• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت سیالکوٹ کے ہڑپال سیکٹر میں تھا جہاں سے سرحدپاررات کو جلنے والی روشنیاں بھی باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔میں قریبی دوست ملک یونس کے ساتھ ایک ظہرانے میں شرکت کے لیے پہنچا تھا جو ملک شبیر نے ہمارے اعزاز میں ہی دیا تھا ، بھارتی سرحد کے اس قدر قریب اتنا شاندار گھر تیار کرکے ملک شبیر نے بہت بڑا رسک ہی لیا تھا اس نے برطانیہ میں کمائی گئی اپنی تمام جمع پونجی بالکل برطانیہ جیسا گھر تعمیر کرنے میں لگا دی تھی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی اور بھارت کی بمباری اور شیلنگ نے ملک شبیر کے گھر کو تقریباََ تباہ کرکے رکھ دیا تھا ، ملک شبیر برطانیہ کو خیر باد کہنے کے بعد ہڑپال سیکٹر میں اپنی آبائی زمینوں کی کھیتی باڑی اور بھینسوں کے باڑے اور جانور پالنے جیسے دلچسپ کام میں مصروف ہوگیا تھا ۔ بڑی تعداد میں اس کے بھینسیں اور بکرے ہلاک جبکہ پولٹری فارم بھی تباہ ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی ہمارے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا اور بڑی گرمجوشی سے ہماری آئو بھگت میں مصروف تھا ،چنددیسی لڑاکا مرغے فوری طور ذبح کرادیئے گئے جبکہ کئی اور ڈشیں بھی ضیافت کے لیے تیار تھیں لیکن میرے ذہن میں ابھی تک بارڈر کے ساتھ رہنے والے شہریوں کے لیے دکھ اور تکلیف کا احساس تھا جو آئے دن بھارتی فوج کی گولیوں اور بمباریوں کا سامنا کرتے ہیں اسی علاقے میں کچھ عرصہ قبل بھارتی فوج کی جانب سے ایک اسکول وین پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس میں کئی بچے شہید ہوگئے تھے ،یہاں اکثر کھڑی فصلوں کوبھارتی افواج فائرنگ اور شیلنگ کرکے تباہ کردیتی ہیں لیکن ہمارے شہری اپنی بہادر افواج کی وجہ سے رات کو سکون کی نیند سوتے ہیں کیونکہ یہاں شہریوں کو معلوم ہے کہ کون جاگ کر ہمیں سکون کی نیند فراہم کرنے کا سبب بن رہا ہے ، ظہرانے سے فارغ ہوکر ہم پاک بھارت بارڈر کے مزید نزدیک جانے کے لیے گھر سے نکلے باہر سے ایک بار پھر گھر پر نظر پڑی جہاں گولیوں اور شیلنگ سے گھر چھلنی ہوچکا تھا لیکن پھر بھی یہاں خواتین اور بچے رہائش پذیر تھے جس سے اندازہ ہوا کہ ہماری قوم کتنی بہادر ہے جو دشمن کے آگے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے ، ہم یہاں سے رخصت لیکر پاک بھارت کے بارڈر ایریا جموں کے نزدیک نوولا پوسٹ جارہے تھے تاکہ اپنی بہادر افواج کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں اور ان کے حالات زندگی اور مصروفیات سے آگاہ ہوسکیں ۔راستے میں ہی اس علاقے کی اہم سڑک نوولا روڈ سے گزر ہوا یہاں بھی ہماری بہادر افواج نے بڑی قربانیاںرقم کی ہیں خاص طور پر پاکستانی علاقے کی شہری اور دیہی آبادی کو بھارتی شیلنگ اور فائرنگ سے بچانے کے لیے پاک فوج نے انتہائی شاندار بند قائم کیا ہے پندرہ سے بیس فٹ اونچے اس بند کی تعمیر کے دوران بھارتی فوج نے لاکھ جتن کیے کہ کسی طرح پاکستانی افواج یہ بند نہ تعمیر کرسکیں اور بھاری توپخانے اور شیلنگ کے ذریعے اس بند کی تعمیر روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن بہادر پاک افواج نے بھارت کی اس سازش کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ شاندار بند تعمیر کرکے لاکھوں شہریوں کی زندگی کو بھی محفوظ بنادیا ۔ اسی بند کی تعمیر کے دوران پاک فوج کے میجر جمیل بھی بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہوئے تھے جن کی یادگار بھی اسی روڈ کے کنارے تعمیر کی گئی تھی ہم بھی اپنے اس ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے رکے اور فاتحہ خوانی کی اور پھر آگے کی جانب بڑھ گئے ،نوولا پوسٹ تک پہنچنے کے لیے ہم نے کئی گائوں اور دیہات کا سفر کیا اور کچھ دیر بعد ہم نوولا پوسٹ پر موجود تھے ،ملک یونس اور ان کے دوستوں کے مقامی ہونے کے سبب پاک رینجرز کے جوانوں نے ہمیں انتہائی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا اور جب انھیں معلوم ہوا کہ جاپان سے اپنے جوانوں سے ملاقات کرنے آئے ہیں تو ان کے جذبات دیدنی تھے ۔میرے سامنے صرف ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر مقبوضہ کشمیر کا جموں بارڈر اورچند میٹر کے فاصلے پر پاکستان کاایک سو بیس فٹ بلند ٹاورموجود تھا جہاں پاکستان کا خوبصورت پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا۔ ہمارے منع کرنے کے باوجودرینجرز کے سپاہیوں نے فوری طور پر چائے پانی کا بندوبست شروع کردیا ، ہمارے سپاہی تو چائے کے بعد ہمارے لیے کھانے کا بندوبست بھی کرنا چاہ رہے تھے جنھیں بڑی مشکل سے روکا گیا کہ ہم پہلے ہی ایک دعوت سے ہوکر آئے ہیں ،حوالدار اختر حسین بتارہے تھے کہ پاکستانی قوم اپنے محافظوں کا بہت خیال رکھتی ہے اور گائوں والے اکثر ہمارا حال احوال معلوم کرنے آتے رہتے ہیں ، کبھی تازہ دودھ تو کبھی سبزیاں بھی تحفے کے طور پر دیتے ہیں جنھیں ہم محبت کے ساتھ منع بھی کرتے ہیں تو نہیں مانتے ، حوالدار اختر حسین بتا رہے تھے کہ بھارتی علاقے جموں میں موجود مساجد سے پانچ وقت کی اذانوں کی آوازیں صاف سنائی دیتی ہیں تاہم بھارت نے اپنے علاقے میں خطرناک باڑ لگا رکھی ہے جس میں اکثر رات کو کرنٹ بھی چھوڑ دیا جاتا ہے ، ہم نے حوالدار صاحب سے بھارتی بارڈ ر دیکھنے اور پاک فوج کے ایک سو بیس فٹ بلند ٹاور پر چڑھنے کی درخواست کی کچھ سوچ بچار کے بعد یہ اجازت فراہم کردی گئی حوالدار صاحب ہمیں بتارہے تھے کہ یہاں سے بھارتی پوسٹ صرف ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا ہر وقت بہت محتاط رہنا پڑتا ہے امن کے دنوں میں تو معاملہ ٹھیک رہتا ہے لیکن کشیدگی کے دنوں میں بھارت کی جانب سے بہت زیادہ شیلنگ اور فائرنگ کی جاتی ہے ،بھارت اندھا دھند فائرنگ کرتا ہے جس سے ہمارے شہری بھی شہید ہوتے ہیں ۔جبکہ ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی علاقے میں بھی مسلمان بھائی آباد ہیں لہٰذا ہم بہت دیکھ بھال کرکے صرف ان جگہوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں سے شیلنگ اور فائرنگ ہورہی ہو۔ اسی گفتگو کے دوران ہم ایک سو بیس فٹ بلند ٹاور تک پہنچ چکے تھے یہ ایک بہت ہی اونچا ٹاور تھا ہمیں ایک ایک ہیلمٹ بھی فراہم کردیا گیا تاکہ کسی بھی طرح کے حادثے سے محفوظ رہ سکیں بیس فٹ تک چڑھنے کے بعد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ہمارے تین ساتھی ہار مان کر نیچے اتر چکے تھے تاہم مجھ سمیت ملک یونس نے ہمت نہیں ہاری اور ہم دونوں ٹاور کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اوپر موجود سپاہی نے ہمیں خوش آمدید کہا ، ہمیں اب بھارتی علاقہ صاف نظر آرہا تھا صرف ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر بھارتی چوکیاں بھی نظر آرہی تھیں لیکن اس میں کوئی فوجی نظر نہیں آیا یہی بات میں نے ٹاورپر موجود سپاہی سے پوچھی تو اس نے ہمیں بتایا کہ چوکی میں فوجی بھی موجود ہیں اور ہمیں پوری طرح دیکھ بھی رہے ہیں یہ کہہ کر اس نے اپنی دوربین مجھے فراہم کی اور ایک بار پھر میں نے بھارتی چوکی کی جانب دوربین کے ذریعے دیکھا تو مجھے چوکی میں ایک اور دوربین ہلتی نظر آئی جس کا رخ میری ہی جانب تھا ساتھ ہی جدید بندوق بھی تھی اس کا نشانہ بھی ہماری جانب ہی تھا یعنی میں بھارتی فوج کی نظروں میں تھا یہ دیکھ کر ہلکا سا پسینہ میرے ماتھے سے بہہ نکلا لیکن اگلے ہی لمحے میر اسینہ چوڑا ہوچکا تھا کیونکہ میں اس وقت اپنے بہادر سپاہی اپنی قوم کے محافظ کے ساتھ موجود تھا ۔ میں نے فخر سے اپنے محافظ کو دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوربین اسے واپس کردی ، میں نے اپنی پوسٹ پر لہراتے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو دیکھا اور اپنے ساتھ آنیو الے ملک یونس اور سپاہی کو جشن آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا آپ جیسے محافظوں کی وجہ سے ہی پو ری قوم گھروںمیں سکون سے سوتی ہے ۔اللہ آپ کو سلامت رکھے اللہ پاکستان کو سلامت رکھے ۔ پاکستان زندہ باد ۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین