• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی اور امریکہ کے تعلقات آج کل سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اُس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کا فیصلہ کیا اور اب یہ تنازع شدت اختیار کرگیا ہے۔نئے امریکی ٹیرف کے مطابق ترکی سے امپورٹ کئے گئے المونیم پر 20 فیصد اور اسٹیل پر50 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے ترکی کی امریکہ کو ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ واضح ہو کہ ترکی نیٹو کا اہم ممبر ملک ہے اور دو نیٹو اتحادی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ امریکی پادری اینڈریو برنسن ہیں جو ترک حکومت کے خلاف 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے دہشت گردی کے الزام میں ترکی میں قید ہے۔ امریکی پادری پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی اور جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو تعاون فراہم کررہا تھا۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ ترک حکومت امریکی پادری کو فوراً رہا کرے جبکہ ترکی پر دبائو ڈالنے کیلئے ٹرمپ انتظامیہ ترک وزیر قانون عبدالحمید گل اور وزیر داخلہ سلیمان سولو کو امریکی پادری پر من گھڑت الزام لگانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے امریکہ میں داخلے، اثاثے منجمد کرنے اور امریکی شہریوں کو ان افراد یا ان کے خاندان سے تجارت کرنے پر پابندی عائد کرچکی ہے جس کے ردعمل میں گزشتہ دنوں ترک صدر طیب اردوان بھی امریکی سیکرٹری قانون اور داخلہ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے، کے ترکی میں داخلے پر پابندی اور اُن کے اثاثے منجمد کرنے کی ہدایت جاری کرچکے ہیں۔ طیب اردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور المونیم کی امریکہ امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کو افسوسناک عمل اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے یکطرفہ اور غیر مہذب رجحانات کو ترک نہیں کیا تو ترکی نئے اتحادی اور دوست تلاش کرسکتا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدام کے فوراً بعد ترک صدر اردوان نے روسی صدر پیوٹن سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے بات کی۔ طیب اردوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ، شام میں کرد فورسز کو مسلح کررہا ہے اور وہ ترکی کے مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کو بھی ترک حکومت کے حوالے کرنے میں بھی ناکام رہا ہے جبکہ پادری کے معاملے پر امریکہ کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصول دگنا کرنے کے اقدام کے باعث ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ گزشتہ سال لیرا کی قدر میں 40 فیصد کمی آئی تھی جس کے باعث لیرا کی قدر کم ہوکر ڈالر کے مقابلے میں 5لیرا ہوگئی ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ مزید امریکی پابندیاں لگنے سے ترک حکومت کے مفادات پر شدید ضرب پڑے گی جس کا اثر ترک کرنسی لیرا پر بھی پڑے گا تاہم ترک صدر طیب اردوان نے لیرا کی قدر میں کمی کو عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ کے پاس ڈالر کی طاقت ہے تو ہمارے پاس اللہ اور عوام کی طاقت ہے۔


ترکی کے صدر رجب طیب اردوان حالیہ الیکشن میں واضح اکثریت سے کامیابی، نئے اختیارات حاصل ہونے اور ترکی میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کئے جانے کے بعد ملک کے طاقتور ترین حکمران بن گئے ہیں جنہیں اب ترکی کا ’’نیا سلطان‘‘ بھی کہا جارہا ہے۔ وہ اسلامی ممالک میں بھی ایک لیڈر کے طور پر ابھررہے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شعلہ بیانی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ رواں سال اپریل میں ترک صدر اردوان نے اسرائیل کو زمین پر قبضہ کرنے والا دہشت گرد ملک قرار دیا تھا جبکہ وہ اس سے قبل کئی بار اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔ ترک صدر نے امریکہ کی جانب سے یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کئے جانے پر بھی امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ رواں سال مئی میں فلسطینی مظاہرین پر امریکی بمباری کے نتیجے میں کئی فلسطینیوں کی شہادت پر ترک صدر نے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل، ترک صدر اردوان کی الیکشن میں کامیابی اور انہیں ملنے والی نئی طاقت سے خوش نہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ اردوان ترکی اور اسلامی دنیا کا بڑا لیڈر بن کر ابھرے، اس لئے وہ ایران کی طرح ترکی پر پابندیاں عائد کرکے اس کی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام میں ان کی مقبولیت کو کم کرکے انہیں اردوان حکومت کے خلاف اکسایا جائے مگر ترکی کے عوام امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ امریکی و اسرائیلی مذموم ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے تاہم بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ ترکی پر مزید امریکی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں جس سے ترک معیشت شدید متاثر ہوگی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ کشیدہ تعلقات کے باعث امریکی کانگریس بھی ترکی پر دبائو ڈالنے کیلئے S-35 فائٹر طیارے کے سودے منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر ترک صدر طیب اردوان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں اور اپنے پاس موجود سونا اور ڈالر سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیاں فروخت کرکے ترک کرنسی خریدیں کیونکہ ترکی اس وقت معاشی جنگ سے دوچار ہے۔


ترکی کے ساتھ امریکی رویہ اور پابندیاں پاکستان کیلئے بھی ایک سبق ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ روز قبل پاکستان کے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں سخت بیان دے چکے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف امریکہ کے کہنے پر پاکستان کو قرضہ دینے کیلئے سخت شرائط عائد کرے گا جبکہ وہ پاکستان میں قید اپنے ایجنٹ شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے بھی ترکی کی طرح پاکستان پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ بہرحال ترکی کے صدر طیب اردوان اگر دوست ممالک کے کہنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر امریکی پادری کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی کرتے ہیں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہوسکتے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین