• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی قیادت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے جذبے کے ساتھ آپ سب کو 72واں یوم آزادی مبارک ہو۔ نئے پاکستان کی تعمیر کے جذبے سے آگے بڑھئے۔ اب ہم عمرانی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ خان صاحب آپ کے پاس دو ہی آپشن ہیں، ایک بیرونی دنیا سے پاکستان کے تعلقات کی باعزت بحالی، وہ عزت جو ماضی کی حکومتوں نے ذاتی مجبوریوں، مصلحتوں اور ذاتی مفادات کی خاطر گروی رکھ دی۔ اس میں مسئلہ کشمیر سے جُڑاپانی کا مسئلہ اور یہ تاثر کہ ہم پیسے کی خاطر وطن کی مٹی بھی بیچ سکتے ہیں اور اس کی خاطر انتہا پسندی کو فروغ بھی دے سکتے ہیں، اس امیج نے ہمارے قریبی دوستوں ایران، سعودی عرب، یو اے ای خصوصاً اور تمام عرب دوستوں کو عموماً ہم سے دور کر دیا ہے اور آج وہ ہمیں دوستوں کی فہرست سے باہر نکالے بیٹھے ہیں اور شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان دشمنی کی اس دوڑ میں بھارت نے عالمی سطح پر جو ممبئی حملوں کے بعد ہمارا امیج برباد کرنے میں دن رات ایک کردیا اور آج اس پس منظر میں دنیا ہمیں جو دہشت گردوں کی فیکٹری کے طور پر دیکھ رہی ہے، یہ ہوگا آپ کا بیرونی دنیا کے حوالے سے سب سے پہلا اور کڑا امتحان اور راستے میں آئے گا گرفتاربھارتی دہشت گرد کلبھوشن کا ’’بوتل میں بند جن‘‘ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آپ سے ٹیلی فون کال کے بعد مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آئین میں ترامیم شروع کر دی ہیں۔ اس کال کے بعد مظلوم کشمیریوں کی شہادتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ رائے یہی قائم ہو رہی ہے کہ عالمی دنیا سے آپ کے تعلقات کا راستہ نئی دہلی سے گزر کر ہی جائے گا ۔ آپ کو مقبوضہ کشمیر اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کے پل صراط سے گزرنا ہی پڑے گا۔ دیامر کے حالیہ واقعات اور منصف اعلیٰ کا یہ فرمانا کہ دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ دیامر بھاشا ڈیم بنے تو آپ کو بھی سمجھ جانا چاہئے کہ اس پہاڑ کو عبور کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اس محاذ پر آپ کی دلیرانہ قیادت پاکستان کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلا سکتی ہے۔ کشمیر کمیٹی کے نام پر چلنے والی پھیکی دکان بند کیجئے اوریہ جو کچھ لوگ اپنی زبانوں سے پاکستان کے اداروں کے خلاف زہر اگلنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں صرف یہ یاد دلانا ہے کہ زبان کی بے لگامی کی آزادی بھی صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی حاصل ہے۔ عوام نے آپ کو اپنے ووٹ کی طاقت سے مسترد کردیا ہے تو آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یوم آزادی کے موقع پر آپ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس دھرتی کو جتنے زخم آپ نے دیئے ہیں اب اس کا قرض اتارنے کا وقت آچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی انجمن ستائش باہمی کا ضمیر خود جھنجھوڑیئے اور امریکہ بہادر کو دلیل کے ساتھ قائل کیجئے کہ ہمیں آگے بڑھنے کا ایک باعزت موقع درکار ہے۔ آپ امریکہ بہادر کو واضح طور پر بتائیے کہ افغانستان میں امن کا راستہ بھارت سے نہیں پاکستان سے ہی گزر کر جائے گا۔ اگرچہ یہ مرحلہ بھی انتہائی مشکل ہے مگر آپ سے پوری قوم اور اداروں کو یہی توقع ہے کہ آپ عالمی سطح پر پاکستان کا کردار ماضی کی نااہل قیادت کی نسبت بہتر انداز میں اجاگر کرسکتے ہیں ۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ آپ کرپٹ نہیں، آپ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ آپ ’’پرچی فری پرائم منسٹر‘‘ ہیں۔ دنیا ایک سچے کھرے انسان اور پاکستان کے حکمران پر یقین کرنے کو تیار ہے۔ خان صاحب آپ قدم بڑھائیے قوم آپ کا ساتھ دے گی۔

چومکھی لڑائی کا دوسرا کٹھن مرحلہ وینٹی لیٹر پر پڑی پاکستان کی آخری سانسیں لیتی معیشت ہے جسے آکسیجن دینے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے پاس بلائیں، معیشت کی میڈیکل رپورٹ واضح طور پر ان کے سامنے رکھیں اور انہیں بلا تفریق بھرپور اعتماد سے کہیں کہ پاکستان کو آج آپ کی اشد ضرورت ہے۔ دم توڑتی پاکستانی معیشت میں نئی روح پھونکنے کے لئے تمام صنعت کاروں، سرمایہ کاروں سے پوچھئے کہ انہیں حکومت کی طرف سے کیا سہولتیں درکار ہیں اور ان سہولتوں کے عوض وہ نئے پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے کیا دیں گے۔ان کو گارنٹی دیجئے کہ بیرون ملک پڑا اپنا پیسہ مکمل تحفظ کے ساتھ بلاخوف پاکستان لائیںاور یہ پیسہ واپس لانے کے لئے وہ جو سہولت حکومت سے مانگتے ہیں دے دیجئے اور ان سے کہیں کہ پاکستان کے کونے کونے میں خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بے دریغ صنعتیں قائم کریں۔ ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کا جو خواب آپ نے دکھا دیا ہے اس میں ان صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو اپنا دست و بازو بنائیے اور یہ ذمہ داری اپنی حکومت پر ڈالنے کے بجائے ان کے مضبوط کندھوں پر ڈالئے۔ قومی خزانے کو بھرنے کے لئے ایسا ٹیکس نظام لائیں جو ایف بی آر کے خوف سے پاک ہو۔ ایف بی آر کو عوامی محکمہ بنانے کی کوئی تدبیر ہونی چاہئے۔ ایف بی آر کے اختیارات کو عوام دوست بنایا جانا چاہئے تاکہ عام آدمی بھی بلاخوف ٹیکس ادا کرے، بیشک ایک کھوکھے والے پر بھی دو تین ہزار روپے سالانہ تاحیات ٹیکس لاگو کرنا پڑے تو کر دیجئے مگر اس سے ایسی دستاویزات نہ مانگئے جو وہ پیش کرنے سے قاصر ہو۔ ٹیکس ادائیگی کا کوئی رضا کارانہ نظام ہونا چاہئے جس سے سادہ فارم کے ذریعے ٹیکس کی ادائیگی ممکن ہو۔ اس سے ذرائع آمدن پوچھنے کے بجائے صرف ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنانے کا آسان اور مربوط طریقہ اپنائیے۔

پولینڈ کے شہروں وارسا، کروکو اور جرمن شہر برلن میں گزرے گزشتہ پانچ دنوں کی داستان آئندہ چند دنوں میں تحریر کروں گا۔ ان پانچ دنوں کا مشاہدہ یہ کہہ رہا ہے کہ جنگ عظیم اول اور دوم میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے ملک پولینڈ سے کوئی سیکھے کہ آزادی کی نعمت کیا ہے اور کس طرح قومیں تباہی اور غلامی سے نجات کے بعد دنیا میں اپنے وجود کو منوا سکتی ہیں۔ پولش لوگ روسی اور نازی تسلط اور مظالم کے زیر اثر ہونے کے باوجود اپنے ہیروز پر ناز کرتے ہیں اوراپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ اور جنگ عظیم کی نشانیاں ہی ان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔ ہمیں بھی کچھ سبق سیکھنا چاہئے۔ اپنے محسنوں کی یادگاروں کو آباد کرنا چاہئے اور ان کی تاریخ اورجذبہ حب الوطنی کو پوری دنیا تک پھیلانا چاہئے۔پولینڈ میں گرمیوں کا موسم بڑا حسین ہے۔ ہر سال یہاں لاکھوں سیاح آتے ہیں اور یہاں کے گائیڈز انہیں اپنے ملک کی تاریخ سناتے ہیں اور پھر فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کو کمیونزم سے نکال کر ری پبلک آف پولینڈ بنایا ہے۔ وہ اپنے تاریخی مقامات کی سیر بھی کراتے ہیں اور سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ اب ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر اپنے عظیم ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کادنیا بھر میں نام روشن کریں گے اور اس کا امیج قابل قدر اور قابل فخر قوموں میں اجاگر کریں گے۔ آج ہمیں تاریخ کی تلخیاں بھلا کر ایک بار پھر نئے قومی جذبے سے اس پاک وطن کو سیاسی، معاشی، ثقافتی، مذہبی سطح پر مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے۔ دنیا آپ کی منتظر ہے۔ خاں صاحب کی قیادت سے توقعات وابستہ ہیں۔ یہ کٹھن مرحلہ ہمیں مل جل کر اتفاق اور قومی جذبے سے طے کرنا ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین