• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر تحسین بی بی

ادب، اپنے عہد کے بہترین خیال کو، بہترین الفاظ میں بہتر حسنِ ترتیب کے ساتھ محفوظ کرتا ہے اور اپنےد ور کی سچی روح کی عکاسی کرتا ہے، اس میں انسانی زندگی کی سماجی، سیاسی اور معاشی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ گویا زندگی، اپنی گونا گوں خصوصیات کے ساتھ، ادب میں جلوہ گر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر عصری زندگی کے مسائل بنیادی طورپر سیاسی ہیں تو یہ مسائل بھی اس کے ادب میں جھلکتے ہیں اور ہر عہد میں سیاست، زندگی کے اہم پہلو میں شمار ہوتی ہے، اس لیے کوئی بھی ادیب، سیاست سے ماورا نہیں رہ سکتا، کیوں کہ ہر زندہ ادب اپنے عہد کے سماجی، معاشرتی و تہذیبی ماحول کا عکاس ہوتا ہے۔

ادیب، چاہے کوئی بھی سیاسی نقطۂ نظر اختیار کرئے، مگر سیاست سے فرار اختیار نہیں کرسکتا، کیوں کہ ہمارا سیاسی مستقبل ہی بہت حد تک ہمارے ادبی وفنی مستقبل کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ ادب، آزادی کی روح ہے، ادب پر سیاست کے اثرات نہ صرف موجودہ دور میں مرتب ہوئے، بلکہ ادب کی روایت پر نظر دوڑائیں تو سیاست کے محرکات، ادب پر بہت زیادہ واضح طورپر سامنے آتے ہیں۔

اردو ادب، آغاز ہی سے سیاسی حالات کے زیرِ اثر مختلف مقامات پر، مختلف وسیلوں سے پروان چڑھتا رہا۔ شروع میں صوفیا و اولیا اللہ کے علاوہ اس کی سرپرستی سلاطین برصغیرِ پاک و ہند نےکی، علاوہ ازیں شعرا کی نقل مکانی کے سبب اس کے ذخیرئہ الفاظ اور ادب کی نثری اور شعری اصناف میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔

بیسویں صدی بھی سیاسی بحران لے کر آئی، ہندوستان کی سیاسی بیداری اورتحریکِ آزادی نے اردو ادب ہی کے ذریعے اپنے نظریات کو پیش کرنے کے لیے منتخب کیا۔ اس آزادی میں بالواسطہ ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کا عمل دخل بڑا ہے، جس نے اردو ادب میں بیداری پیدا کی۔ یہ سیاسی حالات، جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں بھی رونما ہوئے تو اردو ادب میں احتجاجی اور ہنگامی ادب کا دور آیا۔ا سی دور میں ایک طرف تو ہندوستان کے سیاسی حالات ، طبقاتی کش مکش، جاگیر دارانہ نظام، عدم تحفظ، خلفشار، اسپین کی خانہ جنگی، جرمنی و اٹلی کی فسطائیت اور سرمایہ دارانہ قوتوں کے عروج نے مل کر ہندوستان کے سیاسی حالات پر گہرے اثرات مرتب کیے، جن کی آغوش میں اردو ادب ، شاعری اور نثر کی تہذیب و ترتیب ہوئی ، اُسی دور میں بالخصوص اردو افسانے کے آغاز و ترویج کے سلسلے میں ان سیاسی تحریکوں نے بڑا کام کیا۔

پریم چند، کرشن چندر، منٹو، غلام عباس اور دیگر افسانہ نگاروں کےساتھ ہی نثر نگاروں و شاعروں نے اس وقت کے بدلتے سیاسی حالات کی ترجمانی اپنے ادب میں نہایت خوبی سے کی اور ان کی تحریروں کو سب سے بڑی تحریک، ملک کی سیاسی فضا سے ملی۔ ان حالات میں اردو ادب میں احتجاجی اور ہنگامی ادب کا ظہور ہوا۔ اردو ادب پر سب سے زیادہ تلخ اور شدید اثرات برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد رونما ہوئے، جن میں ہجرت و فسادات کے واقعات نے جگہ پائی۔ اس طرح اس ادب میں کلبیت ہی کے عناصر نہیں پیدا ہوئے، بلکہ احتجاجی، ہنگامی اثرات کے علاوہ اس میں زندانی ادب کے نمونے بھی ظاہر ہوئے۔

اس دور میں اردو ادب میں شاعری کے حوالے سے فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور ناصر کاظمی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ فیض کی شاعری میں سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی عوامل واضح صورت میں اجاگر ہوتے ہیں، ان کی نظم ’’صبحِ آزادی، اگست 47‘‘ میں سیاسی حالات کی نمائندگی کرتی ہے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں (۱۰)

اکیسویں صدی کے شروع میں 11ستمبر2001کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا اندوہ ناک خونیں واقعہ پیش آیا،جو نائن الیون کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعے کے اثرات ساری دنیا کے ساتھ اردو ادب پر بھی پڑے۔ اردو ادب ویسے بھی بڑی حد تک سیاسی و معاشرتی تناظر کا عکاس و مبصر رہا ہے اور کلاسیکی دور سے لے کر آج تک ہر شاعر و ادیب کی تخلیقات میں اُس عہد کے سیاسی ، ملکی اور معاشرتی مسائل کا عکس نظر آتا ہے، اس حوالے سے اردو ادب میں بہت سا سرمایۂ ادب سامنے آیا ہے، جس میں حسن منظر کے ناول ماں بیٹی، بیر شیبا کی ایک لڑکی، دھنی بخش کے بیٹے، مرزا اطہر بیگ کے غلام باغ، صفر سے ایک تک، مستنصر حسین تارڑ کے قلعہ جنگی، خس و خاشاکِ زمانے وغیرہ میں اس واقعے کے گہرے اثرات موجود ہیں، تو افسانہ ’’شناخت‘‘ (مسعود مفتی)، ایک سائیکلو اسٹائل وصیت نامہ ’’(منشا یاد)، ’’مجال خواب‘‘ (رشید امجد)، ’’ابنِ آدم‘‘ (خالدہ حسین) میں گیارہ ستمبر کے واقعے، امریکا کے رویے، مسلمان ممالک پر الزام تراشی، تیسری دنیا اور بڑی عالمی قوتوں کی کش مکش، عصری بدامنی، خود کشی، دھماکوں اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔

انہی سیاسی حالات نے بہت سی بدیسی ادبی تحریکوں کو ادب میں در آنے کے مواقع فراہم کیے، جن میں ڈاڈازم، سر ریلزم، علامت نگاری، تجریدیت، جدیدیت اور وجودیت شامل ہیں، یہ تمام تحریکیں ،سیاسی حالات کے تحت اردو ادب پر اثر انداز ہوئیں اور فنی لحاظ سے اردو ادب کو متاثر کیا اور حقیقت نگاری سے علامت نگاری، علامت نگاری سے تجریدیت نگاری اور تجریدیت سے وجودیت کا عمل دخل ہوا، یوں نثری ادب، بالخصوص افسانوی ادب میں انہی اثرات اور رجحانات نے تجریدی، علامتی اور وجودی فن پاروں کو پیش کرنے میں مدد فراہم کی۔ بعد ازاں اردو نظم اور غزل دونوں میں اسی طرح کے تجربے پنپتے رہے ،ہر ادیب و شاعر نے ان سیاسی حالات کے تحت اپنے اپنے رجحان طبع اور نظریے کے مطابق، ایسا ادب تخلیق کیا، جن کو ہم درج ذیل خانوں میں بانٹ سکتے ہیں، مثلاً ہنگامیت ، حقیقت نگاری، علامت نگاری، تجریدیت، احتجاجیت، وجودیت، مابعد جدیدیت وغیرہ۔

اس کے ساتھ ہی اردو ادب، اسلوب کے لحاظ سے بھی مختلف اسالیب کی صورت میں منظرِ عام پر ظاہر ہوا، جن کی اہم اقسام کچھ یوں ہیں:

سادہ سپاٹ، خطیبانہ، محاکاتی، استعاراتی، طنزیہ، علامتی، ہیجانی، مادرائی وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح ان اقسام کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاسی حالات نے اردو ادب میں اسلوبیاتی دائرئہ کار کو بھی وسیع کیا اور یہ اسالیب ذاتی و انفرادی ہونے کے باوصف اپنے عہد کے بدلتے سیاسی حالات و واقعات کے عکاس ٹھہرے۔

تازہ ترین