• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ قبل کراچی میں نہ تھمنے والی قتل و غارت اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانے کے لیے میں نے اسلامی سزاؤں کی تجویز دی تو اس پر ایک سینئر صحافی نے رات گئے مجھے فون کیا۔ میں سمجھاکہ جناب نے کسی ایمرجنسی میں مجھے یاد کیا ہو گا مگر جب اُن سے بات ہوئی تو محسوس ہوا کہ صاحب ہوش میں نہیں تھے۔ اس حالت میں توقع کے مطابق اُن کی زبان انتہائی ناشائستہ تھی اور پیے گئے مشروب کے اثر کی وجہ سے اُن کااندر کُھل کر سامنے آ رہا تھا۔ اسلامی سزاؤں کی تجویز پر جناب اس قدر طیش میں آ گئے کہ نجانے کیا کچھ کہہ دیا۔ میں نے اُن صاحب کا فون یہ کہتے ہوئے بند کر دیاکہ میں ایسے کسی شخص سے بات نہیں کر سکتا جسے گفتگو کرنے کی تمیز نہ ہو۔ میرے فون بند کرنے پر وہ صاحب مجھے بار بار کال کرتے رہے اور جب میری طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو ایک صلواتیں بھرا موبائل پیغام لکھ بھیجا۔یہ کون صاحب تھے اس راز کو راز ہی رہنا چاہیے۔ گزشتہ سال جب میری والدہ محترمہ)اللہ ان کو جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین) کا انتقال ہوا تو پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک بڑے علم بردار نے بظاہر اظہار افسوس کے لیے خط بھیجا، جس میں جناب نے تعزیتی جملہ تحریر کرنے سے پہلے یہ لکھنا مناسب سمجھا کہ وہ میری صحافت اور میری رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ نہ جانے یہ کس قسم کی تعزیت تھی مگر جس احسان جتلانے کے اسٹائل میں مجھے یہ تعزیتی خط لکھا گیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ لکھنے کی میری سوچ کے انداز سے انہیں چڑ ہے۔ انسانی حقوق کے اس علم بردار کا نام بھی راز ہے اور راز ہی رہے گا۔ ان حوالوں کے یہاں ذکر کرنے کا مقصد ایک ایسے لبرل طبقہ کی نشاندہی کرنا تھا جو ویسے تو انسانی حقوق اور اظہار رائے کے موضوع پر لمبی لمبی تقریریں کر تے ہیں مگر جب کوئی شخص مسائل کے حل کے لیے اسلامی اصولوں اور اسلامی نظام کیبات کرے تو ان کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے حضرات سے میری گزارش ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے کے لکھے کا دلائل سے جواب نہیں دے سکتے تو بہتر ہو گاکہ وہ ایسی تحریروں کو پڑھنا چھوڑ دیں جس سے ویسے بھیکہ اُن کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے جو اُن کی اپنی صحت کے لیے بھی بہتر نہیں۔
کراچی میں اس سال ابھی تک تقریباً اٹھارہ سو سے زائد انسانوں کو اس انداز میں مارا جا چکا ہے جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں۔ ویسے تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کوئی جان محفوظ نہیں مگر جس درندگی کاسامنا کراچی میں رہنے والوں کو ہے اُس کی تو کوئی نظیر نہیں ملتی۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں قاتل اور ٹارگٹ کلر مافیا بلاخوف و خطر جس کو چاہے، موت کی نیند سلادیتی ہے جبکہ عوام بیچارے سہمے ہوئے ہیں۔ حکومت اُن جماعتوں پر مشتمل ہے جو خود جرائم پیشہ افراد کو پالتی پوستی اور انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ کام کاج کے لیے گھروں سے نکلنے والوں کومعلوم نہیں ہوتا کہ کون صحیح سلامت واپس لوٹے گا۔ قتل وغارت ہے کہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے مگر نہ کوئی قاتل پکڑا جاتا ہے اور نہ ہی کسی ٹارگٹ کلر کو آج تک پھانسی ہوئی۔ مافیا شہر میں اس قدر طاقت ور ہو چکا ہے کہ پولیس بھی محفوظ نہیں۔ اگر کوئی قاتل پکڑا جائے اور وہ پولیس کے سامنے اپنے جرائم بھی تسلیم کر لے مگر عدالت کے سامنے گواہ پیش نہیں ہوتے۔ اگر کوئی گواہی کے لیے تیار ہو اور پولیس بھی قاتلوں کو اُن کے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے تو پھر جیو کے مقتول رپورٹر ولی بابر کے کیس کی طرح چن چن کر تمام گواہوں کو مار دیا جاتا ہے۔ یہاں تو سو افراد کے مبینہ قاتل کے خلاف کوئی گوائی دینے کے لیے تیار نہیں۔ شہر کے حالات ایسے بن چکے ہیں کہ مجرم ہر ڈر اور خوف سے بے نیاز ہے کیوں کہ اُسے معلوم ہے کہ اُسے پکڑا نہیں جائے گا اور اگر وہ پکڑا بھی جائے تو حکومت اس کو پے رول پر رہا کر دے گی اور اگر ایسا بھی نہ ہو تو یا تو گواہوں کو قتل کروا کر عدالت سے رہائی حاصل کر سکتا ہے ۔ اور اگر کسی کو موت کی سزا سنا بھی دی جائے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔ جب مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کو سزا کا ڈر نہ ہو تو وہ وہی کرتے ہیں جو کراچی میں ہو رہا ہے۔ ان حالات کی ذمہ دار حکومت ایسے میں موٹر سائیکل سواری اور موبائل سروس پر پابندی لگا کر سہمے ہوئے شہریوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا دیتی ہے مگر قتل و غارت کرنے والوں کا کچھ نہیں بگڑتا۔ جیسا کہ میں پہلے تجویز دے چکا ہوں کہ اسلامی طریقہ کے مطابق اگر حکومت چند سفاک قاتلوں اورفساد پھیلانے والوں کو سر عام چوکوں میں پھانسیاں دے دے تو کراچی میں دنوں میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی اقدامات سے مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے دل میں خوف اورڈر پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہی ہماری دینی تعلیمات کی حکمت ہے۔ اگر ایران ، سعودی عرب وغیرہ اسلامی سزاؤں سے اپنی ریاستوں میں سنگین جرائم پر قابو پا سکتے ہیں تو ایسا کرنا ہمارے لیے کیوں ممکن نہیں۔ سفاک قاتلوں اور فساد پھیلانے والوں کو اگر نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا توپھر بھول جائیں کہ موٹر سائیکل کی سواری اور موبائل فون کی پابندی سے قتل و غارت کو روکا جا سکتا ہے۔ گزشتہ چار سال میں پاکستان میں صرف ایک شخص کو چند دن پہلے پھانسی دی گئی جس پر فرانس نے پاکستان سے ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ وہی فرانس ہے جہاں مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کی پاداش میں سزائیں دی جاتی ہیں اور جو امریکا کی طرح آزادی رائے کے نام پر آئے دن اسلام دشمنی کی تمام حدیں پار کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت اور ذمہ داراسلام کی بات سنتے ہیں یا اسلام دشمنوں کی ؟؟؟
تازہ ترین