• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی مثال احمدی نژاد کی ہے، 2005ء سے 2013ء تک آپ ایران کے صدر تھے، آٹھ برس تک انہوں نے حکمرانی کی، اس سے پہلے وہ تہران کے میئر، مرکزی حکومت میں وزیر اور ایک صوبے کے گورنربھی رہے، اس تمام عرصے میں انہوں نے سادگی کی اعلیٰ روایات قائم کیں، وہ معمولی لباس پہنتے تھے، ایک مرتبہ کسی تصویر میں اُن کا کوٹ پھٹا ہوا دیکھا گیا، بطور صدر انہوں نے اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس مشہد میں امام رضا کے مزار پر منعقد کیا، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاسوں میں بارہویں امام کے لئے جگہ خالی رکھتے تھے، انہوں نے صدر کے لئے مخصوص جہاز میں وی آئی پی نشست استعمال کرنے سے بھی احتراز کیا اور بعد میں اپنے سفر کے لئے کارگو جہاز مختص کر دیا، صدر بننے کے بعد وہ اپنے سادہ سے گھر میں ہی رہنا چاہتے تھے مگر سیکورٹی خدشات کی بنا پر انہیں قصر صدارت میں رہائش اختیار کرنی پڑی تاہم صدارتی محل میں موجود قدیم بیش قیمت ایرانی قالین انہوں نے عجائب گھر بھجوا دیئے اور اپنے لئے ارزاں قالین پسند کئے۔

دوسری مثال ملا محمد عمر کی ہے، صحیح معنوں میں اگر کوئی حکمران اینٹ کو تکیہ بنا کر سونے والے معیار پر پورا اترتا تھا تو وہ ملا عمر تھے، آپ کو افغانستان میں پہلی مرتبہ اُس وقت پذیرائی ملی جب 1994میں انہوں نے اپنے تیس ساتھیوں اور سولہ رائفلوں کی مدد سے اُس افغان جنگجو کو کیفر کردار تک پہنچایا جس نے دو لڑکیوں کو آبروریزی کے بعد قتل کردیا تھا، بعد میں اسی طرح انہوں نے ظالموں کے خلاف جہاد جاری رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی حمایت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک سال کے اندر اُن کا نہ صرف قندھار بلکہ ہرات پر بھی قبضہ ہو گیا، 1996میں ملا عمر کے حامیوں نے انہیں امیر المومنین منتخب کر لیا، ملا عمر کے دور میں افیون کی کاشت پر پابندی لگا دی گئی اور ایک اندازے کے مطابق اس کی پیداوار میں 99%کمی واقع ہوئی۔ اپنے پانچ سالہ دور حکمرانی میں ملا عمر کا کوئی قصر صدارت تھا اور نہ ہی کوئی کرو فر، وہ بلٹ پروف مرسڈیز گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے تھے اور نہ ہی اعلیٰ کپڑے پہنتے تھے، پر تعیش زندگی کا تصور اُن کے لئے اجنبی تھا۔ تیسری مثال نیپالی وزیراعظم سشیل کوئیرالہ کی ہے، آپ قریباً پونے دو برس تک نیپال کے وزیراعظم رہے، اس سے پہلے 2010سے 2016تک آپ نیپالی کانگریس پارٹی کے صدر بھی تھے، نہایت سادہ انسان تھے، کوئی گھر تھا نہ جائیداد، معمولی لباس پہن کر دفتر آتے، سادہ روٹی کھاتے اور بالکل عام آدمی کی طرح رہتے، ان کے دور میں نیپال کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں نے ملک کو مشترکہ آئین دیا جس کے بعد وہ وعدے کے مطابق اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے، بعد میں انہوں نے انتخاب لڑا مگر انہیں اپنے مدمقابل سے شکست ہو گئی۔

اب ذرا اپنے لیڈر کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر کا لائف اسٹائل شاہانہ تھا، آپ بیش قیمت گاڑیوں میں گھومتے تھے، شہر کی سب سے مہنگی رہائش گاہ آپ کی تھی جس میں مہنگا ترین فرنیچر تھا، آپ اعلیٰ ترین سوٹ پہنتے، امپورٹڈ سگار پیتے، پرفضا مقامات پر تعطیلات گزارتے اور اشرافیہ کی پارٹیوں میں شرکت کرتے۔ اِس لیڈر کا نام محمد علی جناح تھا۔

یہ درست ہے کہ جناح صاحب یہ تمام خرچ اپنی جیب سے کرتے تھے اور کوئی بھی عیاشی حکومتی خزانے سے نہیں ہوتی تھی مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ ملا عمر کی طرح اینٹ کا تکیہ بنا کر سوتے تھے اور نہ احمدی نژاد کی طرح پھٹا ہوا کوٹ پہنتے تھے، سشیل کوئیرالہ کی طرح سستے گھر میں رہتے تھے اور نہ مہاتما گاندھی کی طرح ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ واحد لیڈر تھے جسے تمام مسلمانوں ،امیر غریب بوڑھے نوجوان، سب نے ووٹ دیئے، انہیں اپنا رہنما منتخب کیا، پاکستان کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں دی اور انہیں قائد اعظم کا خطاب دیا۔

ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہمارا حکمران اگر سادگی پسند ہوگا تو لازماً نیک نیت بھی ہوگا جبکہ سادگی اور نیک نیتی دو الگ خصوصیات ہیں، ضروری نہیں کہ سادہ طرز زندگی والا حکمران ایک اچھی طرز حکومت کی بنیاد بھی ڈالے، یقیناً سادگی اچھی چیز ہے، خاص طور سے غریب ممالک کے حکمرانوں کے لئے تو لازمی، مگر یہ مسائل کا حل نہیں، ہمارے مسائل ہمالیہ سے بلند ہیں اور انہیں کوئی حکمران محض اِس نیکی کی بنا پر حل نہیں کر سکتا کہ وہ اینٹ کا تکیہ بنا کر سوتا ہے۔ احمدی نژاد، ملا عمر اور سشیل کوئیرالہ یقیناً اپنے اپنے ممالک کے لئے اچھے ہوں گے، نیک نیت بھی ہوں گے مگر آخری تجزیئے میں یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ کسی نے بزنس کلاس میں سفر کیا یا کارگو جہاز میں، حتمی فیصلہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کے شہریوں کو کیا فائدہ پہنچا۔ اگر آج لوگ کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ کی شہریت چھوڑ کر ایران، افغانستان اور نیپال کی امیگریشن کے لئے تڑپ رہے ہیں تو پھر ہمیں مان لینا چاہئے کہ ان تینوں ممالک کو آئیڈیل حکمران نصیب ہوئے اور اگر ایسا نہیں تو پھر مسئلہ پھٹا ہوا کوٹ پہننے سے آگے کا ہے۔ ظاہری سادگی کے علاوہ ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ نوجوان قیادت ہی بہتر ہو تی ہے، ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ غریب یا مڈل کلاس ہونا ایمانداری کی دلیل ہے اور ہم نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ امیر یا کاروباری ہونا کرپشن کی نشانی ہے۔ دراصل یہ تمام مفروضے غلط ہیں، انہیں خود قائداعظم نے غلط ثابت کیا، اُن کی زندگی کسی معیار سے بھی سادہ نہیں تھی، وہ ایک نہایت قابل اور مہنگے وکیل تھے، کروڑوں کی جائیداد انہوں نے ترکے میں چھوڑی (جس میں سے زیادہ تر عطیات میں دے دی، اِس ضمن آپ کی وصیت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اِس پر کبھی علیحدہ ایک کالم ہوگا)۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قائداعظم نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ اُن کے شاہانہ اور مغربی لائف اسٹائل کے باوجود ہندوستان کے غریب مسلمان انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے، اِن مسلمانوں کو اِس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ محمد علی جناح دن میں کتنی مالیت کے سگار پھونک ڈالتا ہے یا کتنے قیمتی سوٹ پہنتا ہے یا کیا کھاتا پیتا ہے! یہ مسلمان صرف ایک بات جانتے تھے کہ جناح نامی یہ شخص اِن کے حق حکمرانی کے لئے لڑ رہا ہے ورنہ انگریز کیا برے تھے، انگریزوں سے اچھی گورننس بھلا کس کی تھی، تاج برطانیہ میں بہرحال قانون کی حکمرانی تھی، کسی پولیس اسٹیشن کی حدود میں جب کوئی جرم ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ مجرم نہ پکڑا جائے، ریلوے نیٹ ورک سے لے کر دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام اور بیوروکریسی سے لے کر فوج کا سسٹم، سب انگریز نے ہی تو دیا تھا، پھر مسئلہ کیا تھا؟ مسئلہ حق حکمرانی کا تھا جو محمد علی جناح نے ہمیں انگریزوں سے لے کر دیا اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو بدقسمتی سے آج اکہترویں یوم آزادی پر بھی غیرمتعلق نہیں ہوا، ہم آج بھی یہ بنیادی سوال طے نہیں کر پائے کہ انگریزوں کے بعد اِس ملک پر حق حکمرانی کس کا ہوگا حالانکہ بانی پاکستان نے یہ بات ہمیں ان الفاظ میں بتائی تھی

With the removal of foreign domination, the people are now the final arbiters of their destiny. They have perfect liberty to have by constitutional means any Government that they may choose. This cannot, however, mean that any group may now attempt by any unlawful methods to impose its will on the popularly elected Government of the day. The Government and its policy may be changed by the voters of the elected representatives.... (Broadcast, Radio Pakistan, Dacca, 28 March, 1948)

محمد علی جناح تو ہمیں یہ دے گئے تھے..... باقی جو مزاج یار میں آئے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین