• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے گزشتہ چند روز کے دوران ایک کے بعد ایک کرکے پاناما جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان شامل کیے جانے کے حوالے سے دیے جانے والے بیان نے ایک تنازع پیدا کر دیا ہے کہ آخر کس نے گزشتہ سال شریف فیملی کیخلاف آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کیلئے اس تحقیقاتی ٹیم میں ’’تڑکا‘‘ لگایا۔ گزشتہ پیر کو چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان کو تڑکا لگانے کیلئے جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا تھا۔ دو دن بعد، یعنی بدھ کو میڈیا میں ان کے حوالے سے بیان آیا کہ انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان کو جے آئی ٹی میں اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے شامل کیا۔ تاہم، اسی شام فوری طور پر چوہدری نثار کا بیان سامنے آیا کہ پاناما جے آئی ٹی کی تشکیل سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ ٹیم سپریم کورٹ کے اپنے احکامات کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔ مشکوک اکائونٹس میں اربوں روپے کی منتقلی کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پیر کو چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے نام پوچھے تھے۔ جب ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ٹیم کے سربراہ واجد ضیا تھے جبکہ اس میں نیب سے عرفان منگی، ایس ای سی پی سے بلال رسول جبکہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ارکان بھی شامل تھے، تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے ارکان کو تڑکا لگانے کیلئے شامل کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مشکوک بینک اکائونٹس کیس میں تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی میں فوجی افسران کو شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ عدالت ایسے افسران کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتی ہے جنہیں وائٹ کالر کرائم کے بارے میں معلومات ہوں۔ بدھ کو میڈیا نے چیف جسٹس کے حوالے سے بتایا کہ اسی کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے تردید کی ہے کہ عدالت نے پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم ارکان کو شامل کرنے کیلئے کہا تھا۔ میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چوہدری نثار نے انہیں جے آئی ٹی میں شامل کیا تھا۔‘‘ بعد میں اسی شام چوہدری نثار نے تردید کی اور کہا، ’’پاناما جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی تھی اور عدالت نے 20؍ اپریل 2017ء کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عمومی حالات میں اس طرح کی مشق نیب کر سکتی ہے لیکن جب چیئرمین اس معاملے میں لاتعلق نظر آئیں حتیٰ کہ وہ اپنا کام کرنے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم دوسری سمت میں دیکھنے پر مجبور ہیں، لہٰذا ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں مندرجہ ذیل ارکان شامل ہوں: ۱) ایف آئی اے سے ایک سینئر افسر جو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے کم نہ ہو اور اس ٹیم کی قیادت کرے اور اس کے پاس وائٹ کالر جرائم اور متعلقہ معاملات کی تحقیقات کا ترجیحی تجربہ ہو، ۲) نیب سے ایک نمائندہ، ۳) ایس ای سی پی کا نامزد کردہ ایک افسر جو منی لانڈرنگ اور وائٹ کالر جرائم کی معلومات رکھتا ہو، ۴) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ایک نامزد افسر، ۵) آئی ایس آئی سے ایک تجربہ کار افسر جسے ڈی جی نامزد کریں اور ۶) ملٹری انٹیلی جنس سے ایک تجربہ کار افسر جسے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نامزد کریں۔‘‘ پاناما کیس کی جے آئی ٹی تشکیل دیتے ہوئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کی شمولیت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اب تقریباً ایک سال بعد، کسی اور نے نہیں بلکہ چیف جسٹس نے خود آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ یہ کام ’’تڑکا‘‘ لگانے کیلئے کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی کی تعریف چیف جسٹس پاکستان کے ساتھی ججوں نے بھی کی تھی۔ جے آئی ٹی ارکان کو ایک موقع پر بینچ میں شامل ایک معزز جج نے ہیرے بھی قرار دیا تھا۔

تازہ ترین