• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ہمایوں ظفر

عکاّسی:اسرائیل انصاری

’’عیدالاضحی‘‘ کا رُوح پروَر تہوار ہماری دِینی و مِلّی تاریخ کی عظیم یادگار ہے۔ یہ اطاعت و استقامت اور جاں نثاری کی وہ عظیم داستان ہے، جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ وہ عظیم قربانی ہے، جس کی قبولیت پر اللہ تعالیٰ نے خود مہرِ تصدیق ثبت فرمائی۔اور پھر حضرت ابراہیمؑ کے جذبۂ صادق اور حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت و فرماں برداری کے سبب باپ کو’’خلیل اللہ‘‘ اور بیٹے کو ’’ذبیح اللہ‘‘ جیسےبلند القابات سے نوازا گیا۔یہ ایمانی جذبہ دراصل ہر دَور، ہر عہد کی کسوٹی ہے اور سنّتِ ابراہیمی ؑ کی اسی یادگار کوہر سال اسلامی دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان بھر میں بھی پورے مذہبی جوش و خروش اور دینی جذبے کے تحت منایا جاتا ہے۔ قربانی کے دنوں میں فرزندانِ اسلام، سنّتِ ابراہیمی ؑکی پیروی میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں،تواِن قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ماہِ ذوالحجہ کی آمد سے قبل ہی ملک بھر میں چھوٹی بڑی بے شمارمویشی منڈیوں کا انعقاد عمل میں آجاتاہے، جہاں دن رات لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت جاری رہتی ہے۔

سہراب گوٹھ، کراچی کی مویشی منڈی
منتظم، محمد طاہر میمن

 عروس البلاد، شہرِ قائد، کراچی کے مختلف علاقوں میںبھی چھوٹی بڑی متعدد مویشی منڈیاں لگتی ہیں، جن میں سپرہائی وے، سہراب گوٹھ کے قریب لگنے والی منڈی اپنی وسعت کے باعث ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی تصّور کی جاتی ہے۔ اس منڈی میں جانوروں کی خرید و فروخت کے دوران اربوںروپے کے لین دین کے ساتھ، ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسّر آتے ہیں۔ یہاں پورے پاکستان، خصوصاً پنجاب اور اندرونِ سندھ کے علاوہ بلوچستان اور خیبرپختون خوا سے بھی اچھی خاصی تعداد میں قربانی کے جانور فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔ سال ہائے گزشتہ کی طرح اِمسال بھی مویشی منڈی میں بیوپاریوں اور جانوروں کی خریداری کے لیے آنے والے افراد کی سہولت کے لیے اے ٹی ایم مشینز، عارضی بینکس، مساجد، ہوٹلز، مختلف اقسام کی دکانوں اور دیگر ضروریات کا معقول انتظام کیاگیا ہے، ساتھ آگاہی و رہنمائی کے مراکز اور میڈیا سیل بھی قائم ہے۔نیزاِمسال ایک ائرکنڈیشنڈ بینکویٹ ہال بھی تعمیر کیا گیاہے، جہاں کے پُرفضا ماحول میں خریدار سکون کے ساتھ بھائو تائو میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں، سندھ لائیو اسٹاک کی جانب سے 17ویٹرینری ڈاکٹرز، 16پیرا میڈیکل اسٹاف و دیگر عملے کے ساتھ بنیادی طبّی مرکز کے علاوہ دو ایمبولینسز بھی 24گھنٹے عوامی سہولت کے لیے موجود ہیں۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے بسایا جانے والا یہ عارضی شہرگرچہ اس سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے سبب قدرے تاخیر سے قائم ہوا، لیکن رنگا رنگی اور گہما گہمی پچھلے برسوں کی نسبت کسی طور کم نہیں۔ صبح سے رات گئے تک لوگوں کا ازدحام ہے۔ گاہکوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ جن میں بچّے، بوڑھے، جوان، سب ہی شامل ہیں۔

یوں تو ملک بھر ہی کی مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی خریداری عروج پر ہے۔ ملتان ،حیدرآباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ ہو یا اسلام آباد،مویشی منڈیوں میں ہر سُو خوب گہما گہمی ہی نظر آرہی ہے، مگر کراچی کی مویشی منڈی کی تو شان ہی الگ ہے کہ اس منڈی میں لائے جانے والے جانور ہر اعتبار سے ممتاز، قابلِ دید اور گراں قیمت ہیں۔ یوں تو ان جانوروں میں گائے، بیل، اونٹ، بکرے، دنبے، بھیڑ وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ مگر گائے، بیلوں کی تعدادسب سے زیادہ ہے، اس کے بعد بکرے، دنبے ہیںاور پھر اونٹ۔ مویشی منڈی انتظامیہ کے مطابق، یہاں بیوپاریوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی ہے۔ کراچی کی اس وسیع و عریض مویشی منڈی کے داخلی دروازے پر بائیں جانب چیک پوسٹ، جب کہ دائیں جانب پارکنگ پاسز حاصل کرنے والوں کے لیے کیمپ موجودہے، جس کا ٹھیکااس سال ایس ایم طارق اینڈ برادرز کو دیا گیا۔ یہاں گاڑیوں کے لیے پانچ ہزار اور موٹر سائیکل کے لیے تین ہزار روپےکے پاسز حاصل کرکے منڈی کے خاتمے تک (پورا مہینہ) گھومنے پھرنے کی اجازت ہے۔ منڈی کے داخلی راستے سے کچھ ہی آگے چھوٹے جانوروں کا بلاک ہے، جہاں ملک بھر سے لائے ہوئے خوب صورت دنبے اور بکرے ہنوز کثیر تعدادمیں موجود ہیں۔ اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر وی آئی پی بلاکس ہیں، جن میںوسیع پیمانے پر قربانی کے جانوروں کی خریداری ہورہی ہے۔ یہاں آنے والے ہزاروں افراد کے لیے مفت پارکنگ، بینکس، اے ٹی ایم مشینیز، سی سی ٹی وی کیمروں، مساجد، ہوٹلز، جانوروں کے اسپتال اور کلینک سمیت اچانک ضرورت پڑنے پرخریداروں کو ہنگامی طبّی امداد فراہم کرنے کی سہولتیں موجود ہیں۔

ملیر ڈیولپمنٹ بورڈ کے تحت اوپن ٹینڈر کے ذریعے مویشی منڈی کا ٹھیکاحاصل کرنے والے اے ٹی ایم اینڈ کمپنی کے مالک، محمد طاہر میمن نے منڈی کے انتظام و انصرام کے حوالے سے بتایا کہ ’’11جولائی کو مویشی منڈی کا ٹھیکا ملنے کے بعد سے ہم نے یہاں کام شروع کیا اور عوام کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وسیع تر انتظامات کیے۔ ان سہولتوں میں کھانے پینے کے اسٹالزاور مفت پارکنگ سمیت دیگر انتظامات شامل ہیں۔ یہاں اب تک (تادمِ تحریر) پورے ملک سے ایک لاکھ سے زائدگائے اور بیل فروخت کے لیے لائے جاچکےہیں،جب کہ توقع ہے کہ یہ تعداد ڈھائی لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ زیادہ تر جانور بہاول پور، رحیم یار خان، صادق آباد، ملتان، سبّی اور اندرونِ سندھ کے مختلف شہروں سمیت خیبر پختون خوا سے لائے گئے ۔ رنگ برنگے خصوصی خیموں میں قائم بلاکس میں ہم نےاعلیٰ نسل کے قیمتی، فربہ و خوب صورت جانور رکھے ہیں، جو لوگوں کی خاص توجّہ کا مرکز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وی آئی پی بلاکس کے ریٹ بھی زیادہ ہیں۔30X120 گز کے ایک پلاٹ کا کرایہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے مقرر ہے۔ اس بار کراچی کی تاریخ میں پہلی بار عوامی دل چسپی کے لیے قربانی کے جانوروں کا ایک خوب صورت بینکویٹ ہال بھی تعمیر کیاگیا ہے، جو مکمل ائرکنڈیشنڈ ہے۔‘‘ خریداروں کے جوش و خروش سے متعلق طاہر میمن کا کہنا تھا کہ ’’چوں کہ شہر میں امن و امان کی صورتِ حال میں کافی بہتری آئی ہے، تو خریدار بھی بڑے ذوق و شوق سے آرہے ہیں، پہلے لوگ ہفتہ دس روز پہلے ہی خریداری کرتے تھے، لیکن اس باریہ رجحان بھی بدلا ہے۔ لوگوں میں قربانی کا جانور باقاعدہ پال کر، قربان کرنے کا جذبہ بڑھا ہے۔ یہ منڈی 800ایکڑ رقبے پر قائم کی گئی ہے، جس میں کل 28بلاکس ہیں۔ 5وی آئی پیزاور 21جنرل بلاکس کے علاوہ چھوٹے مویشیوں یعنی بکروں،مینڈھوں اوردنبوں وغیرہ کے لیے دو بلاکس مختص ہیں۔ مویشی اتارنے کے لیے مارشل ایریا میں داخلہ فیس فی گائے/ اونٹ 1400روپے اور فی بکرا 800روپے مقرر ہے۔ نیز، وی آئی پی بلاکس کے علاوہ بیوپاریوں کو’’ پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر بھی مفت جگہ فراہم کی گئی۔(ویسےمویشیوں کی بڑھتی تعداد دیکھتے ہوئے آئندہ برسوں میں ان شاء اللہ منڈی کو بارہ سو ایکڑ تک لے جانے کا پروگرام ہے)۔ سیکوریٹی انتظامات کے علاوہ مویشیوں کے پینے کے لیے روزانہ 16لیٹر پانی فراہم کیا جارہاہے۔ خواتین، مَردوں کے علیٰحدہ علیٰحدہ بیت الخلاء بنائے گئے ہیں۔ مقامی بینک کے علاوہ تین الگ الگ بوتھ بھی قائم ہیں، جو اے ٹی ایم سروسز فراہم کررہے ہیں۔ 

سہراب گوٹھ، کراچی کی مویشی منڈی
منڈی میں سالِ رواں کی جدّت، ائرکنڈیشنڈ بینکویٹ ہال

ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑی اور ایمبولینسز کا خصوصی انتظام موجود ہے۔ بیوپاریوں کی صحیح بلاک تک رہنمائی کے لیے تین سو کے لگ بھگ باوَردی، مستعد عملہ تعینات کیا گیا ہے، جو مال مویشی کی آمد و رفت میں مدد و تعاون کے ساتھ سیکیوریٹی کے انتظامات و معاملات بھی دیکھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں، پولیس بھی لائن اپ ہے۔ دراصل سیکیوریٹی ہماری اوّلین ترجیح ہے، تاکہ کسٹمرز اور بیوپاریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔‘‘ جانوروں کی ویکسی نیشن سے متعلق طاہر میمن نے بتایا کہ ’’ویسے تو بیوپاری اپنے جانوروں کی ویکسی نیشن خودکروا کر لاتے ہیں، تاہم کمشنر کراچی کے تعاون سے پوری منڈی میں فیومیگیشن ضرور کروائی گئی ہے۔ نیز، مرکزی طبّی کیمپ میں لائیو اسٹاک ہسبنڈری ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی چوبیس گھنٹے خدمات انجام دے رہا ہے۔

وی آئی پی بلاکس، وی آئی پی خرچے

مویشی منڈی میں قربانی کے جانوروں کے لیے قائم، وی آئی پی بلاکس میں اعلیٰ نسل کے بیش قیمت جانور فروخت کے لیے رکھے گئے۔ شادی ہالز کی طرح لائٹس اور میوزک سے مزّین ان وی آئی پی بلاکس میں بچّوں، خواتین اور نوجوانوں کا اِک جمِ غفیر ان خوب صورت، صحت مند جانوروں کے ساتھ تصویریں کھنچواتا، سیلفیاں لیتا نظر آیا۔ کیٹل فارم مالکان کے مطابق، یہاں لائے جانے والے جانوروں کو بڑے ناز و نعم سے پالا پوسا جاتا ہے۔ انہیں دودھ، گھی، سرسوں کے تیل، خشک میوہ جات سمیت دیگر مقوّی غذائیں دی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ وی آئی پی بلاک میں لائے جانے والے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں عموماًدو لاکھ سے 30 لاکھ روپے تک رکھی گئیں۔اسی بلاک میں موجود صوفی کیٹل فارم کے، سفیان لانیا نے بتایا کہ’’ہم ہر سال یہاں ساٹھ ستّر جانور لاتے ہیں۔ اس سال بھی ستّر جانور لائے ہیں، ہمارے پاس کم سے کم دس مَن کا بچھڑا ہے، جس کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے ہے، اور سب سے بڑا پچیس من کا بچھڑاہے، جس کے ہم دس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں اور بھائو تائو کے بعد آٹھ لاکھ روپے تک میں دے دیں گے۔ بات یہ ہے کہ وی آئی پی بلاکس کے خرچے بھی وی آئی پی ہیں۔ ہمیں60x120کی جگہ تین لاکھ روپے میں دی گئی ہے۔ پھر ٹینٹ کا کرایہ پانچ لاکھ روپے، مٹی ڈلوانے کے ڈیڑھ لاکھ روپے اور لائٹ کے تقریباً پانچ لاکھ روپے الگ ہیں۔ ‘‘

جانوروں کا ہنگامی طبّی کیمپ،پیلیا زدہ جانور کے گوشت سے فوڈ پوائزننگ ہوسکتی ہے

حکومت سندھ کے شعبے ویٹرنری لائیو اسٹاک کی جانب سے مویشی منڈی میں ایک ہنگامی طبّی کیمپ بھی لگایا گیا ہے، جہاں تین شفٹوں میں موجود ڈاکٹرز، بیمار اور زخمی جانوروں کا علاج کرتے نظر آئے۔ علاوہ ازیں،مختلف بلاکس میں بھی کچھ طبّی کیمپس موجود ہیں۔ بلاک 14کے طبّی کیمپ میں موجود ڈاکٹر الطاف حسین نے بتایا کہ’’ پچھلے 14سال سے یہاں کیمپ لگا رہا ہوں۔ اس سال کیمپ کی تیس ہزار روپے فیس دی ہے۔ حکومتِ سندھ کی طرف سے مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیوپاری ہمارے پاس ہی اپنے بیمار جانور لے کر آتے ہیں۔ پھرمارشل ایریاز میں آنے والے جانور تو عموماً کافی تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور تھکن کے باعث سُست ہوجاتے ہیں،تو ایسے جانوروں کوویٹا فینک پلس انجیکشن لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انجیکشن سے جانور چاق چوبند ہوجاتا ہے۔ الرجیز وغیرہ کے لیے ہم کارٹی زون لگاتے ہیں۔ بخار کے لیے ویٹا فینک پلس دیتے ہیں اور اگر جانور کو تیز بخار ہو، تو بروفن کی پوری بوتل بھی پلادیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا ’’اس کیمپ میں زیادہ تر نزلہ، کھانسی، زکام، ڈائریا اور نظامِ ہضم کی بیماریوں میں مبتلا جانور لائے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی خطرناک مرض یا وائرس مویشیوں میں نہیں دیکھا گیا۔ دن بھر میں دس سے پندرہ جانور آجاتے ہیں۔ ویسے ہم بیوپاریوں کو یہی تجویز کرتے ہیں کہ وہ اپنے جانوروں کو منہ اور کُھر کی بیماری سے بچائو کی ویکسین، ایف ٹو ویکس ضرور لگواکر لائیں۔ 

