• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوش نے کہا تھا کہ ’’سیاست انبیاء کا میدان ہے‘‘ یہ جہاں بانی و جہانگیری کا نام ہے لیکن افسوس ہمارے یہاں سیاست کو اس قدر بدنام کر دیا گیا ہے کہ جیسے اس کا دوسرا نام کرپشن، بددیانتی، بے ایمانی، بے وفائی، دھوکہ دہی یا جھوٹ اور کہہ مکرنی ہو۔ جس طرح ہر شعبہ حیات میں کچھ کالی بھیڑیں یا گھس بیٹھیے ہوتے ہیں اسی طرح کارزارِ سیاست بھی ان ’’ہستیوں‘‘ سے محروم نہیں ہے۔ میڈیکل کے مقدس شعبے میں اگر ڈاکٹرز کی جگہ عطائی ہو سکتے ہیں تو میدانِ سیاست میں اسی نوع کے اناڑی کیوں نہیں ہو سکتے اور وہ منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے نسبتاً بڑی بڑی پوسٹوں پر بھی براجمان ہو سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست کو مذموم مقاصد کے تحت گالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جینوئن سیاستدانوں یا قومی قائدین کو کارنر کرنا یا اس مقدس ایوان سے آؤٹ کرتے ہوئے جیلوں میں بھیجنا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے جیسا خیال کیا جاسکتا ہے وہاں اس خلا کو گھس بیٹھیوں کے ذریعے پُر کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ طاقتور کے سامنے کسی بھی قومی ایشو پر جو سٹینڈ ایک جینوئن پاپولر حمایت سے جیتنے والا لے گا وہ کسی کٹھ پتلی یا اناڑی کے بس میں نہیں ہو گا۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہی المیہ رہا ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے آنے والوں نے بھی شعوری منازل طے کرتے ہوئے جب اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر پاؤں جمانے اور حقیقی مطالبات منوانے کی کوشش کی تو انہیں راندئہ درگاہ قرار دے دیا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد سے ہم آج تک جناح صاحب کی پہلی تقریر کا رونا روتے چلے آرہے ہیں، وہ تقریر جواُن کے سیاسی آدرشوں کی تمہید یا تفسیر تھی وہ اس نئی مملکت کی بنیادیں کس طرح استوار کرنا چاہتے تھے ان کی جھلک اُن کی یہی تقریر تھی مگر افسوس اُن کی اس جوہری تقریر کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیا خود ان کے اپنوں نے بھی کبھی حقیقی اہمیت کے قابل نہیں سمجھا۔ پاکستان میں الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں اُن پر اگرچہ اعتراضات بھی ہیں اس سب کے باوجود جیتنے والی پارٹی کے لیڈر نے اپنی پہلی تقریر میں جو مثبت باتیں کیں پوری دنیا میں انہیں سراہا گیا مگر افسوس اس تقریر پر جو تبصرہ ہماری سماعتوں تک پہنچا وہ یہی تھا کہ وہ تقریر تو محض سیاسی تھی یعنی اس میں ظاہر کیے گئے عزائم اور وعدے محض جھوٹ تھے جن کی کوئی قانونی یا عملی حیثیت نہیں۔ اس کے بعد عام لوگ قومی سیاست کے دعوئوں کو 35 پنکچرز کے واویلے کی طرح کیوں نہیں دیکھیں گے؟

سیاست بلاشبہ کسی جمود کا نہیں لچک کا نام ہے جس میں کامیابی یا حصولِ اقتدار کے لیے مختلف النوع چالیں بھی چلنا پڑتی ہیں لیکن سیاسی چالوں اور بے اصولیوں یا کہہ مکرنیوں میں فرق ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ ایک مدبر یا مفکر آنے والی صدیوں کو دیکھتا ہے جبکہ ایک سیاستدان آنے والے دنوں پر نظر رکھتا ہے ایک کامیاب سیاستدان وہی سمجھا جاتا ہے جو انتخابی سیاست میں کامیابیاں سمیٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے لیے اُسے بارہا تلخ سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن بڑا سیاستدان یا قومی قائد صرف وہی کہلا سکتا ہے جو ہنگامی سیاسی کامیابیوں سے اوپر اٹھ کر وسیع تر قومی و عوامی مفاد میں فیصلے کرنے کا وژن اور حوصلہ رکھتا ہو چاہے وقتی طور پر اُسے ناکامی کو سہنا پڑ جائے لیکن مابعد وقت اُس کی دانائی اور عظمت کو سلام پیش کرے۔ تاریخ میں جن سیاسی قائدین نے بلند مقام حاصل کیا وہ ابن الوقت نہیں ابو الوقت تھے۔ مہاتما گاندھی اور ابراہام لنکن جیسے عظیم سیاستدانوں نے اگرچہ اپنے مشن کی تکمیل میں اپنی جانیں گنوا دیں مگر انسانی تاریخ بلا تمیز اُن کی پر عظمت جدوجہد کو ہمیشہ سلامِ عقیدت پیش کرتی رہے گی۔

ہمارے اپنے ملک پاکستان کی تاریخ بڑی درد ناک ہے یہاں مذموم مقاصد کے تحت بانی پاکستان کی جینوئن سوچ اور اپروچ کو باشندگانِ پاکستان کے سامنے اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا آج ہم اپنے قائد کی حقیقی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنا یا بولنا چاہتے ہیں تو حیرت سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں یہ تو ناقابلِ اشاعت ہیں۔ قائد نے کس کے متعلق زیارت میں یہ کہا تھا کہ ’’فاطی یہ میری عیادت کے لیے نہیں آیا بلکہ دیکھنے آیا ہے کہ بڈھا کب مرنے جا رہا ہے۔‘‘ مابعد خود فاطمہ جناح پر ملک دشمن اور بھارتی ایجنٹ ہونے کے جو الزامات عائد کیے گئے اور انہیں جس ظالمانہ دھاندلی کے ساتھ ایوب خان نے ہرایا کیا یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے۔

ماضی کو چھوڑیں آج کیا ہو رہا ہے تین مرتبہ منتخب ہونے والے قومی قائد کو متعدد الزامات کے تحت بیٹی کے ہمراہ جیل میں بند کیا ہوا ہے۔ آپ تمام الزامات کو حقیقی قرار دیتے ہوئے اس سے لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کا محبوب رہنما ہے۔ مانا کہ نیب نے سزا دی ہے کیا ابھی اس کی اپیلیں نہیں چل رہی ہیں؟ ضمانتیں تو قاتلوں اور آئین شکنوں کی بھی ہو جاتی ہیں سینکڑوں انسانوں کے قاتل اور دہشت گرد یہاں دندناتے پھر رہے ہیں، دو مرتبہ آئین توڑنے والے کو یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ساری برق گرتی ہے تو بیچارے سیاستدانوں پر۔ بادی النظر میں انصاف کا تقاضا تو وہی تھا جو مولانا فضل الرحمٰن چاہتے تھے کہ انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جائے اس سے پہلے کم ازکم مسلم لیگ ن، دھاندلی کے ایشو پر اپنے تمام گورنرز، سپیکرز اور صدر سے فوری احتجاجی استعفے دلواتی۔ کم ازکم آپ لوگ ظلم کے خلاف اپنی چیخ تو سناتے اپنے لاکھوں کارکنان کے ساتھ ایک مرتبہ جیلیں تو بھرتے لیکن یہ سب اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب آپ کے پاس روایتی کے بجائے انقلابی قیادت موجود ہو جس کی بلند پروازی دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی وسعت رکھتی ہو جبکہ یہاں تو آپ کے اپنے اندر اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر شکست کھانے کے لیے اپنی بجائے اپنی پارٹی کے کسی دوسرے رہنما کو آگے کردیں چہ جائیکہ دوسری اتحادی جماعت کی دلجوئی کرتے ہوئے ان میں سے امیدوار کھڑا کریں۔ اگر سیاسی بلوغت ہوتی تو روایتی اپروچ کی بجائے اس سے آگے کا سوچا جاتا۔

مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف بلاشبہ بڑے اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوئے ہیں پنجاب حکومت کو انہوں نے جس خوش اسلوبی سے چلایا اور جتنے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے وہ سب قابلِ ستائش ہی نہیں مثالی ہیں مگر بطور قومی سیاستدان کارکردگی دکھانا ایک مختلف چیز ہے۔ نواز شریف کی پاپولر قیادت جس کے پیچھے ن لیگ کا پورا ووٹ بینک ہے وہ ازخود گرفتاری دینے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچ رہے تھے عین اس وقت کارکنان کے عوامی جذبات کو کس بے دردی سے کچلا گیا۔ انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن کے سامنے جو علامتی احتجاج ہونے جا رہا تھا اُس میں بھی عدم شرکت ہوئی۔ اور اب اسمبلی اجلاس کے موقع پراحتجاج کی کوئی ایک آواز نہیں اٹھی۔ حضور احتجاج تو زندگی کی علامت ہے مردے کو چاہے چارپائی پر رکھو یا پھٹے پر ڈالو اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ ن لیگ کم از کم قائدِ حزب اختلاف کے لیے خواجہ آصف یا احسن اقبال ہی کو لے آئے جب آپ لوگ دوبارہ اقتدار میں آئیں تب دوبارہ اپنے بہترین منتظم یا ایڈمنسٹریٹر کی خدمات سے مستفید ہوں پارٹی کہیں نہیں چلی جائے گی۔ یاد رکھیے اگر آپ لوگ اپنے لوگوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر کامیابی آپ لوگوں سے روٹھ جائے گی ۔ مدبر سیاستدانوں کو ہنگامی و وقتی مفادات سے اوپر اٹھ کر وسیع تر عوامی مفادات کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تو پی پی کی دلجوئی کرتے ہوئے وسیع تر ڈیمو کریٹک الائنس کا اہتمام کیجیے، چاہے اس کی قیادت مولانا صاحب کو دینی پڑے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین