• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم آزادی گزر گیا ماہِ آزادی باقی ہے

ہم ہر قوم کی آزادی کی دل سے قدر کرتے ہیں، مگر ہماری آزادی خاص ہے اپنی ترکیب میں کیونکہ اس کی مٹی کا خمیر لا الٰہ الا اللہ کے نور سے اٹھا ہے، جسے زوال نہیں، 14اگست کو یوم آزادی، پر قوم نے جس والہانہ انداز میں اپنی خوشی کا اظہار کیا اس نے ہماری طاقت میں اتنا اضافہ کر دیا کہ ہماری پہچان کا گراف اقوام عالم میں بہت اونچا ہو گیا، ہمیں اس پاک سرزمین کی اساس یعنی نظریہ پر خاص توجہ دینا ہو گی، پورا مہینہ پڑا ہے، سیمینارز کرائے جائیں، میڈیا پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جائے، کہ نئی نسل مقاصد قرارداد پاکستان کے مفہوم سے آگاہ ہو، آج اگر اسلامی دنیا اس قدر وسیع و عریض ہے تو اس لئے کہ ایک ایسے آفاقی نظریئے کی بنیاد پر کھڑی ہے، جس کی تفصیلات میں گڈ گورننس، عدل، سر بلندی، معاشی خوشحالی اور خود کفالت کا راز پوشیدہ ہے، اسلام کے نظام حکومت میں معاملات و عبادات دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ہر معاملہ جو جائز انداز میں روبہ عمل ہو وہ عبادت ہے وہ گویا ہمارا معاملہ ہماری عبادت ہے اور عبادت ہمارا معاملہ، اسلام کا نظریہ سیاست عالمگیر ہے، یہ ہر اچھے قول و فعل پر مبنی ہے، سیاست، حکمرانی وہ عبادت ہے کہ اگر حکمران چاہیں تو وہ دولت حاصل کر سکتے ہیں جس سے یہ اپنی اچھی عاقبت خرید سکتے ہیں، اس بات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہم اپنی نظریاتی بنیاد کو مزید اجاگر کریں بچے بچے کے دل و دماغ میں پاکستان کو ایک عقیدے کی صورت اتار دیں، نظریہ ہی وہ تعلیم ہے وہ زمین ہے جس پر کوئی یلغار نہیں کر سکتا، پاکستان کے خلاف سازشیں آج بھی ہو رہی ہیں مگر یہ نظریہ ہے جو ایک ایسی حب الوطنی کو جنم دیتا ہے جو ناقابل تسخیر ہے۔


خوف کی خوفناک قسم ’’وَہن‘‘


آصف زرداری نے کہا ہے:ملک کو خوف کے حصار سے نکلنا ہو گا۔ حکومت، حکمران، انداز سیاست، آپس کے اختلافات کچھ بھی ہوں جمہوریت میں ایسا چلتا رہتا ہے، مگر ریاست کا استحکام ایک ایسا اطمینان دیتا ہے جو قومی اعصاب کو کمزور نہیں ہونے دیتا، زرداری صاحب نے برموقع و محل یہ باور کرا دیا ہے کہ آج ہم کسی انجانے خوف کے حصار میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارا اتنا بڑا دشمن کوئی نہیں جتنے خود اپنے دشمن بن رہے ہیں، اندرونی خلفشار باہر سے نہیں آتا، اندر کے فتنے باہر کے طوفانوں کو اندر آنے کی دعوت دیتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ یہاں امیر بھی خوفزدہ ہے، غریب بھی، قرآن حکیم نے خوف کی اس قسم کو ’’وہن‘‘ کہا ہے، یہ خوف کی وہ قسم ہے کہ وجود باہر سے صحیح سالم دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے اس کی ناپختگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ حوادث کا ہلکا سا جھونکا اسے خاک کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ ہمیں خوف کی یہی قسم لاحق ہے اور اس میں بھی ہمارا اپنا ہاتھ ہے، کہ ہم نے اجتماعی بقاء پر انفرادی بقاء کو ترجیح دی، اور اس پر اتنا طویل عرصہ گزر گیا کہ خوف لاشعور میں اتر گیا، برا نہ مانیں، اپنی مٹی ہم پر تنگ کیوں ہو گئی، جبکہ اسے ہم سے اور ہمیں اس سے جو پیار ہے وہ 14؍ اگست کو پوری دنیا نے دیکھ لیا، آخر کیوں ہم اپنی دولت، عزت اور جان کو باہر کے ملکوں میں زیادہ محفوظ سمجھنے لگے ہیں، یہ بات تو زرداری نے ایک جملے میں کہہ دی کہ ملک خوف کا شکار ہے، یہی خوف جرم اور وطن سے بیوفائی کو بھی جنم دے رہا ہے، یہ منی لانڈرنگ کیوں ہوتی ہے، اس لئے کہ ہماری دولت یہاں محفوظ نہیں، بچے اگر امراء کے یا عام لوگوں کے باہر پڑھتے ہیں تو اپنی تعلیم سے مطمئن نہیں، ہم کیوں اتنے غریب ہو گئے کہ امیروں سے ڈر آنے لگا، ہمیں خوف سے نکلنا ہو گا۔


٭٭٭٭


ووٹ کا نوحہ


صدر ممنون حسین نے کہا ہے:ملک کی قسمت کے فیصلے ووٹ سے ہوں گے، تاریخ میں لسان الغیب کا خطاب حافظ شیرازی کو ملا تھا اور آج اگر اس خطاب کا کوئی ملت اسلامیہ میں مستحق ہے تو وہ صدر گرامی قدر ممنون حسین ہیں، کیونکہ وہ اپنی تقریر میں جو وہ کبھی کبھی کرتے ہیں غیب سے خبر لاتے ہیں، یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے ووٹ سے ہوں گے اور ووٹ اچھے فیصلے کرے برے کرے اس میں بھی ہمارا ہاتھ ہوتا ہے۔ ووٹ اپنی فطرت میں خاکی ہے نہ نوری اسے خاک و نور میں ہم بدلتے ہیں، اور ووٹ ایک ایسا پہیہ ہے کہ چلتا رہے تو جنت دوزخ کہیں بھی لے جا سکتا ہے۔ ہم نے اپنی خواہشوں کا نام شاید ووٹ رکھ لیا ہے۔ 71برس ہو گئے ووٹ ووٹ کی چیخ و پکار سنتے۔ ہم نے ووٹ کی حرمت کا خیال رکھا ہوتا تو آج یہی ووٹ ہمیں اتنا ذلیل نہ کرتا، ہم نے ووٹ دیا اپنی ہوس کو، اپنی عزت اور جاہ و حشم کو، اور ہم نے ووٹ لیا بھی تو غریب کی چمڑی ادھیڑ کر بیچنے اور فارن کرنسی خریدنے کو، اس لئے ووٹ نے اپنے ساتھ کھلواڑ کا وہ بدلہ لیا کہ امیر سکھی ہے نہ غریب کی اوقات بدلی، اور پورا زور صرف ہو چکا ہے مگر ہماری بیل گاڑی ایک انچ آگے نہ بڑھ سکی، ہر میدان میں جیتنے کے دعویدار آج جو زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے باہر بسیرا کرنے والوں کو کیا خبر، سچ تلخ ہوتا ہے اور تلخی ہی تو شیرینی کا احساس دلاتی ہے۔ اب آگے جا کر اس ووٹ کے ہاتھوں ہم کس گڑھے میں گرتے ہیں معلوم نہیں، ووٹ بول سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں دے بھی سکتے ہیں لے بھی سکتے ہیں اسی لئے ووٹ ہمیں کچھ نہیں دیتا کہ ہم نے اسے کیا دیا ہے۔ جمہوریت کو بھی بدنام کیا، اس کے نام پر خود کو سنوارنے کا اہتمام کیا سبحان اللہ کیا کام کیا۔


٭٭٭٭


ہم ایک ہیں!


....Oعام قیدی، خاص قیدی تو بیمار ہوتے رہیں گے۔


بہتر ہے کہ ہر جیل کا کسی بڑے اسپتال سے الحاق کر دیا جائے، تاکہ کم از کم اس ملک میں زنجیر تو ایک جیسی ہو، اس میں تو خاص عام سرایت نہ کرے۔


....Oنثار کھوڑو:عمران اسماعیل سے عہدہ ہضم نہیں ہو رہا، پی ٹی آئی فیصلہ بدلے۔


شاید اس ملک میں سارے فیصلے غلط، پوری اشرافیہ کا ہاضمہ درست نہیں۔


....O کپل دیو کی بھی عمران کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے معذرت۔


بھارت، ہندو انتہاء پسندوں کے نرغے میں ہے، یہ انتہاء پسندہندو اسے کسی جہنم میں لے جائیں گے، مودی سرکار کی بھی یہی مرضی ہے۔


....Oثانیہ شعیب:بھارتی بھابی کی جانب سے ڈھیر ساری محبت، جشن آزادی پر مبارکباد۔


پاکستانی دیور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بھابی کب تک بھارتی بھابی بنی رہیں گی۔


....Oہم کچھ بھی کہیں، کتنی ہی منافقانہ محبت کر لیں مگر ہم یعنی ہمارے دولت کی بنیاد پر کھڑے کرتا دھرتا آپس میں ایک نہیں، ویسے ہمارے ترانے یہ ہیں کہ ’’ہم ایک ہیں‘‘۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین