• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حامد فیاض، اسلام آباد

قربانی کامقصد و حقیقت: ’’قربانی‘‘ زمانۂ قدیم سے تمام شریعتوں کا ایک لازمی جزو رہی ہے۔ دراصل یہ جان کی نذر ہے، جو اللہ کے حضور جانور کو قائم مقام بنا کر پیش کی جاتی ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو یہ عبادت کا منتہائے کمال ہے۔قربانی کی تاریخ حضرت آدم ؑ ہی سے شروع ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ہابیل اور قابیل کے واقعے میں اس کا ذکر ہے۔انجیل کی ’’کتابِ پیدایش‘‘ میں اس کی تفصیل یوں ہے کہ قابیل اپنے کھیتوں کے پھلوں کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابیل اپنی بھیڑ بکریوں کے پہلوٹھے میمنوں اور اُن کی چربی کا ہدیہ۔ خداوند نے ہابیل اور اس کے ہدیے کو قبول کرلیا اور قابیل کے ہدیے کو قبول نہ کیا۔ اس قبولیت اور عدم قبولیت کی اطلاع انہیں کیسے ہوئی؟اس حوالے سےمختلف آراءپائی جاتی ہیں۔تاہم، سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر183میں ہے کہ خالقِ کائنات نے اپنی موجودگی کے فطری احساس کو یقین و ایمان کے درجے میں لانے کے لیے، ابتدا میں صدقہ و قربانی کی قبولیت کا یہ طریقۂ کار اختیار کیا کہ آسمان سے آگ اُترتی اور لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی قربانی کو کھا جاتی۔اگرچہ قربانی کے آثار ہمیں تمام قدیم مذاہب میں ملتے ہیں، لیکن حضرت ابراہیم ؑ کےاس واقعے کے بعد جو ہمہ گیری اور اہمیت قربانی کو حاصل ہوئی، وہ اس سے قبل یقیناً نہیں تھی۔ 

جیسا کہ قرآن اور سابقہ صحائف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی دُعا قبول کرتے ہوئے اللہ نے تقریباً90سال کی عُمر میں انہیں ایک فرزند عطا کیا، جو حضرت اسمٰعیل ؑ تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اِس بچّے کو پالا پوسا، یہاں تک کہ وہ اس عُمر کو پہنچ گیا، جب اولاد والدین کے کاموں میں ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں اُن کا ساتھ دینے کے قابل ہوجاتی ہے۔ ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ منّتوں مُرادوں کے بعد بیٹا ہو، تو وہ کتنا عزیز ہوتا ہے،مگر مسلمان کی تعریف تو یہی ہے کہ اُسے اللہ اور اس کی رضا سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ اس لیے سیدنا ابراہیم ؑ، صریح حکم کے بجائے محض ایک رویا میں اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے فرزند کو خود اپنے ہاتھوں سے قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے اوراپنےلختِ جگرکے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے انہیں اپنا خواب سُنایا۔حضرت اسمٰعیل ؑ نے بھی اس خواب کو اللہ کا حکم سمجھا اور جواب دیا، ’’آپ بے دریغ اس حکم کی تعمیل کریں ،ان شاء اللہ مجھے ثابت قدم پائیں گے ۔‘‘اس جواب سے مطمئن ہو کر حضرت ابراہیم ؑ بیٹے کو حرم کے قریب مروہ پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے پیشانی کے بَل لٹادیا۔ قریب تھا کہ چُھری چل جاتی، اللہ کی طرف سے ندا آئی،’’ابراہیم ؑ تم نے خواب سچ کر دکھایا۔بیٹے کی قربانی یقیناً بہت بڑی آزمایش تھی، جس میں سیدنا ابراہیم ؑ کام یاب ہوئے اور اس طرح انہیں انسانوں کا امام و پیشوا بنادیا گیا۔اس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال اِسی دِن اس قربانی کی روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔یہی قربانی ہے، جس کا اہتمام حج اور عید الاضحی کے موقعے پر کیا جاتا ہے،جس کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، ایمان کی کیفیت اور اپنے پروردگار کے ساتھ محبّت و وفا داری کی شان پیدا ہو، جس کا مظاہرہ ابراہیمؑ خلیل اللہ نے پوری زندگی کیا۔ اگر کوئی شخص جانور کے گلے پر چُھری چلاتا ہے اور اُس کا دِل حقیقی شعور سے خالی ہو، تو وہ محض جانور کا ناحق خون بہاتا ہے، جس کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔

قربانی کا حکم: قرآنِ پاک میں ہے،’’ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرّر کر دیا ہے، تاکہ (اس اُمّت کے)لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔‘‘ایک اور جگہ فرمایا،’’اے محمّدﷺ! کہو میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا، میرا مرنا، سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘نبی کریم ﷺنے قربانی کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا،’’جس میں وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے،وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہرگز نہ آئے۔‘‘حضرت عبداللہ ابنِ عُمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضور ﷺمدینہ میں دس سال رہے اور اس عرصے میں آپ نے ہر سال قربانی فرمائی۔‘‘

عیدالاضحی کا تہوار: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مذہبی ہی نہیں، تمدنی زندگی سے متعلق بھی رہنمائی فرمائی ہےاور کچھ آداب مقرّر کیے ہیں۔اسی لیے عید الاضحی کا تہوار منانے کا طریقہ اتنا پاکیزہ ہے کہ اس سے زیادہ مہذب اور اخلاقی فائدوں سے لبریز طریقہ تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ عہد میں عید کے تہوار اور اس کے آداب میں جاہلیت کے افعال دَر آئے ہیں، لہٰذا ہر فرد اپنے طورپرحضور ﷺاور صحابہ کرام ؓ کے درخشاں دَور کی طرح اس تہوار کی پاکیزگی لوٹانےکی کوشش کرے۔عید کی صُبح تمام مسلمان غسل کر کے نئے کپڑے پہنیں، جنہیں نئے میسّر نہ ہوں وہ کم سے کم دُھلے ہوئے کپڑے ضرور پہنیں۔ عید کی نماز کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے۔ خاندان کے کم سِن بچّوں کو بھی عید گاہ ضرور ساتھ لے کر جائیں،جہاں خواتین کی شرکت کا انتظام موجود ہو، وہاں انہیں بھی شریک کروائیں، تاکہ بچّے اور خواتین بھی عید الاضحی کے حقیقی مقاصد کو جان سکیں، اللہ کے ذکر میں انہیں بھی شریک ہونے کا طریقہ سکھائیں۔عید، اجتماعی خوشی کا تہوار ہے۔ اس لیے نمازِ عید کے بعد امام صاحب اورنمازیوں سے عید ملیں کہ یہ مسنون بھی ہے اور عید ملتے ہوئے کوئی بھی الفاظ کہے جا سکتے ہیں ۔مثلاً ’’عید مبارک‘‘ یا ’’بارک اللہ لکم۔‘‘روایات میں جواب کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں،’’تقبل اللہ منا و منک۔‘‘حضور ؐ کی ہدایت کے مطابق عید گاہ سے واپس آتے ہوئے راستہ تبدیل کر لیں۔ قربانی کے جانور کی خریداری میں بھی شریک ہوں۔ قربانی کے جانوروں کو گھروںمیں لائیں اور ان کے کھانے پینے اور صفائی کا خیال رکھیں، بچّوں کو ان کے ساتھ کھیلنے اور انہیں کِھلانے کا موقع بھی دیں ۔

تہوار منانے کے طریقے دنیا بَھرکی تہذیبوں میں مختلف رہے ہیں ۔ کہیں تہوار لُطف و تفریح اور کھیل کو د ہی تک محدود رہتا ہے،توکہیں یہ تفریحات تہذیب کی حدود سے گزر کر فسق و فجور کی حد تک پہنچ جاتی ہیں ۔ دینِ اسلام ہمیں ان تہواروں کے ذریعے ایک تہذیب کے رشتے میں پرونا چاہتا ہے ۔خوشی کے ان مواقع پر چاہتا ہے کہ یہ تہوار محض لطف و تفریح اور کھیل کود ہی پر ختم نہ ہوں، بلکہ ان پر خدا پرستی کی گہری چھاپ ہو، اس خدا پرستی کے ساتھ عالی اخلاق، معروف کی دعوت اور حمایت اسلام جیسے بُلند نصب العین سے محبّت بھی پیدا ہو۔انہی ہدایات کی روشنی میں اس مذہبی تہوار کی حقیقت، اس کی اہمیت اور اس کے منانے کے لیے بچّوں کی بھی رہنمائی کریں ۔علاوہ ازیں، اس موقعے پر حسبِ استطاعت بچّوں کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری کا اہتمام کیا جائے، بچّیوں کو چوں کہ زیب و زینت کا فطری شوق ہوتا ہے، اس لیے چوڑیوں اور مہندی وغیرہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس موقعے پر عموماً بچّے پٹاخوں، غباروں یا ایسے ہی دیگر کھلونوں سے اپنی تفریح کا اہتمام کرتے ہیں،تو بڑے اپنی تفریح کے لیے مِلنے ملانے، ٹی وی پروگرامز دیکھنے یا اگر موقع مِل جائے، تو گھومنے پھرنے کا پروگرام بھی بنالیتے ہیں۔اگر سیر و تفریح کے لیے جائیں اور ممکن ہو، تو اپنی قومی و ثقافتی جگہوں کا انتخاب کریں۔اس موقعے پر اپنے گر دو نواح میں ان لوگوں کا بھی ضرور خیال رکھیں، جو وسائل کی کمی کے باعث ان خوشیوں میں شریک نہ ہو سکتے ہوں۔

