• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو یہاں ایمسٹر ڈم میں بیٹھ کر پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے اپنے اور اپنے ارد گرد یورپ میں آبسنے والے ہم وطنوں کے خیالات اور تاثرات جاننا چاہوں گا کہ میں تاریکی میں گم شدہ ایک ایسا فرد ہوں جو تاریک بھول بھلیوں میں شاید 70برسوں ہی سے اپنی راہ تلاش کررہا ہے مگر ہوتا یوں ہے کہ ڈور کا سرا ہی نہیں ملتا۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے خواب دیکھ رہا ہوں، ایک ہی خواب اور وہ خواب بھی نیند کے گھیرے میں ہے اور وطن عزیز کی فضا ہے کہ لاقانونیت کے بوجھ تلے سیاہی میں اور سیاہی ہوتی چلی جارہی ہے اور میں اس دن کا منتظر ہوں جب کوئی ہاتھ دیئے کی لو بڑھائے گا اور چار سو روشنی پھیلے گی، مقدروں، نصیبوں اور فیصلوں کی روشنی جو وعدوں اور اعلانوں کی مدہم روشنی پر چھا جائے گی۔ ہمیں ’’آزاد‘‘ ہوئے 72برس ہوگئے ہیں۔ لیکن بنیادی سوالات ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں مثلاً یہ کہ اس آزادی کی نوعیت کیا ہے؟ اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ یہ آزادی کس نے کس سے حاصل کی ہے؟ کون آزاد ہوا ہے؟ اس آزادی کا منشور کہاں اور کس نے تیار کیا ہے؟ اسکی حکمت عملی کیا ہے؟ اس آزادی کا فیصلہ کس نے اور کس نے نہیں کیا تھا؟ کیا دنیا اسے بھی آزادی کہتی ہے جو ہمارے نزدیک آزادی ہے؟ اس آزادی نے اب تک کون کون سے قلعے سر کئے اور کون کون سے قلعے کھوئے؟ اس آزادی نے عوام کے دلوں میں ایمان و یقین و اخوت و بھائی چارہ کی کتنی شمعیں روشن کیں؟ یہ آزادی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے انکی سلامتی و استحکام کیلئے کتنی سودمند ثابت ہوئی یا ہورہی ہے؟ اور یہ کہ اس ’’آزاد عوام‘‘ کی باگ ڈور گزشتہ برس انہی دنوں کی بات ہے کہ میں انڈیا آفس لائبریری لندن میں تھا وہاں پر پاکستان کے کل اور آج کے بارے میں بہت سی کتابیں رکھی ہیں اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹنا چاہیں تو نہ صرف تاریخ بلکہ کمپیوٹر بھی آپکی مدد کرتا ہے وہاں میں نے جو پڑھا وہ کچھ یوں تھا۔

’’مائونٹ بیٹن 13اگست کی سہ پہر کو دہلی سے کراچی پہنچا، اور اسی شام کو محمدعلی جناح نے اسکے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کی ایک جانب مس فاطمہ جناح اور دوسری جانب بیگم رعنا لیاقت علی بیٹھی تھیں۔ مائونٹ بیٹن لکھتا ہے۔ ’’یہ دونوں دہلی میں ہونیوالی نصف شب کی رسومات کا ذکر کرکے میرا مذاق اڑاتی رہیں کہ ایک ذمہ دار حکومت کو اتنے اہم معاملے میں جوتشیوں کے کہنے پر نہیں چلنا چاہئے‘‘ چونکہ 14اگست 1947ء کی رات کی تقریبات سے پہلے دو سنیاسیوں اور جوتشیوں نے اپنے مذہبی طریقے کے مطابق پنڈت نہروکو راج سنبھالنے کیلئے تیار کیا تھا اور یہ کہ قدیم ہندوستان میں جب کوئی راجہ مہاراجہ سنگھاسن پر بیٹھتا تھا تو سنیاسی اور پجاری اس قسم کی رسوم ادا کیا کرتے تھے اس لئے 14اگست کی شام کو یہ رسم نہرو کی رہائش گاہ پر انجام دی گئی۔ 15اگست کی صبح کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف اٹھایا۔ حلف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے لیا۔ کوئی مذہبی تقریب ادا نہ کی گئی۔ حلف کی عبارت سادہ مگر پروقار تھی۔ یہ عبارت اس سے بھی زیادہ سادہ اور مختصر تھی جو برطانوی حکومت نے تجویز کی تھی۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان اور پاکستان کے گورنر جنرلوں کیلئے حلف نامے کی یکساں عبارت تجویز کی تھی۔ پٹیل اور نہرو نے یہ عبارت من و عن منظور کرلی لیکن جناح نے اس سے اتفاق نہ کیا اور اپنے لئے علیحدہ عبارت تجویز کی جسکی برطانوی حکومت نے توثیق کردی اور 15اگست کو انہوں نے اسی عبارت پر حلف اٹھایا ۔ متن یہ تھا ’’میں محمدعلی جناح باضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کا جوکہ قانوناً نافذ ہے سچا وفادار اور اطاعت گزار رہوں گا اور یہ کہ میں شہنشاہ معظم شاہ جارج ششم کے وارثوں اور جانشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان وفادار رہوں گا‘‘۔

اس میں قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کو شامل کیا اور اسے اولیت دی اسکے علاوہ مجوزہ متن سے ایک اہم جملہ جسے جناح نے حذف کردیا یہ تھا، ’’پس اے خدا میری مدد فرما‘‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح کاروبار حکومت میں مذہب کا عمل دخل پسند نہیں کرتے تھے وہ اس کیلئے آئین کی بالادستی کو اولیت دیتے تھے۔ 15اگست کو محمدعلی جناح نے پاکستان کی پہلی کابینہ کے وزیروں کا حلف بھی اسی عبارت پر لیا تھا اس میں فقط ’’باضابطہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کی جگہ’’حلف اٹھاتا ہوں‘‘ کردیا گیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے قائداعظم نے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی آئین سازی کا سنگ بنیاد ان الفاظ کے ساتھ رکھا۔ ’’خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدےسے ہو اسکا امور مملکت سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے کہ وہ ایک ملک و قوم کے شہری ہیں‘‘۔ یہ قائداعظم کی پہلی پالیسی تقریر تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اس میں انہوں نے واضح طور پر امور حکومت اور سیاست کو مذہب سے بالکل جدا کردیا تھا۔ معروف دانشورو سیاستداں رفیق ذکر یہ اپنی کتاب The man who divided India میں قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں ایک واقعہ لکھتے ہیں ’’جب پاکستان کی تخلیق کے بعد علما کے ایک وفد نے جناح سے ملاقات کرکے اس نئے ملک (پاکستان) میں شرعی نظام کا مطالبہ کیا تو مسٹر جناح نے پوچھا ’’آپ کس شرعی نظام کی بات کررہے ہیں؟ حنفی؟ حنبلی ؟ مالکی؟ شافعی؟ یا جعفریہ؟

میں اس جھگڑے میں قطعی پڑنا نہیں چاہتا، اگرمیں اس جھگڑے میں پڑا تو علما یہ کہہ کر حکومت میں مداخلت شروع کردیں گے کہ وہ شرعی امور کے ماہر ہیں۔ حکومت کو علما کے حوالے کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ میرے حساب سے علامہ اقبال کی طرح قائداعظم بھی کمال اتاترک کے مداح تھے۔ علامہ اقبال نے تو ’’فلسفہ الہٰیات کی تشکیل جدید‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے یہ برملا اعتراف کیا تھا کہ ’’تمام مسلم ممالک میں صرف ترکی ہی ایک ایسا ملک ہے جو نظریاتی تنگ نظری اور ادعائیت پسندی کی نیند سے بیدار مغزی کا ثبوت دے رہا ہے۔ آج بیشتر ممالک مشینی انداز میں قدیم اقدار کو دہرا رہے ہیں جبکہ ترکی آئین نو اور اقدار نو کی تخلیق کررہا ہے‘‘۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین