• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے جمعے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ میں ترکی پر فولاد اور ایلومینیم پر ٹیرف کو دگنا کر نے کا ا علان کیا جس کے فوراً بعد ہی ترک لیرے کی قدر میں بیس فیصد کمی دیکھی گئی ۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ میں ترکی کو خبردار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ترک لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہے اور امریکہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔‘‘ امریکہ نے کئی ایک وجوہات کی بنا پر ترکی کے ساتھ خراب ہونے والے تعلقات کی آڑ میں اور ترکی کو سبق سکھانے کی غرض سے فولاد اور المو نیم پر ٹیرف کو دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے فوراً بعد ترک صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ’’ان کے پاس ڈالرز ہیں تو ہمارے پاس اللہ اور ہمارے عوام ہیں۔‘‘ ایردوان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والی اقتصادی جنگ کے نتیجے میں فتح مبین ان کے ملک کو جبکہ امریکہ کو شکست ہوگی۔ وہ کسی بھی صورت امریکی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔ 15 جولائی 2016ء میں ترکی کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی منصوبہ بندی کرنے والے اب ترک معیشت کو ہدف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں صدر ٹرمپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے یک طرفہ اور غیرمہذب رجحانات کو ترک نہیں کیا تو ترکی اپنے لیے نئے دوستوں اور اتحادیوں کی جانب راغب ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ انہوں نے لکھا کہ امریکہ کو شرم آنا چاہیے کہ وہ ایک پادری کی خاطر نیٹو اتحادی ملک سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔امریکہ اور ترکی میں پادری انڈریو برنسن کے علاوہ بھی کئی ایک موضوعات پر اختلافات ہیں جن میں شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کےکۓ‘‘ کی ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی/ وائی پی جی‘‘ کی امریکہ کی جانب سے پشت پناہی، داعش، ترکی کے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری، 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے ماسٹر مائنڈ فتح گولن کی امریکہ میں پناہ اور ترکی کے حوالے نہ کیے جانے جیسے موضوعات سر فہرست ہیں ۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سردمہری کی وجہ سے ترک لیرا کی قدر میں اس سال کے آغاز سے اب تک قریب 40 فیصد کمی ہو چکی ہے اور گزشتہ جمعے کے روز ٹرمپ کے ترکی مخالف اعلان کے بعدترک کرنسی کی قدر و قیمت میں صرف ایک دن میں 20 فیصد کے لگ بھگ کمی دیکھی گئی ہے ۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کمی سے ترک معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُس کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی سے کاروباری حضرات کو شدید نقصان کا قوی امکان ہےجبکہ امریکہ کے ان اقدامات کی وجہ سے ترکی کی معیشت کو آئندہ چند ہفتوں تک مزید جھٹکے لگنے اور ترک لیرا کی قدرو قیمت میں مزید کمی ہونے کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں، ترک کرنسی کی قدر میں کمی سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بےچینی دیر تک رہنے کا امکان موجود ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر پر بھی ترک امریکی تنازعے کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔


امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود پادری انڈریو برنسن کو رہا نہ کئے جانے پر صدر ٹرمپ نے ترکی پر کئی ایک پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترک نائب وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے دور ہونے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن پادری کے مسئلے نے نیٹو کے ان دونوں اتحادیوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔


ترک کرنسی کو پہنچنے والے اس نقصان پر صدرایردوا ن نےڈونلڈ ٹرمپ کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکی ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا۔ 15جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت میں منہ کی کھانے والوں کو ترکی کے تمام شعبوں میںترقی ہضم نہیں ہو پا رہی وہ اب ڈالر کے ذریعے ترکی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔‘‘ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کا براہ راست نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ ’’ترکی کے اقتصادی دشمنوں نے انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بد نیت حلقے ڈالر کی قیمت چڑھا کر ترکی کے خلاف آپریشن کرنا اور ملک کے دفاعی میکانزم کو کمزور کر کے ملت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ترکی کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ترکی کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع نہیں دیں گے بلکہ ملکی پیداوار اور خاص طور پر جدید دفاعی ہتھیاروں کی مقامی سطح پر پیداوار میں اضافے، برآمدات میں اضافے، روزگار کو فروغ دینےا ور ریکارڈ سطح پر ترقی کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اگر آپ ڈالر کو ترک کرنسی کی قدرو قیمت کو کم کرنے کے مقصد کے لیے استعمال کریں گے تو ہم کئی ایک ممالک کے ساتھ ڈالر کی بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دیتے ہوئے دنیا کے لیے تجارت کے نئے راستے بھی کھول سکتے ہیں۔‘‘


صدر ایردوان نے گزشتہ اتوار کے روز بحیرہ اسود کے ساحلی شہر ترابزون میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی پادری کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکہ کے حوالے کرنے بصورتِ دیگر ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کی جو ڈیڈ لائن دی تھی انہوں نے اس کی پروا کیے بغیر امریکی صدر پر واضح کردیا تھا کہ ترکی قانون کی پیروی کرنے والا ملک ہے اور وہ قانون سے بالا ہو کر کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں اٹھائینگے۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے ایسے اسٹرٹیجک پارٹنر کو خدا حافظ ہی کہہ سکتے ہیں، جو 81 ملین آبادی کے حامل ملک کے ساتھ دوستی اور نصف صدی سے زائد عرصے کے اتحاد کو دہشت گرد گروہوں سے تعلقات پر قربان کر سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے امریکی صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ ہمیں اپنے احکامات سے سر جھکانے پر مجبور نہیں کرسکتے ہیں، ترکی ’’بنانا ریپبلک‘‘ نہیں ہے بلکہ دنیا کا سولہواں بڑا اقتصادی ملک ہے جو آئندہ چند سالوں میں دنیا کے پہلے دس طاقتور ممالک کی صف میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے اپنے عوام سے بھی اس صورتِ حال جسے انہوں نے اسے ’’معاشی جنگ‘‘ کا نام دیا ہے کے موقع پر غیر ملکی کرنسی اور سونے کو ترک لیرا میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔


ترکی میں ڈالر کی قدرو قیمت میں ہونے والے اضافے کے بعد مختلف افواہوں نے بھی گردش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں ترکی میں مختلف بینکوں میں موجود غیر ملکی کرنسی کو ترک لیرا میں کنورٹ کرنے کی افواہ سر فہرست ہے جس پر ترکی کے وزیر خزانہ برات البائراک نے عوام سے ان افواہوں پر کان نہ دھرنے اور بینکوں میں موجود غیر ملکی کرنسی کے کسی بھی حالت کنورٹ نہ کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اسٹاک مارکیٹ میں قومی کرنسی کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لئے ہرممکن اقدام اٹھائے جانے سے آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے بنکوں اور معاشی شعبے کے لئے ایک نیا منصوبہ تیارکیا ہے، چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کوبھی اس منصوبے کا پابند بنایا جائے گا تاکہ کرنسی کے لین دین میں ہونے والے نقصان سے بچا جاسکے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین