ابھرا، جسے نہ صرف روس کے عوام نے سراہا، بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ جب یوکرین میں روس کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس کے عوام اور قیادت نے روس کی بجائے یورپ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، تو صدر پیوٹن نے بڑی کام یابی سے شمالی یوکرین میں، جس میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، بے چینی پیدا کر دی، جس کے نتیجے میں عوام مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت پر اُتر آئے۔ اس بغاوت کو روس کی مالی، اخلاقی اور فوجی مدد حاصل رہی۔ اسی طرح، پیوٹن نے ایک اور تیز رفتار قدم اٹھاتے ہوئے یوکرین کے جزیرے، کریمیا میں بھی فوجیں اُتار کر اُس پر قبضہ کر لیا۔ نیٹو جیسی طاقت کی موجودگی میں یہ بہت بڑا قدم تھا، لیکن یورپ اور امریکا کوئی خاص مزاحمت نہ کرسکے۔ اوباما اور اُن کے ساتھی یورپی لیڈروں نے صرف اقتصادی پابندیاں لگانے ہی پر اکتفا کیا۔ صدر پیوٹن نے جب کریمیا پر قبضہ کیا، تو اُس کا جواز، وہاں روسی زبان بولنے والی اکثریت بتایا۔ پھر ایک اور فیصلہ کُن قدم اٹھاتے ہوئے کریمیا کو روسی فیڈریشن کا آئینی حصّہ بنا لیا۔ اور مغرب اس پر بھی کچھ نہ کرسکا۔

صدر پیوٹن نے دوسری کام یاب ہائبرڈ وار، مشرقِ وسطیٰ میں لڑی۔ اُن کا اس مرتبہ میدانِ جنگ شام تھا ۔ روسی صدر نے یہاں اپنی خارجہ اور فوجی پالیسی کے امتزاج کو بڑی کام یابی سے استعمال کیا۔ پہلے امریکا اور یورپ کو داعش کے خلاف استعمال کرنے کے لیے امریکی صدر، باراک اوباما اور وزیرِ خارجہ، جان کیری کو اس بات پر قائل کیا کہ صدر اسد کو شکست دینے سے زیادہ اہم، داعش کو ختم کرنا ہے، جس میں روس کی شمولیت ضروری ہے۔ امریکا کے گرین سگنل پر صدر پیوٹن نے برق رفتاری سے اپنی زبردست فوجی قوّت، فضائی بم باری کی شکل میں، شامی صدر، بشار الاسد کی حمایت میں پہنچا دی۔ اُنہوں نے ایران کے ساتھ مل کر داعش کی بجائے، شامی اپوزیشن کو انتہائی بے رحمی سے بم باری کا نشانہ بنایا۔ دوسال کی فوجی مداخلت اور مدد کے بعد آخرکار روس کام یاب ہوگیا۔ صدر اسد کی حکومت، جو شام کے تین چوتھائی حصّے سے کنٹرول کھو چکی تھی، دوبارہ ان علاقوں پر قابض ہوچکی ہے۔ روس کام یاب اور اسدفاتح، جب کہ شامی عوام اور مُلک تباہ حال۔ روس نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور فوجی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے داعش اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پروپیگنڈا کیا۔ اُس نے شکست تو شامی اپوزیشن کو دی، جو صدر اسد کو ہٹا کر انتخابات کی جدوجہد کر رہی تھی، لیکن تاثر یہی دیا کہ دہشت گرد ہار گئے اور اس پروپیگنڈے کو دنیا میں پزیرائی بھی ملی۔ 

خود امریکی میڈیا نے اس اَمر کا اعتراف کیا کہ صدر اوباما کو روسی سربراہ کی پالیسیز کے سامنے زبردست شکست ہوئی اور وہ پیوٹن کے سامنے ایک کم عقل حکم ران ثابت ہوئے۔ امریکا، جو مشرقِ وسطیٰ چھوڑنے کی بات کر رہا تھا، دوبارہ وہاں آنے پر مجبور ہوا، جب کہ روس کے اُکھڑتے قدم واپس جم گئے اور وہ خطّے میں ایک اہم کھلاڑی بن کر سامنے آیا۔ عرب دنیا کی بھی یہ بڑی شکست تھی، جو شام میں اپوزیشن کی حمایت کر رہے تھے۔ شاید پیوٹن نے بڑی کام یابی سے افغانستان میں عرب دنیا کے سویت جنگ میں کردار کا حساب بھی چُکا دیا۔ یہ کوئی معمولی کام یابی نہیں، یقیناً صدر پیوٹن اس کا بجا طور پر کریڈٹ لے سکتے ہیں۔

امریکی انتخابات میں بھی روس کی ہائبرڈ جنگ کا بہت زیادہ شور رہا۔ امریکی میڈیا کے ایک بڑے حصّے میں روس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُس نے 2016 ء میں ایسی ای میلز افشا کیں، جن سے ہلیری کلنٹن کو نقصان پہنچا۔ اُن کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے یہ کارروائی، صدر پیوٹن کے براہِ راست احکامات پر کی، جس کے لیے ماہر کمپیوٹر ہیکرز کی مدد حاصل کی گئی تھی۔ اگر ان الزامات کا جائزہ لیا جائے، تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ روس، ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے حق میں اپنی سائیبر مہارت کو استعمال کرتا رہا اور بالآخر اُنہیں فتح یاب کروانے میں کام یاب رہا۔ غیر جانب دار ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کے لیے امریکی انتخابات پر اس طرح اثر انداز ہونا ممکن نہیں، کیوں کہ اُن کا جمہوری نظام بہت مضبوط ہے، لیکن اگر روس نے ایسی کوئی کارروائی کی بھی ہے، تو اس کی کام یابی امریکی میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں واضح تقسیم ہے۔ میڈیا کا ایک حصّہ واضح طور پر صدر ٹرمپ کے خلاف ہے اور اُن کے ہر قدم کو نہ صرف امریکا، بلکہ دنیا کے لیے مضر قرار دیتا ہے۔ جب کہ میڈیا کا دوسرا حصّہ مضبوطی سے صدر ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ وہ اُن کی’’ امریکا فرسٹ پالیسی‘‘ کی حمایت کے ساتھ، ٹرمپ کو مردِ آہن کے طور پر بھی پیش کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تقسیم میں روسی پالیسیز کا کردار ہوسکتا ہے۔ تاہم ،صدر پیوٹن کے مردِ آہن کے امیج نے امریکی عوام میں بھی ایک مضبوط لیڈر کی خواہش پیدا کی، جو دنیا کو سخت اور سُپر پاور لیڈر کے لہجے میں مخاطب کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس کی جیتی جاگتی شکل ہیں۔ درحقیقت، یہ روسی پالیسی کے نتائج کا ایک منفی پہلو ہے، جس کا اندازہ شاید پیوٹن کو نہیں تھا۔

پاکستان بھی1971 ء سے جنگی صُورتِ حال سے دوچار ہے۔بنگلا دیش کے قیام میں جہاں فوجی عوامل شامل تھے، وہیں بنگالی قومیت کا عُنصر بھی اہم تھا، جو وفاقی نظریے پر حاوی ہوگیا۔ اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ بھارت نے بنگلا قومیت کے نعرے کے ذریعے پاکستان کو توڑنے میں کردار ادا کیا اور اُسے روس کی خفیہ ایجینسی،’’ کے جی بی‘‘ کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔ اس کے بعد دو افغان جنگوں اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی شدّت پسندی اور دہشت گردی نے پھر پاکستان کو آزمائش سے دوچار کردیا۔ یہ جنگ بھی بہت حد تک ہائبرڈ وار ہی ہے۔ جہاں اس میں بھارت اور افغان حکومتوں کا کردار ہے، وہیں شدّت پسند تنظیموں کا بھی بڑا رول ہے۔ ان تنظیموں نے جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ، مُلک میں معاشرتی اور فکری تقسیم بھی پیدا کردی۔یوں یہ ایک نظریاتی جنگ بھی بن چُکی ہے، جس کا مقابلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑے گا۔ میدانِ جنگ میں تو پاک فوج نے دہشت گردوں کو شکست دے کر بُری طرح پسپائی پر مجبور کردیا ہے، لیکن یہ گروہ معاشرے میں شدّت پسندی، عدم برداشت اور مذہبی تفریق کو فروغ دینے کی شکل میں موجود ہیں۔ اسے ہر گز لبرل اور مذہبی تفریق میں نہیں ڈھلنے دینا چاہیے۔ دشمن ہم میں سے ایسے افراد کو تلاش کر کے مُلک کے خلاف استعمال کرتا ہے، جو کم زَور یا کسی دبائو کا شکار ہوں۔ 

محرومی، ناانصافی، عدم توازن کا شکار معاشرہ، ایسے دشمن کا آسان ہدف ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا، جس کا بہت ذکر ہوتا ہے، انہی طبقوں پر جلد اثر انداز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر دیکھا جائے، تو یہ ہائبرڈ جنگ، اگر خود کُش ہتھیاروں اور براہِ راست گروپ حملوں کی شکل میں ایک فوجی جنگ ہے، تو دوسری طرف معاشرے میں بے چینی پیدا کر کے اتحاد کو کم زَور کرنا اسی جنگ کا دوسرا بلکہ بڑا محاذ۔ افواجِ پاکستان تو اس ہائبرڈ جنگ میں کام یابی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ عوام اور حکومتیں کیا کریں کہ اس عفریت کی بیخ کنی کی جاسکے؟ ماہرین کے مطابق، اس کے خلاف سب سے کام یاب ہتھیار عوام کی یک جہتی، شعور اور ان کا عزم ہے۔ اہلِ دانش اس اَمر پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ معاشرے کو مضبوط کرنے کا سب سے بہترین طریقہ، مضبوط جمہوریت ہے۔ کیوں کہ اسی کے ذریعے عوام ایک منتخب اور بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لیڈر شپ تیار کرسکتی ہے۔پھر ایک مضبوط معیشت بھی لازم ہے، جو معاشرے میں موجود عدم توازن ختم کرسکے۔ نیز، نوجوانوں کو مطمئن کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔ اُنھیں تعلیم و تربیت کے ساتھ، باعزّت روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، کیوں کہ خالی خولی نعروں سے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی کہ مُلک کی سمت متعیّن کرنا ہوگی۔ کیسا مُلک بنانا ہے؟ دنیا میں کیا مقام ہونا چاہیے؟ علاقے میں کیا کردار اپنانا ہے؟ مختلف ممالک سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ معاشی مفادات کا تحفّظ کس طرح کیا جائے ؟ اب یہ ساری باتیں طے کرنے کا وقت آچکا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وقت بڑی تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔

تازہ ترین