• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرہ توقیر،کراچی

اسلامی کیلنڈر کا ماہِ ذی الحج اپنے دامن میں بہت سے اہم واقعات سمیٹے آتا ہے۔ مثلاً اس ماہ، اسلام کے اہم رکن، حج کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے اور حج، اسلام کا وہ رکن ہے، جس میں عازمینِ حج ایک جیسے لباس میں ملبوس ہوکر جہاں اس بات کا اعلانیہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کلمۂ توحید، ایک اللہ، ایک رسول اور ایک کتاب پر ایمان لانے والے تمام افراد رنگ و نسل اور وطن سے بالاتر اُمّتِ مسلمہ کی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، تو وہیں یک جہتی اور انسانی مساوات کا عظیم الشان مظہر بھی سامنے آتا ہے۔ وہ واقعہ بھی اسی ماہ کے پہلو میں آبادہے، جب ایک بے بس ماں اپنے شیر خوار بچّے کی پیاس سے مجبور ہو کر مکّے کی بے آب و گیاہ وادی میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر بے قراری سے دوڑ رہی تھی کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے اور وہ اپنے معصوم بچّے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھا سکے۔یہ تڑپ ہی کی انتہا تھی کہ ننّھے اسماعیلؑ کی ایڑیوں کی رگڑ سےایک ایسا بابرکت چشمہ’’ آبِ زم زم‘‘ جاری ہوا کہ پھر جس کے سبب اِک بے آب و گیاہ وادی میں پوری ایک بستی آباد ہوگئی اور وہ بہتا چشمہ، آج تک پیاسوں کو سیراب کرتا چلا آ رہا ہے۔ 

اُس بے قرار ماں، حضرت ہاجرہؑ کی یہ دوڑ دھوپ اللہ رب العزّت کو اس قدر بھائی کہ اسے حج و عُمرے کا لازمی حصّہ قرار دے دیا۔ پھرسب سے اہم صبر و قناعت، ایثار و قربانی کی وہ داستان کون بھول سکتا ہے،جب حضرت ابراہیم ؑنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے گئے، ایک خواب کی تعمیل میں اپنے لختِ جگر کو چُھری تلے لٹا دیا۔یہ آزمائش کڑی تھی، تب ہی تو اپنے محبوب نبی کو اس پر پورا اُترنے پہ’’خلیل اللہ ‘‘ یعنی’’اللہ کے دوست‘‘کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا۔پس،اسی کی یاد میں لاکھوں فرزندان توحید ذی الحج میں اپنے رَب کے حکم اورنبیﷺ کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اُس عہد کو دہراتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ؑنے رب سے کہا تھا ،’’ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘

اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے، تو نمود و نمایش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقے پر گوشت کی تقسیم کی پوری پوری کوشش کریں۔ اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصّوں میں منقسم کرکے دو حصّے صدقہ کرنا اور ایک حصّہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔دیکھا گیا ہے کہ رشتے داروں کے نام پر رکھا جانے والا حصّہ زیادہ تر سُسرالیوں کے پاس جاتا ہے، جو درست نہیں۔ کوشش کریں کہ رشتے داروں میں سب سے پہلےان لوگوں کو ترجیح دیں، جو مستحق ہیں۔ جیسے یتیم اور بیوہ خواتین وغیرہ۔ پھر اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلۂ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ عموماً قربانی کے بعد دروازے پر گوشت مانگنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔یہ افراد گھر گھر مانگ کرمستحقین کو ان کے حق سے محروم کردیتے ہیں، لہٰذازیادہ بہتر تو یہی ہے کہ گوشت کے پیکٹس بنا کر کچّی آبادی میں تقسیم کردیے جائیں۔اور یہ نیک کام اپنے بچّوں کے ہاتھوں کروائیں، اس طرح ان میں دینے اور دوسروں کو دیکھ کر اپنے پاس موجود اللہ کی نعمتوں کا شُکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔یاد رکھیے،عیدِ قرباں ایک مذہبی تہوار ہے،جس کے تقدس اور احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا ناگزیر ہے۔لہٰذا اس اہم، دینی تہوار کے موقعے پر کوئی ایسا کام نہ کریں، جو آپ کو اجروثواب سے محروم کردے۔

تازہ ترین