• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ عمر گزارنے کاایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے پاس تجربات، مشاہدات اور یادوں کا قیمتی خزانہ جمع ہوجاتا ہے۔ الیکشن قریب آتے ہیں تو ماضی کے تجربات و مشاہدات ذہن کی کھڑکی پر دستک دینے لگتے ہیں۔ آج کل پھر انتخابات کی آمد آمد کا شور و غوغا ہے اور میں نے سرکاری ملازمت میں بہت سے انتخابات دیکھے ہیں اس لئے انتخابات کا نقارہ بجتے ہی مجھے ایک شخص یاد آنے لگا ہے جو اب نہ جانے کہاں ہوگا۔
یہ شخص گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا شاگرد تھا، کالج سے نکلنے کے تقریباً 25برس بعد اس سے قریشی صاحب کے گھر کھانے پر ملاقات ہوئی۔ میں اسے بھول چکا تھا اور پھر وہ خاصا بدل بھی چکا تھا اس لئے میں اسے پہچان نہ سکا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ زندگی ہر لمحہ سفر میں رہتی اور حرکت کرتی رہتی ہے۔ کائنات کا فلسفہ اور روح ہی حرکت میں مضمر ہے چنانچہ اگر آپ کسی انسان سے دو تین دہائیوں کے بعد ملیں تو وہ اتنا بدل چکا ہوتا ہے کہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ میرے کئی کالج فیلو جو جوانی کے دور میں اپنی خوبصورتی پر ناز کرتے تھے آج ملتے ہیں تو بس کھنڈر بتاتے ہیں کہ عمارت عظیم تھی۔ بعض چہروں پر پچھتاوے اور بعض پر اذیت کی پرچھائیں نظر آتی ہیں البتہ میرے جاننے والے کچھ حضرات بھی ہیں جو اپنے ظاہری حسن پر خاصی توجہ دیتے ہیں، محنت سے بال کالے کرتے اور چہرے پالش کرواتے رہتے ہیں ۔آخر وہ قانون قدرت سے کب تک بغاوت کریں گے؟ بڑھاپے میں بناؤسنگھار اور جوان رہنے کے خبط میں مبتلا حضرات نہیں سمجھتے کہ بڑھاپے کا بھی اپنا روقار ہوتا ہے بشرطیکہ آپ باوقار ہوں، بے وقار نہ ہوں۔ اس کا خاصی حد تک انحصار انسان کے اعمال پر ہوتا ہے۔ اسی لئے کئی روحانی بزرگ کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں انسان کے اعمال چہرے سے جھلکنے(Reflect)لگتے ہیں۔ عام طور پر نیک لوگوں کے چہروں پر سکون، نور اور قلبی اطمینان کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، وجہ ظاہر ہے۔
بات دور نکل گئی میں اپنے ایک شاگرد کا ذکر کررہا تھا جب اس سے کھانے میں ملاقات ہوئی تو وہ ان دنوں لاہور میں بزنس کررہا تھااورخاصا کامیاب تاجر تھا۔ ہم دونوں ایک طرف کرسیوں پر بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔ ان دنوں ہمارے ملک میں نئے نئے انتخابات ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں اس نے مجھے یہ بتا کر حیران اور پریشان کردیا کہ انتخابات سے پہلے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو دس کروڑ کا چندہ اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ ملا تھا۔ اس ضمن میں ڈی سی نے اسے بھی بلایا اور بتایا کہ حکمرانوں نے انتخابات کے لئے دس کروڑ روپے اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے چنانچہ اس نے بھی ڈی سی صاحب کو خوش کرنے کے لئے25لاکھ روپے دئیے کیونکہ بزنس کے سلسلے میں اس کا واسطہ ڈی سی صاحب سے رہتا تھا۔ اس نے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے بتایا کہ اسی طرح ڈی سی صاحب نے بہت سے تاجروں ،صنعتکاروں وغیرہ کو بلا کر چندے اکٹھے کئے تھے۔ اسے شبہ تھا کہ ڈی سی صاحب نے بارہ تیرہ کروڑ روپے حکمرانوں کے نام پر اکٹھے کئے ہوں گے اور دو تین کروڑ اپنی لمبی سی جیب میں ڈال لئے ہوں گے۔
میرے لئے یہ انکشاف بہرحال انکشاف تھا لیکن جب مشاہدے کے سمندر میں اترا تو پتہ چلا کہ حکمرانوں کو انتخابات بہت ”سوٹ“ کرتے ہیں، ان کے لئے انتخابات کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ حکمران اور سیاستدان اپنی جیبوں سے کروڑوں خرچ کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خرچ چندوں سے اکٹھے کئے گئے، کروڑوں بلکہ اربوں روپوں سے ہوتا ہے اور انتخابات کے بعد خاصی رقم بچ رہتی ہے جو ان کے جیب خرچ کا کام دیتی ہے۔ سیاسی جماعتیں، حکمران اور سیاستدان نہ صرف تاجروں، صنعتکاروں، ٹھیکیداروں اور زمینداروں سے نوکر شاہی کے ذریعے چندے اکٹھے کرتے ہیں بلکہ انتخابات کے نام پر ریاستی وسائل کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔ میں نے آپ کو اشارةً بات بتادی، باقی تحقیق آپ اپنے مشاہدے اور تجربے سے کریں۔ ہاں ایک فرق ذہن میں رکھیں ، امریکہ ہو یا انگلستان ، انتخابات کے نام پر وہاں بھی چندے اکٹھے ہوتے ہیں لیکن وہ پارٹی کی بنیاد پر مانگے جاتے ہیں اور ان کے اکٹھا کرنے میں بیوروکریسی استعمال نہیں ہوتی، پھر ان ممالک میں یہ چندوں سے اکٹھی کی گئی رقمیں پارٹی کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کے خرچ کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ لوٹا ہوا مال ہوتا ہے جو سیاستدان یا حکمران کی ذاتی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ لوٹے ہوئے مال کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، حساب صرف اس رقم کا رکھا جاتا ہے، جو ٹکٹ لینے والے امیدواروں یا پارٹی اراکین سے اکٹھی کی جاتی ہے، باقی سب مال غنیمت…!!
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قوم کو انتخابات سے فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن میرے مشاہدات گواہ ہیں کہ دو طبقات انتخابات کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوتے اور مال بناتے ہیں اور دونوں انتخابات کی آمد سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اول سیاستدان اور سیاسی کارکن کیونکہ سیاسی کارکنوں کے لئے بھی انتخابات کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور دوم صحافی حضرات …ایک دن میں نے ایک بزرگ صحافی سے پوچھا کہ فلاں کالم نگار اصولوں کا بڑا ڈھنڈورہ پیٹتا ہے اسے اپنی حق گوئی پر بڑا ناز ہے لیکن وہ ایک پرانے سیاسی گھرانے کے بارے میں ایک بھی تنقیدی لفظ نہیں لکھتا۔ بزرگ صحافی نے مسکرا کر میری طرف دیکھااور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کالم نگاری میں بڑی دیر سے آئے ہیں۔ آپ پیشہ ور صحافی نہیں ہیں بلکہ شوقیہ اداکارہیں اس لئے آپ اکھاڑے کے داؤ پیچ نہیں سمجھتے ۔ آپ کو علم نہیں ہوگا کہ2008ء کے انتخابات میں یہ حضرت اسی گھرانے کے الیکشن میڈیا سیل کے اہم رکن تھے اور ان کا بجٹ چار کروڑ روپے کا تھا۔ اس میں یقینا کچھ خرچ بھی ہوا ہوگا اور تقریباً نصف بچا بھی ہوگا، بھلا وہ ان کے خلاف لکھنے کی جسارت کیسے کریں گے؟
یہی حال باقی لکھاریوں اور صحافیوں کا بھی ہے جو جس گھر سے مستفید ہوتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے اور دوسروں پر گولہ باری کرتا رہتا ہے ۔ایک منٹ کے وقفے کے بعد وہ بزرگ صحافی پھر بولے ڈاکٹر صاحب آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ اب آپ خود دیکھیں گے کہ جوں جوں انتخابات کا میدان گرم ہوگا، مختلف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے خزانوں میں نقب لگانے والوں کی زبانوں اور قلموں سے چاندی برسے گی اور سونے کی کھنک سنائی دے گی، اپنے آقاؤں کی خوشامد اور قصیدہ گوئی کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نہیں جانتے ہمارے سیاستدانوں کو اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی چندہ ملتا ہے۔ بعض غیر ملکی حکومتیں بھی اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے خزانے بھرتی ہیں ۔ بین الاقوامی ایجنسیاں بھی مالی مدد کرتی ہیں اور پھر اس دولت کاایک حصہ میڈیا میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس لئے انتخابات سے عوام کو کچھ ملے یا نہ ملے، بڑے بڑے سیاستدانوں ، کارکنوں، صحافیوں،اینکروں اور کالم نگاروں کی لاٹری نکل آتی ہے۔ بس اب آپ دیکھتے جائیے کیا ہوتا ہے۔
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس بزرگ صحافی نے لمبی سانس لی اور بولے ”میں نے یہاں اقتدار، وزارتیں ، قلم، سیاسی وفاداریاں اور ذہن بکتے دیکھے ہیں۔ کیا کیا سنو گے کیا کیا بتاؤں۔ میں نے جب اصرار کیا کہ آپ اپنی یاداشتیں کتابی صورت میں شائع کردیں تو وہ مسکرائے اور یہ کہہ کر رخصت ہوگئے ”ڈاکٹر صاحب مجھے مروانا چاہتے ہو“؟
تازہ ترین