اسی طرح گل گوٹوں کی بیماری، جس میں سانس کی نالی بند ہوجاتی ہے، اس کی ویکسین بھی کروا کر لائیں۔ یاد رہے، اگر کسی جانور کو پیلیا ہو، تو اس کے گوشت کے استعمال سے انسان کو بھی فوڈ پوائزننگ ہوسکتی ہے، لہٰذا اگر کسی جانور کی آنکھیں بہت زیادہ زرد دیکھیں یا اس کے پیشاب کا رنگ زرد ہو، تو ایسے جانوروں کی خریداری سے اجتناب ہی برتیں۔ عموماً بیماریاں ایک جانور سے دوسرے جانوروں کو منتقل ہوتی ہیں، انسان کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا، البتہ اگر کسی کے ہاتھ میں زخم ہو، تو اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ جانور کے منہ پر ہاتھ نہ لگائے، کیوں کہ اگر جانور کی رال میں موجود بیکٹریاز زخم میں شامل ہوجائے، تو انفیکشن ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، باقی احتیاط کے طور پر اگر منڈی میں گلوز اور ماسک پہن کر آئیں تو اچھا ہے۔‘‘ نوشہرو فیروز سے فروخت کے لیے جانور لانے والے غلام مرتضیٰ نے اس موقعے پر بتایا کہ ’’اب تک میرے دس جانور بیمار ہوچکے ہیں، زیادہ تر کو بخار اور موشن کی شکایت ہے، مجھے منڈی والوں کی طرف سے لگائے جانے والے طبّی کیمپ سے صرف ایک پائوڈر دے دیا گیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، تو مجبوراً اس نجی کلینک پر آنا پڑا۔‘‘ جب کہ سندھ لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر، اکبر نے بتایا کہ ’’مویشی منڈی میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے پر مشتمل ٹیمیں 24گھنٹے خدمات انجام دے رہی ہیں اور تمام جانوروں کے لیے مفت علاج اور ادویہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ عموماً یہاں صحت مند جانور ہی لائے جاتے ہیں، لیکن کچھ جانور ٹرکوں پر چڑھاتے اور اتارتے وقت زخمی ہوجاتے ہیں، تو کچھ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نزلے، زکام یا بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘

جانوروں کا بنائو سنگھار،اچھا دِکھتا ہے، تو اچھے داموں بکتا ہے

’’اچھا دِکھتا ہے، تو اچھے داموں بکتا ہے۔‘‘ کراچی کی مویشی منڈی میں سجے سنورے جانور، خریداروں کے لیے خاصے جاذبِ نظر اور پُرکشش ثابت ہورہے ہیں، بالخصوص ایسے خریداروں کے لیے، جن کے ساتھ خواتین اور بچّے ہوں کہ وہ فوری طور پر ایسے ہی جانور کی طرف راغب ہوتے اور اسی کی خریداری پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں، جس سے عموماً بیوپاری بھی فائدہ اٹھاتے اور عمومی قیمت سے ہٹ کر جانور کی خاصی بھاری قیمت لگادیتے ہیں۔ منڈی میں ہم نے دیکھا کہ بیوپاری اپنے جانوروں کو خوب صورت سے خوب صورت تر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔کہیں جانوروں کو ہار پہنائے جارہے ہیں، تو کسی کو سجایا جارہا ہے اور کہیں اُن سے خوب لاڈپیار جتایا جارہا ہے۔ اس مویشی منڈی میں کئی سال سے جانوروں کو سجانے سنوارنے کا سامان فروخت کرنے والے گل خان کا کہنا ہے کہ ’’محض بنائو سنگھار سے عام جانور کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے تو اس سامان کی بہت مانگ ہے، جس میں جھومر، جھانجھر، ہار، گلے کی گھنٹی، پائوں کے پائل اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔‘‘

’’قیمت سنتے ہی گاہک کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں،‘‘بیوپاری

شہر کی مرکزی مویشی منڈی ہونے کے باوجودیہاں جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور نظر آتی ہیں۔ خریداروں کا کہنا ہے کہ بیوپاری جانوروں کا ریٹ ڈبل سے بھی زائد مانگ رہے ہیں، جب کہ بیوپاریوں کے مطابق، چارہ مہنگا ہونے اور دیگر اخراجات بڑھ جانے کی وجہ سے ہم جانور مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس حوالے سے کچھ بیوپاریوں سے بات چیت کی، تو زیادہ تر اپنے مسائل کا رونا روتے ہی نظر آئے۔ ملتان، شجاع آباد سے بچَھڑے لے کر آنے والے عامر غفارنے تین مَن کے بچَھڑے کی قیمت ڈیڑھ لاکھ، اور چھے مَن کے بچَھڑے کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’دور دراز علاقوں سے ہم اس لیے کراچی آتے ہیں کہ اچھا منافع مل جائے، یہاں آنے تک ہمیں مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے، مختلف قسم کے ٹیکسز اور بھتے الگ دینے پڑتے ہیں، اور جب جائز منافعے کے ساتھ قیمت لگاتے ہیں، تو گاہک سنتے ہی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔‘‘ کراچی سے تعلق رکھنے والے بیوپاری، محمد زبیر،اپنے گائے اور بیلوں کے ساتھ موجود تھے،انہوں نے بتایا کہ’’میرے پاس زیادہ سے زیادہ چار اور کم سے کم دو لاکھ تک کے جانور ہیں۔ 

ساڑھے چھے من کا بچھڑا دو، پونے دو لاکھ روپے تک کا فروخت کروں گا، جب کہ آٹھ سے نو من کا جانور، جس کے چار لاکھ روپے مانگ رہا ہوں، دو لاکھ اسّی، نوّے تک دے دوں گا۔‘‘ سندھ ڈیری فارم سے دو سو تگڑے اور اعلیٰ نسل کے خوب صورت جانور لانے والے جمیل منشی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے پاس ہر ورائٹی ہے، بیلجیم، آئرلینڈکی نسل، سائمن ٹال اور امریکن بریڈ بھی۔ امریکن بریڈ کی خاص بات یہ ہے کہ اس جانور میں چربی بالکل نہیں ہوتی، جب کہ امریکن بریڈ ہی کا ٹائیگر بھی ہے، پھر دیسی بھی ہے اور آسٹریلین پیور بھی۔ ان کے علاوہ ساہیوال کے انتہائی خوب صورت جانور بھی ہیں۔ جن کی پہچان یہ ہے کہ ان کا منہ قدرے پتلا اور اگلی ٹانگیں سفید ہوتی ہیں۔ ہمارے کیٹل فارم میں چودہ ہزار مویشی ہیں اور مویشیوں کی تعداد کے لحاظ سے چھبیس ممالک میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ سہراب گوٹھ کی اس مویشی منڈی میں ہم ہر سال تقریباً دو سو جانور لاتے ہیں، جو عموماً بقرعید سے پہلے پہلے فروخت ہوجاتے ہیں۔‘‘ بریڈنگ اور جانوروں کی خوراک سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’’ان سب جانوروں کی بریڈنگ ہمارے اپنے کیٹل فارم کی ہے اور جہاں تک ان کی غذا کا تعلق ہے، تو ہم اپنے اچھے جانور کو دودھ، گھی اور تیل پلاتے ہیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ آدھا کلو تیل میں ایک پائو دہی ملاکر جانورکو پلایا جاتا ہے۔ سردیوں میں ہم انہیں گھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں تیار ہونے والی فیڈ میں کھجور، شیرے سمیت تقریباً ہر آئٹم موجود ہوتا ہے۔ ایک بڑا جانور تین سال میں تیار ہوتا ہے،جب کہ دو چار دانت والا درمیانہ جانور چھبیس ستائیس مہینے میں تیار ہوجاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’وی آئی پی بلاک میں ہم نے چھے پلاٹ کے نو لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ ٹینٹ کے چھے لاکھ روپے، بالو مٹی کے پچاس ہزار روپے الگ ہیں۔ ہاں، پانی مفت ملتا ہے۔البتہ بجلی کے لیے جنریٹر کا روزانہ کادس ہزار روپےدیناپڑتا ہے۔‘‘

