• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدالاضحی ہمارا اجتماعی، دینی و ملی تہوار ہے۔ ایک محتاط مگر غیرمصدقہ تخمینے کے مطابق عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر میں آٹھ تا دس ملین (اسی لاکھ سے ایک کروڑ) چھوٹے بڑے جانور (گائے، بیل، بکرے، اونٹ، دنبے وغیرہ) قربان کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستانی عوام نے قربانی کے جانوروں کی خریداری کی مد میں220ارب روپے خرچ کیے تھے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال مہنگائی بڑھ گئی ہے، لہٰذا ممکن ہے یہ اعدادوشمار بھی بڑھ جائیں۔ عیدالاضحی ویسے تو ایک مذہبی تہوار ہے، لیکن یہ عالم اسلام کی ایک بڑی تجارتی سرگرمی بھی ہے۔ اس تہوار کے معاشی پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے ذریعے گردش زر کی رفتار خاصی تیز ہوتی ہے، منجمد سرمایہ حرکت میں آتا ہے اور یہ سرمایہ امراء کی تجوریوں اور ہاتھوں سے نکل کر معاشرے کے نچلے طبقات تک پہنچتا ہے، چھوٹے چھوٹے کاروبار سے وابستہ افراد پر روزگار کے دروازے کھلتے ہیں۔ مجموعی طور پر پورے معاشرے میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس حرکت پذیری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جانوروں کے گلے میں باندھنے والی رسی سے لے کر گوشت رکھنے کے کام میں آنے والی چٹائیاں، چھریاں، بغدے، لکڑی کی مڈیاں اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بنانے والے، اس تہوار کے موقع پر اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ جس سے ان کی سال بھر کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ عیدالاضحی کے ذریعے ارتکاز دولت پر شدید ضرب پڑتی ہے۔ دولت کا ایک بڑا حصہ چند ہاتھوں سے نکل کر معاشرے میں گردش تو کرتا ہی ہے، لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ شہروں میں سمٹنے والی دولت کا ایک بڑا حصہ عیدالاضحی کے تہوار کی بدولت شہروں سے دیہی علاقوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس سے دیہی علاقوں کی معاشی اور معاشرتی حالت بہتر ہوتی ہے۔ غریب کے ہاتھ میں جب رقم آتی ہے تو وہ اس رقم کے ذریعے اپنی معاشرتی حالت سدھارنے کی کوشش کرتا ہے تو یوں یہ رقم معاشرے کے مختلف طبقات تک پہنچنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور یہ رقم کئی ہاتھوں سے گزرتے گزرتے اپنے خوشگوار اثرات مرتب کرتی چلی جاتی ہے۔

عیدالاضحی کے ان مثبت پہلوئوں سے قطع نظر مسائل بھی ہیں، جو اس اہم ترین تہوار کے موقع پر ہر سال سامنے آتے ہیں۔ ان میں کچھ مسائل انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ اجتماعی، کچھ مسائل خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں کے، کچھ حکومتی یا بلدیاتی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں، تو متعدد مسائل منصوبہ سازی کے فقدان کے باعث سر اٹھاتے ہیں مگر ان سب میں ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ کوئی بھی ان کو حل نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ دن شور ضرور مچتا ہے مگر عیدالاضحی گزرتے ہی سب بھول بھال جاتے ہیں کہ ہمیں کبھی کوئی مسئلہ بھی درپیش تھا جب کہ ان مسائل کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم از کم آئندہ سال اس قسم کی صورتحال پیدا نہ ہو، اور اگر ہو جائے تو اس کا فوری سدباب بھی ممکن ہو۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ عیدالاضحی سے کئی ہفتے پہلے شہر کے مختلف مقامات پر غیرقانونی مویشی منڈی لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ سرکاری طور پر شہر کے اندر گلی محلوں میں قربانی کے جانور فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سپرہائی وے پر ایک بہت بڑی مویشی منڈی لگتی ہے، جسے ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس منڈی کے معاملات بھی خاصے مشکوک ہیں۔ تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی پر لگنے والی اس منڈی کے انتظامات اصولاً بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہونے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہے، اس کے معاملات اسٹیشن ہیڈکوارٹر، کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ دیکھتا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس منڈی میں مختلف ٹھیکوں کی مد میں حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی رقم کہاں جاتی ہے یا کن محکموں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس سال منڈی میں لائے جانے والے جانوروں میں گائے، اونٹ، بیل وغیرہ کی فیس چودہ سو روپے، بکرے، دنبے اور بھیڑ کی فیس آٹھ سو روپے مقرر کی گئی ہے۔ مگر بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ مویشی منڈی میں جانوروں کو گاڑیوں سے اتارنے نہیں دیا گیا اور جگہ کی عدم دستیابی کا بہانہ کر کے چالیس تا پچاس ہزار روپے اضافی طلب کیے گئے۔ 