قربانی کا قانون اورجانور کا تزکیہ: نبی کریم ﷺنے ہدایت فرمائی ہے کہ قربانی کرنے والے افراد، قدیم روایت کے مطابق قربانی سے پہلے نہ اپنے ناخن کاٹیں اور نہ بال کتروائیں۔قربانی کا وقت 10ذوالحجہ کو عید الاضحی کی نماز کے بعد شروع ہو تا ہے،جب کہ قربانی کے جانور کے بارے میں حکم ہے کہ وہ بے عیب ہو۔ بکرا یا بکری، کم از کم ایک سال، بیل، گائے دو سال اور اونٹ یا اونٹنی کم از کم پانچ سال کے ہونے چاہئیں۔ مینڈھا اور بھیڑ چھے ماہ کی بھی کفایت کرتی ہے۔ بیل، گائے اور اونٹ کی قربانی میں ایک سے زائد افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں۔البتہ سب کی نیّت قربانی ہی کی ہو۔ اگر کسی کا مقصد قربانی نہیں، بلکہ گوشت کاحصول ہو، تو سب کی قربانی نہیں ہوگی۔قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی کِھلا سکتے ہیں۔ افضل یہ ہے کہ گوشت کے تین حصّے کیے جائیں۔ ایک اہل و عیال کے لیے رکھا جائے،دوسرا رشتے داروں اور دوستوں کے لیے اور ایک حصّہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے۔قربانی کا گوشت قسائی کی اجرت میں دینا اور فروخت کرنا جائز نہیں۔قربانی کی کھال بھی صدقہ کر دی جائے۔قربانی کے جانور کو خود ذبح کرنے کی فضیلت ہے، اگر خود ذبح نہ کیا جا سکے، تو کم سے کم اس عمل میں شرکت ضرورکریں۔ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کیا جائے۔ جانوروں کے تزکیے کا اسلامی طریقہ ذبح یا نحر ہے۔ذبح بیل، بکرے، بھیڑ اور اس کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ کے لیے۔ ذبح سے مُراد یہ ہے کہ چُھری یا کسی تیز دھار چیز سے حلقوم اور غذاکی نالی یا حلقوم اور گردن کی رگوں کو کاٹ دیا جائے۔ نحر یہ ہے کہ اونٹ کے حلقوم میں نیزے جیسی تیز دھار چیز اس طرح چُبھوئی جائے کہ خون بہہ بہہ کر جانور بے دَم ہو جائے۔ دونوں صورتوں میں مقصود گوشت کو خون کی نجاست سے پاک کرنا ہے۔ حلال جانور میں صرف بہتا ہوا خون ہی حرام ہے یا وہ چند چیزیں مکروہ ہیں، جنہیں انسانی فطرت پسند نہیں کرتی۔

ماحول کو آلودگی سے بچائیں: عموماً دیکھا گیا ہے کہ قربانی کے بعد جانوروں کی انتڑیاں، اوجڑیاں اور دیگر فُضلات سڑکوں، گلی محلّوں، چوراہوں اور نالیوں میں پھینک دئیے جائے، جو ماحول کو تعفن زدہ ہی نہیں کرتے،جراثیم کی افزایش اور مختلف بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔اگرچہ شہروں میں بالعموم قربانی کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام توہوتا ہے، مگر اسے مزید بہتر بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں، قصبوں وغیرہ میں انتظامیہ کی جانب سے ایسا کوئی معقول انتظام نہیں کیا جاتا، لہٰذا وہاں اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت ہی انفرادی یا اجتماعی طور پر ان آلائشوں کو آبادی سے دُورٹھکانے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ ویسے ہمارا دین صرف ہمارے علم و عمل اور اخلاق ہی کا تزکیہ نہیں چاہتا، بلکہ یہ اس ماحول کو بھی پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے، جہاں مسلمان رہتے بستے ہوں۔

قربانی کا گوشت اور چند احتیاطیں: بیش تر گھرانوں میں سبزیوں کی بجائے گوشت زیادہ رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ غذائیت کے اعتبار سے بھی سبزیوں کی نسبت گوشت لحمیات سے بَھرپور ہے اور اس میں روغنی اجزا بھی زائد مقدار میں پائے ہیں۔ اس ضمن میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر61میں بھی اشارہ موجود ہے،جس میںسبزیوں کے مطالبے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جواب دیا کہ’’ تم ایک بہتر چیز کو کم تر چیز سے بدلنا چاہتے ہو؟‘‘ تمام قدیم و جدید تہذیبوں میں گوشت کے بغیر دسترخوان ادھورا ہی سمجھا جاتاہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺکی خوراک میں بھی گوشت نمایاں طور پر شامل تھا۔حضور پاک ﷺنےعام دِنوں کے علاوہ قربانی کے گوشت کو بھی پسند فرمایا ہے۔ حضورﷺنے حجتہ الوداع کے موقعے پر100اونٹ ذبح کیے۔اونٹ، اہلِ عرب کی عمومی اور پسندیدہ غذا تھی،حضورﷺنےاس کا گوشت کئی بارتناول فرمایا۔ایک روایت کے مطابق حضورِ پاکﷺ نےاونٹ کا اُبلا ہوا گوشت اور کوئلوں پر بُھنی ہوئی کلیجی بھی تناول فرمائی۔اسی طرح بکری اور بھیڑ کا گوشت بھی نبی کریم ﷺنے زندگی میں بہت مرتبہ کھایا ۔ عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ حضرت محمّدﷺ کودَستی کا گوشت پسند تھا۔عربوں میں گوشت کے ٹکڑے پانی میں اُبال کر اس میں جَو کا آٹا ملا کرپکایا جاتا تھا،جو عربوں کاحلیم کہلاتاہے، اسےبھی ہمارےپیارے نبی ﷺنے پسند فرمایا ۔حضورﷺکے عہد میں عموماًگوشت کے ٹکڑوں پر نمک چھڑک کر دھوپ میں خشک کر لیا جاتا تھا،جو پھرکئی ماہ تک استعمال کیا جاتا تھا۔حضور ﷺنے یہ خشک گوشت بھی کئی مرتبہ کھایا۔سو،قربانی کے گوشت کو اپنے استعمال میں ضرور لائیں اوراپنے روایتی اور پسندیدہ کھانوں کے ساتھ ساتھ بابرکت پکوانوں کو بھی اپنے دسترخوان کی زینت بنائیں، جنہیں ہمارے حضور ﷺنے پسندفرمایا۔ وہ گوشت ،جو تقسیم کے بعد اپنی ضرورت کے لیے رکھا گیا ہو، محفوظ کرنے کے لیے فریزر میں رکھ دیں۔ جنہیں یہ سہولت میسّر نہ ہو، وہ قدیم طریقے کے مطابق خشک کرکے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ محفوظ کیا گیا گوشت اگر اچھی طرح نہ پکایا جائے،تو اس میں موجود بیکٹیریا ختم نہیں ہوتے اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔لہٰذا خشک گوشت پکاتے ہوئے لیموں اور سِرکے کا استعمال ضرور کریں۔ بہتر تو یہی ہے کہ محفوظ کیا گیا گوشت زیادہ دِن استعمال نہ کیا جائے۔

عید الاضحی پر چوں کہ گوشت کی فراوانی ہوتی ہے اور روزانہ مرغوب کھانے تیار کیے جاتے ہیں،تو ایسے موقعے پر لذیذ اور مزے دار کھانوں سے ہاتھ روکنا ذرامشکل ہوجاتا ہے، لہٰذا عیدالاضحیٰ پر کھائیں ضرور، مگر اعتدال کے ساتھ۔قربانی کے اصل مقصد اور روح کو سمجھیں، محض شکم سیری ہی کو قربانی کا مطلب نہ جانیں۔علاوہ ازیں، اس موقعے پر سبزیوں اور پھلوں کا استعمال بھی ضرور کریں، تاکہ غذا میں توازن برقرار رہے،بالخصوص ذیابطیس، بُلند فشارِ خون اور معدے کے مریض گوشت اور مرغّن کھانے کے استعمال میں خاص احتیاط برتیں۔علاوہ ازیں،ذیابطیس کے مریض اگر معمول سے زیادہ کھالیں،تو بہتر ہوگا کہ کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں، تاکہ خون میں شکر کی مقدار معمول پر آجائے۔ بلڈ پریشر اورمعدے کے السر میں مبتلا مریض تَلا ہوا گوشت کھانے کی بجائے اُبال کر یا پھر کوئلوں پر بھون کر کھائیں۔ بُلند فشارِ خون کے مریض گوشت کے پکوان میں نمک کم سے کم استعمال کریں اور کچھ دیر کے لیے قَیلُولہ ضرور کیا جائے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کیے جانے کے باوجود بھی طبیعت بہتر نہ ہو، تو مناسب ہوگا کہ اپنے معالج سے رجوع کرلیا جائے کہ بعض اوقات معمولی سی غفلت شدید پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔

(مضمون نگار،علومِ اسلامیہ اور علمِ نفس کے طالب علم ہیں)

تازہ ترین