پچھلے سال کی نسبت قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوا، سب اپنی مَن مانی کررہے ہیں،گاہک، خریدار

مویشی منڈی میں گاہکوں، خریداروں کی آمد کا سلسلہ عموماً دن گیارہ بجے ہی سے شروع ہوجاتا ہے، جو شام تک جاری رہتا ہے۔ ان میں ایک بڑی تعدادتو محض ریٹ معلوم کرنے اور تفریحاً گھومنے پھرنے والوں ہی کی نظرآئی ۔ہم نے خریداری کے لیے آئے کچھ لوگوں سے گفتگو کی، تو گارڈن ایسٹ، کراچی سے اپنے بھائیوں، دوستوں کے ساتھ آئے ہوئے جنید عبدالرزّاق نے بتایا کہ ’’گائے خریدنے آئے ہیں، لیکن بیوپاری قیمت بہت زیادہ مانگ رہے ہیں۔ پچھلے سال ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں دو بیل لے کر گئے تھے، اس سال بھی اسی رینج میں لینا چاہ رہے ہیں۔ ویسے ہم روز آنے والے لوگ ہیں، ہمیں سو میں ایک جانورپسند آتا ہے، جس دن اچھی چیز مل جائے گی، لے جائیں گے۔یہاں ایک گائے کی قیمت ایک لاکھ ساٹھ ہزارروپے بتارہے ہیں، جس کے ہم نے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپےلگادیئے ہیں، مگربیوپاری مان نہیں رہا۔‘‘ لیاقت آباد سے اپنے پھوپھا، محمّد میاں اور فیملی کے دیگر لوگوں کے ساتھ آئے محمد کاشف نے بتایا ’’یہاں زیادہ تر بیوپاری تو اپنی مَن مانی کررہے ہیں، حالاں کہ گاہک بھی کم ہیں، ستّر اسّی ہزار کے جانور کے دُگنے تِگنے بتارہے ہیں۔ پچھلے سال ہم 73ہزار کا بچھڑا لے کر گئے تھے، اس بار ذہن بنایا ہوا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار روپے مہنگا ہوگا، مگر یہاں آکر پتا چلا کہ ریٹ تو آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اصل میں یہاں زیادہ تر قسائی پارٹی آئی ہوئی ہے، جنہوں نے لوٹ مار مچا رکھی ہے۔‘‘ کورنگی کراچی سے آئے رضوان رئوف نے بتایا کہ’’پچھلے سال کی نسبت اس سال جانور کاریٹ ڈبل ہے۔ پچھلے سال دو لاکھ روپے میں دو تگڑے بیل لے کر گئے تھے، اب اسی طرح کے ایک بیل کے دو لاکھ روپے طلب کیے جارہے ہیں۔ آج دیکھنے اور جائزہ لینے آئے تھے، اگرچہ مارکیٹ بہت اونچی ہے، لیکن امید ہے کہ ڈھائی لاکھ میں دو بیل مل جائیں گے۔‘‘ نیو کراچی سے اپنے بچّوں کے ساتھ آنے والے اسماعیل واحد نے بے بسی سے بتایا ’’یہاں تو کوئی ٹھیک سے بات ہی نہیں کررہا، بس اپنی مرضی سے جو جی میں آرہا ہے، رقم بتارہے ہیں۔ 

دولاکھ کے جانورکے چار لاکھ لگارہے ہیں، لیکن ہمارا جو تھوڑا بہت تجربہ ہے، وہ یہی ہے کہ دینے والا مناسب قیمت میں جانور دے ہی دیتا ہے۔ بہرحال،جو نصیب میں ہوگا، مل جائے گا۔‘‘ گلبرگ سے جمال یاسرکے مطابق، ’’مارکیٹ بہت ہائی جارہی ہے۔ پچھلے سال تین ساڑھے تین من کی گائے 70ہزار میں لی تھی، لیکن اس بار اتنی رقم میں مناسب گائے ملتی نظر نہیں آرہی۔‘‘ اورنگی ٹائون سے اپنے دوستوں، بھائیوں اور کزنز کے ساتھ آئے محمد شاہد نے بتایا ’’منڈی بڑی مہنگی ہے۔ پچھلے سال ساڑھے چار پانچ من کا جانور ایک لاکھ میں لیا تھا، لیکن اسی وزن کا جانور اس بار دو سے ڈھائی لاکھ میں مل رہا ہے۔‘‘ 

فیڈرل بی ایریا سے اپنی فیملی کے ساتھ آنے والے صابرزیدی بھی یہی رونا رو رہے تھے کہ ’’منڈی میں مہنگائی کا رجحان ہے، کافی مہنگے جانور ہیں، ریٹ بہت ہائی ہیں، فی الحال تو دیکھ رہے ہیں، آگے چل کرپتا نہیں کیا صورت بنتی ہے۔ویسے ہر سال یہیں سے لیتے ہیں، لیکن اس سال یہاں کے ریٹ کچھ زیادہ ہی ہیں، تو علاقائی سطح پر لگنے والی منڈی جانے کا سوچ رہے ہیں، شاید وہاں مناسب قیمت میں کوئی اچھا جانور مل جائے۔‘‘ ابراہیم حیدری، کورنگی سے آئے عبدالشکور نے بتایا کہ ’’میرے خیال میں دیگر منڈیوں کی نسبت یہاں ریٹ مناسب ہیں، بس ذرا بارگیننگ کریں گے، تو ریٹ مزید کم ہوجائیں گے۔ ویسے تو منڈی کے تمام معاملات ٹھیک ہیں، لیکن پانچ ہزار اور تین ہزار روپے کے پاسز جاری کرنے کی کوئی تُک سمجھ نہیں آرہی ہے۔ بھئی، آدمی، جانور لینے ایک ہی بار آئے گا، تو پھر پورے مہینے کا پانچ ہزار روپے کا پاس لے کر کیا کرے گا۔ اس میں کچھ کمی ہونی چاہیے۔ مویشی منڈی میں عربی لباس میں ملبوس ایک شخص کو اپنی بیوی، بچّی کے ساتھ بکرے کا بھائو تائو کرتے دیکھا اور ان سے منڈی کے رجحان سے متعلق جاننے کی کوشش کی، تو پتا چلا کہ وہ رہتے تو ابوظبی میں ہیں، پیدا سعودی عرب میں ہوئے، جب کہ آبائی تعلق دہلی سے ہے، مگرہر برس قربانی کا فریضہ گلشن اقبال، کراچی آکر ہی انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ’’بیوپاری بھی لوگوں کی حیثیت دیکھ کر ریٹ بتاتے ہیں، مجھے قیمتی گاڑی سے اترتے دیکھ کر ایک بکرے کی قیمت ایک لاکھ روپے طلب کررہا ہے، جو یقیناً بہت زیادہ ہے۔ ‘‘

تازہ ترین