اس کے علاوہ منڈی کے باہر بھی بھتہ خوری عروج پر رہی۔ آس پاس کے دیہات میں رہنے والے افراد منڈی آنے والے تاجروں سے بھتہ طلب کرتے رہے، جب کہ شہریوں کو پارکنگ فیس کے نام پر منہ مانگی رقم طلب کرنے کی شکایت رہی، یاد رہے، 2016ء میں پارکنگ میں ادائی کے تنازعے پر محمّد وجاہت، اظہر صدیقی نامی نوجوان کو انتظامیہ کے اہلکاروں نے مار مار کر قتل کر دیا تھا۔ مقتول کے اہل خانہ مویشی منڈی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہتے تھے تاہم پولیس نے اہل خانہ کے بجائے ایس ایچ او تھانہ سہراب گوٹھ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا اور ملزمان پھر بھی گرفتار نہ ہو سکے تھے۔ ایک شکایت یہ بھی رہی کہ مویشی منڈی آنے، جانے والے افراد کو راستے میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ ان تمام شکایات کے پیش نظر مویشی منڈی کے معاملات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خریداری کے لیے آنے والوں کو جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے خدشات محسوس نہ ہوں۔

سپرہائی وے پر لگنے والی منڈی کے علاوہ بھی کراچی کے آٹھ مختلف مقامات پر بھی مویشی منڈیاں لگائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود شہر بھر میں متعدد مقامات پر غیرقانونی مویشی منڈیاں بھی نظر آتی ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، غیرقانونی منڈیوں سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے اور سانحات بھی جنم لیتے ہیں۔ کچھ روز قبل لیاقت آباد کے علاقے میں گردن پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے زخمی ہونے والی بچی کو ٹریفک جام کی وجہ ہی سے بروقت طبی امداد نہ مل سکی اور وہ دم توڑ گئی جب کہ ٹریفک جام کا سبب ایک غیرقانونی ’’پرندہ بازار‘‘ ہی تھا۔ پھر شہر کے مختلف پررونق بازاروں اور سڑکوں پر دیہی افراد ٹولیوں کی شکل میں بکرے اور دنبے وغیرہ فروخت کر رہے ہوتے ہیں خصوصاً برنس روڈ پر تو شام کے وقت یہ کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حسن اسکوائر، لیاقت آباد، واٹر پمپ، بفرزون، سخی حسن، کالا بورڈ، ملیر اور دیگر مقامات پر بھی کثیر تعداد میں قربانی کے جانور فروخت کرنے والے افراد موجود نظر آتے ہیں۔

یہ تو ہو گئی کاروبار کی بات۔ انفرادی، اخلاقی رویوں اور معاملات کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں بھی آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ عیدالاضحی سے دس بارہ روز قبل ہماری گلیاں، محلے، سڑکیں، فٹ پاتھ، مویشی خانوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پوری آزادی بلکہ دھڑلے کے ساتھ جس کا جہاں جی چاہتا ہے، قربانی کا جانور باندھ دیتا ہے اور باہر بندھا جانور پڑوسی کے دروازے پر غلاظت پھیلائے یا اس کی وجہ سے پڑوس کے بچوں اور خواتین کا گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہو جائے، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ گلی میں بندھے جانوروں کی وجہ سے گاڑیاں گزر سکتی ہیں، نہ پارک کی جا سکتی ہیں۔ کچھ من چلے نوجوان تو مکمل آزادی کے ساتھ وحشیوں کی مانند گلیوں میں گائے، بیل دوڑاتے ہیں، گویا بل فائٹنگ کے مقابلے میں حصہ لے رہے ہوں۔ اندھادھند دوڑانے کے دوران یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ زد میں کون آ رہا ہے، راستے سے گزرنے والے بچے اور خواتین بہ مشکل اپنے آپ کو بچا پاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ گائے یا بیل دوڑتے دوڑتے موٹر سائیکل یا کار پر چڑھ دوڑا۔ محلے کے لڑکے، بالے غل غپاڑا کرتے جانور کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں اور کوئی اس بگڑی نسل کو روکنے یا ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا۔ دن تو دن، یہ ہنگامہ رات گئے تک چلتا ہے۔ پھر کچھ محلوں میں من چلے نوجوان قربانی کے جانوروں کے کیمپ لگا کر ساری ساری رات بیٹھے رہتے ہیں، کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے اور رات کا خیال کیے بغیر کہ یہ لوگوں کے آرام کا وقت ہے، اونچی آواز میں شور مچاتے، گانوں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

ایک اور مسئلہ جس پر بہت کم دھیان دیا جا رہا ہے، شہر میں کانگو وائرس کا بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ رواں سال کے دوران کانگو وائرس کے تیس کے قریب کیسز سامنے آئے ہیں اور تین افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو مویشیوں کی کھال میں رہنے والی چیچڑی کے ذریعے پھیلتا اور انسانی دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، سر چکرانا، جسم میں درد اور جسم پر پڑنے والے رگڑ جیسے نشانات سے خون رسنا شامل ہے۔ کانگو وائرس سے بچائو کے لیے مویشیوں کو بلااحتیاط چھونے سے گریز لازم ہے۔ گھر میں بچے اور خواتین قربانی کے جانوروں کو زیادہ چھوتے ہیں اور امکانی طور پر یہ عمل وائرس کی منتقلی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے جانوروں کی دیکھ بھال کے دوران احتیاط لازم ہے۔ چونکہ یہ پتا نہیں چل پاتا کہ جانور کانگو وائرس سے متاثر ہے یا نہیں، اس لیے ذبیحے کے وقت اس کے خون کے چھینٹوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اس وقت سپرہائی وے پر قائم بڑی مویشی منڈی میں دو ڈھائی لاکھ کے قریب جانور موجود ہیں۔ تقریباً اتنے ہی جانور شہر کی دیگر قانونی اور غیرقانونی منڈیوں میں ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی شہر میں اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی موجودگی ایک بڑے خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت سندھ کے محکمہ صحت نے اگرچہ احتیاطی تدابیر سے آگاہی کے ضمن میں ضروری ہدایات جاری کی ہیں، لیکن عام طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ شہری ان ہدایات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر گھر میں موجود پالتو جانوروں کی ویکسی نیشن ضروری ہوتی ہے، لیکن قربانی کے جانور کو گھر میں رکھنے سے قبل اس پر بھی جراثیم کش اسپرے ضرور کروانا چاہئے۔ کراچی کے شہریوں کی عادت ہے کہ وہ محض تفریح کے لیے بھی مویشی منڈی کا رخ کرتے ہیں اور وہاں لائے گئے خوبصورت اور قیمتی گائے، بیلوں کے ساتھ سیلفیاں بنواتے ہیں، ان کے ساتھ بچے اور خواتین بھی ہوتی ہیں۔ فارم ہائوس میں پالے گئے جانوروں کا کانگو وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ عموماً کم ہوتا ہے لیکن دوردراز علاقوں سے لائے گئے جانوروں کے بارے میں یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ درحقیقت ان جانوروں کو دستانے پہنے بغیر چھونا اور ان سے لپٹ لپٹ کر سیلفیاں بنانا، خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جانوروں کی جلد کے بالوں میں موجود چیچڑیاں جسم پر چڑھ سکتی ہیں اور کاٹ بھی سکتی ہیں۔

عیدالاضحی سے پہلے اور قربانی کے بعد صحت و صفائی کے مسائل سر نہ اٹھائیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ ہماری گلیاں اور محلے عیدالاضحی سے قبل مویشی منڈی نظر آتے ہیں، تو عید قرباں کے تینوں دن بلکہ کئی ہفتوں بعد تک گندگی، کچرے اور قربانی کی الائشیں، چربی، سڑے گوشت سے اٹھنے والا تعفن پوری فضا کو مسموم کیے رکھتا ہے۔ اس میں کچھ بلکہ زیادہ قصور خود ہمارا ہی ہے۔ ہم اپنی گلی کو مذبح سمجھ کر فریضہ قربانی وہاں ادا کرتے ہیں، الائشیں، چھیچڑے وہیں پڑے چھوڑ دیتے ہیں۔ گلی کا فرش کچا ہو یا پختہ، قربانی کے بعد اسے دھونا اور صاف کرنا ہمارا مسئلہ نہیں، کچا ہے تو خون آپ ہی آپ زمین میں جذب ہو جائے گا، دھونے کی کیا ضرورت ہے۔ اب اس پر مکھیاں بھنبھنائیں، کوے، چیلیں منڈلائیں، کیڑے مکوڑوں کی بھرمار ہو جائے، کتے، بلیاں منہ ماریں، یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہم نے اپنا گھر صاف کر لیا بس! اب یونین کائونسل والے جانیں یا پڑوسی، اگر پڑوسی بھی ہماری ذہنیت کے ہیں تو سبحان اللہ، گلی مدتوں سڑتی ہی رہے گی۔

بلدیاتی ادارے شہر میں صفائی ستھرائی کے نام پر یومیہ اجرت پر اضافی عملہ بھرتی کرتے ہیں، الائشیں اٹھانے کے لیے کرائے پر گاڑیاں بھی حاصل کی جاتی ہیں، الائشیں مدفون کرنے کے مقامات تک گاڑیوں کی آمدورفت کے نام پر ایندھن کا اضافی کوٹا بھی لیا جاتا ہے، مگر یہ سارے کام صاف و شفاف نہیں، کمانے والے تین چار دن میں کروڑوں کما لیتے ہیں، مگر اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سڑکوں پر پڑی آلائشیں آنے جانے والوں کا صبر آزماتی ہیں۔ صفائی ستھرائی کے معاملات میں گھپلوں کی کہانی نئی نہیں۔ یہ مشق ہر سال دہرائی جاتی ہے، مگر کیا مجال ہے ان گھپلوں کی تحقیقات کی نوبت آ جائے کہ پھر معاملات بہت دور تک جاتے ہیں۔

عید قرباں کا ایک اہم ترین مسئلہ تجربہ کار اور ماہر قسائیوں کی عدم دستیابی کی صورت بھی سامنے آتا ہے۔ اچھے قسائی بالعموم ملتے ہی نہیں، اگر ملتے بھی ہیں تو ان کا معاوضہ زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال عیدالاضحی کے پہلے روز ایک گائے ذبح کرنے کا کم از کم معاوضہ دس سے پندرہ ہزار روپے کے درمیان تھا جو عید کے تیسرے روز تک گھٹ کر چھ سے آٹھ ہزار پر آ گیا تھا۔ قسائیوں کی قلت کے پیش نظر ہزاروں اناڑی اور ناتجربہ کار افراد چھریاں اور بغدے پکڑ کر قسائیوں کا روپ دھار لیتے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں غیرمسلم بھی ہوتے ہیں۔ یہ اناڑی الٹا، سیدھا ذبیحہ کرنے کے علاوہ کھال کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً چالیس فیصد کھالیں ان اناڑی، موسمی قسائیوں کے ہاتھوں خراب ہو جاتی ہیں جس سے قومی معیشت کو لگ بھٓگ دو ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔

کچھ سال پہلے تک کراچی میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑی کھینچا تانی ہوتی تھی اور کہیں کہیں تشدد کے واقعات بھی پیش آتے تھے۔ یہ بھی شکایات تھیں کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، قربانی کرنے والوں کے گھروں سے زبردستی یا اسلحے کے زور پر کھالیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اب یہ سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ قربانی کرنے والے قربانی کی کھالیں اپنی مرضی سے، پسند کے مطابق فلاحی اداروں اور تنظیموں کو عطیہ کرتے ہیں۔ دوم، متحدہ قومی موومنٹ بھی گزشتہ تین سال سے قربانی کی کھالیں جمع نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کی وجہ سے شہر میں مختلف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے، لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ قربانی کی کھالوں کی قیمتیں سال بہ سال گرتی چلی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی فلاحی اداروں اور مدرسوں وغیرہ کی آمدنی کم ہو گئی ہے اور سارا فائدہ چمڑے کی صنعت سے وابستہ افراد اٹھا رہے ہیں۔ واضح رہے پاکستان کی لیدر انڈسٹری کی ضروریات کا ساٹھ فیصد خام مال عیدالاضحی پر قربانی کی کھالوں کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے۔

عیدالاضحی کے موقع پر سامنے آنے والے یہ مسائل ہرگز نئے نہیں ہیں۔ یہ اہم ترین مٓذہبی تہوار، برس ہا برس سے ہم اسی طرح مناتے آ رہے ہیں اور کسی نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ ان مسائل کا پائیدار بنیادوں پر کوئی حل نکالا جائے۔ ہر سال یہ تہوار آتا ہے، گزر جاتا ہے۔ پرانے مسائل تازہ ہوتے ہیں اور اس سے قبل کہ ان کا کوئی حل سوچا جائے، وقت تیزی سے گزر جاتا ہے، حالات بدل جاتے ہیں۔ دن، ہفتوں، ہفتے، مہینوں اور مہینے، سال میں تبدیل ہوتے ہیں، تو ہم پھر اسی مقام پر آ پہنچتے ہیں، جسے گزشتہ برس پیچھے چھوڑ آئے تھے اور پھر وہی پرانے مسائل ہمارا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو، عیدالاضحی کی معاشی اہمیت کے پیش نظر اسے جدید تقاضوں کے مطابق منظم کیا جائے۔ بلاشبہ اگر ہمارے منصوبہ ساز اس جانب توجہ دیں، تو جدید خطوط پر استوار ایک قابل عمل نظام ضرور وجود میں آ سکتا ہے۔

تازہ ترین