• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے پاکستان میں ہرشہر ہر قصبہ ہر گائوں کی سڑکوں۔ راستوں اور پگڈنڈیوں پر یورینیم بکھرا پڑا تھا۔ اور اپنی افزودگی کے لئے کسی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پکار رہا تھا۔

14؍اگست جب بھی آتی ہے۔ واہگہ سے گوادر تک سب پاکستانی اسے سال میں ایک اپنا دن سمجھ کر گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ اکیلے نہیں۔ سب گھر والوں کو ساتھ لے کر۔ سبز پرچم کے سائے میں ، ہاتھوں میں پرچم ستارہ و ہلال۔ چہروں پر سبز جھنڈا۔

کراچی کی خیابان اتحاد واقعتاً اتحاد کا استعارہ بن جاتی ہے۔ یہ دیکھئے چھوٹی سی گاڑی۔ ائیرکنڈیشنڈ نہیں ہے۔ اس میں گاڑی والے کی ماں بھی ہے۔ سہاگن بھی۔ بچے بھی۔ سب ہرے رنگ میں ملبوس ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں ہاتھوں میں۔ یہ گاڑی ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔

یہ موٹر سائیکل ایک پورے کنبے کو لے کر چل رہی ہے۔ آگے بھی بچے بچیاں۔ بچے بھی۔ بیگم بھی۔ سب ہرے رنگ میں کسی نے ہر ےرنگ کی قمیص پہنی ہے۔ کسی نے ٹی شرٹ۔

یہ نوجوانوں کی ٹولی۔ ہری ٹی شرٹوں میں۔ ایک ایک موٹر سائیکل پر دو تین۔ نوخیز۔ نوجوان۔ میرے اور آپ کے پاکستان کا توانا مستقبل۔ ہر موٹر سائیکل پر ایک سبز پرچم۔ دو تین موٹر سائیکل ساتھ اور ایک بہت بڑا پرچم مشکل سے سنبھالے ہوئے۔

پورے کراچی میں منی پاکستان میں ساری شاہراہوں۔ سڑکوں پر یہی عالم ہے۔

کراچی میں نہیں لاہور۔ ملتان۔ حیدرآباد۔ سکھر۔ پشاور۔ مردان۔ کوئٹہ۔ گوادر۔ سیالکوٹ۔ فیصل آباد۔ اسلام آباد سب جگہ پاکستانی خاندان باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یہ 14؍اگست ہے۔ آج کے دن یہ آزاد وطن ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت میں حاصل کیا تھا۔ عظیم لیڈر، جس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ جو جذباتی مسلمان نہیں تھا۔ جو جاگیردار تھا نہ سردار۔ وہ نہ جھکتا تھا نہ بکتا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید برصغیر کے مسلمانوں کو الگ وطن نہ ملتا۔

یہ بچی چھوٹی سی بچی۔ کتنی خوش ہے۔ چہرے پر پاکستانی پرچم۔ ہاتھ میں جھنڈی۔ چوڑیاں بھی سبز رنگ کی۔ اس کے بہن بھائیوں کے چہروں پر بھی وہی تسکین ہے۔

یہ پاکستانی قوم ہے۔ غریب۔ مقروض۔ بے روزگاری کی شکار۔ ہر روز مشکلات سے گزرتی ہے۔ اس کے لیڈر بہت خوشحال ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں۔ پھر بھی اپنے آپ کوقیادت کا اہل سمجھتے ہیں۔ لیکن آج سب پاکستانی سب کچھ بھول کر آزادی کا جشن منانے نکلے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ٹریفک جام ہوں گے۔ کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر گزریں گے۔ گاڑیاں بند بھی ہوجائیں گی۔ لیکن اپنے جذبات کے اظہار کا یہی دن ہے۔ کوئی پی ٹی آئی، کوئی پی ایم ایل ن، کوئی پی پی پی، کوئی ایم کیو ایم، کوئی جے یو آئی، کوئی بی پی این، کوئی بی اے پی نہیں ہے۔ آج سب پاکستانی ہیں۔

کچھ من چلے پورا ٹرک کرائے پر لے کر اس پر بڑے بڑے اسپیکر لگا کر ملی نغمے بلند کررہے ہیں۔ جب موقع ملتا ہے۔ ٹرک سے اتر کر رقص بھی کرلیتے ہیں۔ یہ رقص آزادی ہے۔

آج کچھ جذبہ مختلف لگ رہا ہے۔ اس 14؍اگست پر کوئی باقاعدہ حکمراںنہیں ہے۔ نگراں حکومت ہے جو چند روز بعد رخصت ہوجائے گی۔ کوئی مانے نہ مانے۔ آج اس پرجوش قوم میں کرپشن سے نجات کا احساس بھی ہے۔ عوام باشعور ہیں۔ عوام سمجھدار ہیں۔ ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس بات سے خوش ہیں بعض چھوٹے موٹے واقعات بھی ان کے دل میں سکون پھیلا دیتے ہیں۔ ان سب نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دئیے۔ لیکن آج سب کی امیدیں نومنتخب حکومت سے ہیں۔ 14؍اگست پہلے بھی آتی رہی ہے۔ پہلے بھی جوش و جذبہ اسی طرح رہا ہے۔ لیکن آج یہ جذبہ فزوں تر ہے۔ ایک احساس ہے تبدیلی کا۔ نئے موسم کا۔ نئے حالات کا۔

دو پارٹیوں کی باریاں لد چکیں۔ اب نئے لوگوں کی آزمائش ہے۔ نئے انداز حکمرانی کا تقاضا ہے۔ پچھلے چالیس سال اور بالخصوص گزشتہ 10سال کی حکمرانیوں نے ملک میں جو بحران پیدا کئے۔ قرضے چڑھائے ادارے تباہ کئے۔ کلیدی عہدوں پر نااہل منظور نظر افراد بٹھائے۔ سرکاری کارپوریشنوں کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے سیکڑوں ارب روپے کےخسارے کا بوجھ بڑھا دیا ہے۔ اب سفید شلوار قمیص اور واسکٹ مانگ کر تصویر اتروانے والے۔ مگر کروڑوں نوجوانوں کے آئیڈیل عمران خان پر پہلے حکمرانوں سے کہیں زیادہ بار گراں ہے۔ نواز شریف آصف زرداری سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ ادارے زیادہ ابتر حالت میں ملیں گے۔ اس لئے پہلے حکمرانوں کی نسبت زیادہ استعداد۔ زیادہ صلاحیتوں کا تقاضا ہے۔ اچھی بات یہ ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے۔ پھر اکثریت کی حمایت کی ایک ہیبت بھی ہے۔ پہلے چھ سات ماہ میں ہی بہت کچھ کرنا ہوگا۔

14؍اگست کو پورے پاکستان میں بزرگوں۔ نوجوانوں۔ مائوں بہنوں۔ سہاگنوں۔ بچوں بچیوں نے جس مثبت جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے وہ بھی تھے۔ جنہوں نے دوسری پارٹیوں کوووٹ دئیے۔ وہ بھی ان جلوسوں میں تھے۔ خوبصورت بات یہ کہ ان جلوسوں کی قیادت کوئی نہیں کررہا تھا۔ یہ لوگ کسی سیاسی ٹھیکیدار سے کرایہ لے کر نہیں نکلے تھے۔ یہ سب اپنے خرچ پر۔ اپنی گاڑیوں۔ موٹر سائیکلوں میں پیٹرول ڈلواکر۔ خود پرچم جھنڈیاں۔ باجے خرید کرسڑکوں پر آئے تھے۔ یہ جیتنے والے ان ہارنے والوں کو بتا رہے تھے کہ ہم ایک ہیں۔ ہم متحد ہیں۔ اگر پاکستان کا نام ہے۔ پاکستان کا مفاد ہے تو ہم سب ایک ہیں۔ ہمارا پرچم ایک ہے۔ ہمارا لیڈر قائد اعظم ایک ہے۔

پہلے حکمرانوں نے 14؍اگست کے اس جذبے کو سمجھنے کی۔ قدرکرنے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کا مفاد ہوتو یہ قوم اپنی مصیبتوں۔ مشکلوں کو بھول جاتی ہے۔ اس کا مظاہرہ زلزلوں۔ سیلابوں اور دوسرے سانحوں میں ہوچکا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے پیشہ ور روایتی سیاسی خاندان۔ قوم کو بھی اپنی عینک سے ہی دیکھتے رہے ہیں۔ قوم کو بکائو مال سمجھ کر قیمتیں لگاتے رہے ہیں۔ کاش وہ 14؍اگست پر قوم کے مزاج کو اس کی روح کو سمجھ کر ان جذبات کو ان بازوئوں کی طاقت کو ایک راستہ دے دیتے۔ اس سیلاب کو ایک دریا میں منتقل کرلیتے، کوئی بڑا ڈیم بناکر اس بہتے قیمتی پانی کو ذخیرہ کرلیتے۔

آج پھر 14؍اگست کو پاکستان نے یہ احساس دلادیا ہے کہ ہم زندہ دل قوم ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہم میں سے ہر ایک جوہری توانائی رکھتا ہے، ضرورت ہے کسی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جو ان ذروں کی اس یورینیم کی افزودگی کرسکے، اسے ایٹمی طاقت میں ڈھال سکے، صحیح کرسکے۔ عمران خان بھی عقل کل نہیں ہیں۔ ملک جتنے مسائل اور جتنے قرضوں تلے دبا ہوا ہے ان سے نجات کے لئے اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک ایک مخلص پاکستانی کو فیصلوں میں شریک کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ کسی ایم این اے ایم پی اے کی گردن میں سریا نہیں آنا چاہئے۔ انہیں احتساب سے گررنا چاہئے۔ عوام انہیں بادشاہ یا بادشاہ کا مصاحب نہیں بناتے ۔ ملک کو آگے لے جانے کے لئے نمائندگی دیتے ہیں۔ عمران خان اس ساری صورت حال میں مرکز و محور ہیں، ان کو سب پاکستانیوں سے طاقت اور توانائی حاصل کرکے کلیدی عہدوں پر اہل افراد متعین کرکے اس طاقت اور توانائی کو ملک کے ایک ایک شہر کی رگ رگ میں منتقل کرنا ہے۔

تازہ ترین