• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت فوج کی دیدہ و نادیدہ چھتری کے بغیر اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کے قریب ہے۔ پاکستان کی ترقی اور استحکام میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں یہ خیال عام ہے کہ آئندہ انتخابات ہمارے سیاسی ارتقا میں ایک اہم موڑ ثابت ہوں گے۔ آئین کے مطابق انتخابات کا عمل مکمل ہونے سے جمہوری بندوبست کی روایت مضبوط ہو گی۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں میں بھی یہ سوچ جڑ پکڑے گی کہ ایک حکومت کا اقتدار مکمل ہونے کے بعد انہیں عوام کی تائید سے حکومت تبدیل کرنے کا آزادانہ موقع مل سکے گا ۔ آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی صحیح تھی یا کسی دھاندلی کا نتیجہ تھی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کے طرز حکمرانی میں ایسے زاویے ضرور موجود تھے جن کے باعث حزب اختلاف میں یہ تاثر قائم ہوا کہ انتخابات کے ذریعے حکومت کو شکست دینا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ وہ ہمارا پہلا جمہوری تجربہ تھا اور ہم جمہوری ثقافت کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ چونتیس برس بعد بھی اس کوتاہی کی بازگشت ہمارے سیاسی ایوانوں میں موجود ہے۔ اس کا ایک اہم نقصان یہ ہوا کہ آئینی، ریاستی اور تمدنی اداروں میں عوام کی حکمرانی کا اصول دھندلا گیا۔ آمرانہ اور نیم جمہوری ادوار کے دوران ایسے انفرادی اور گروہی ذہن نے فروغ پایا جو جمہوریت کی بجائے سازشی طور طریقوں میں یقین رکھتا ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ جمہوریت سے گریز کی روایت نے ان عناصر کو بے پناہ فائدے پہنچائے ہیں۔ ہمارے ہاں بدعنوانی کی دہائی دینا ایک مقبول مشغلہ ہے لیکن ہمیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ آئین سے انحراف بدعنوانی کی بدترین شکل ہے۔ جب ملک کا دستور بالائے طاق رکھ دیا جائے تو بدعنوان عناصر کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اگلے روز ایک انٹرویو دیتے ہوئے روئیداد خاں نے کس رسان سے کہہ دیا کہ وہ حکمرانی کی کشمکش کا حصہ تھے لہٰذا انہوں نے کسی قانون ضابطے کی پروا کیے بغیر وہی کیا جو اقتدار کے کھیل کا تقاضا تھا۔ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی فرماتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے لیے قانون کی کتاب سے استصواب نہیں کیا جاتا۔ بھائی جب اقتدار کی چوٹی پر قانون کی عمل داری ختم ہو جاتی ہے تو پھر نچلی سطح پر جواب دہی بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔ پورے معاشرے میں بدعنوانی پھیل جاتی ہے۔
اصغر خاں کیس کے فیصلے کی دھول ابھی نہیں بیٹھی۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی طاقت کی کشمکش ابھی جاری ہے۔ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی قرارداد اور جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست سے مزید غبار پیدا ہوا ہے۔ یہ درخواست دائر کرنے والے شخص پر تشدد کی خبر بھی اچھا شگون نہیں۔ یہ درست ہے کہ سب فریق آئین کی پیروی کا اعلان کر رہے ہیں۔ تاہم اس یقین دہانی سے ان ستم زدگان کا پورا اطمینان مشکل ہے جو جانتے ہیں کہ بحران سے ایک شام پہلے سب سے غیرمتوقع بات بحران ہی ہوتا ہے۔ وکٹر ہیوگو نے کیسی اچھی بات کہی کہ بڑے رسے کی طرح بحران بھی چھوٹے چھوٹے ریشوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اصغر خاں کیس کے فیصلے میں موجود صحافیوں کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اجتماعی بحران کی بنت میں ذرائع ابلاغ ایک کلیدی ریشہ رہے ہیں۔ اس تنا ظر میں نا مناسب نہیں کہ ذرائع ابلاغ کے حالیہ کردار کا مطالعہ کیا جائے۔
عدلیہ خود کو آزاد قرار دیتی ہے۔ فوج سیاست سے دور رہنے کا اعلان کرتی ہے۔ عدلیہ اور فوج تو بہت طاقتور ادارے ہیں۔ آزادی کا دعوٰی تو ذرائع ابلاغ کو بھی ہے۔ تو صاحبو ، ذرائع ابلاغ کا درجہ حرارت یہ ہے کہ اگر سیاسی قیادت پر رائے زنی کرنا ہے تو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بات کہئے۔ اگر مزاج عالی میں آئے تو دو چار تند و تیز اسمائے صفت بھی استعمال کیجئے۔ اگر طبیعت ٹھٹھے بازی پر مائل ہو تو بلا جھجک ہجو یا ہزل قلم بند فرمائیں۔ دوسری طرف اگر قیاس ہو کہ عدلیہ سیاسی قوتوں کی جواب دہی پر مائل ہے تو عدالت کی آزادی کا علم بلند کر کے میدان میں اتریں۔ گاہے گاہے عدلیہ بحالی کی تحریک میں اپنے ذاتی کردار کا حوالہ دیتے رہیں۔ آئین، قانون، اخلاقیات اور رائے عامہ کے ایسے تجزیے تحریر فرمائیں کہ کوئی آئینہ دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھے، ”اللہ رے میں“۔ تیسرے کھونٹ جانے میں البتہ چند در چند خرابیاں ہیں۔
اگر فوج اور عدلیہ میں تناؤ کے آثار ہوں تو اپنے بچاؤ کی فکر کریں۔ ایک آدھ جملے میں عدلیہ کی دل جوئی کے بعد کھل کر بیان کیجئے کہ ساری خرابی میڈیا کے غیر ذمہ دار حلقوں نے پیدا کی ہے۔ فوج کو ان ”چونچلوں“ کی عادت نہیں۔ گویا قانون کی بالادستی یا اظہار کی آزادی ایسے کھلونے ہیں جن کی سنجیدہ معاملات میں گنجائش نہیں۔ قومی الیکشن کمیشن کے ایک سابق سیکرٹری نے تو خیال آرائی فرمائی کہ ”فوج کو اپنی عزت، حرمت، آن اور ملکی سلامتی عزیز ہے۔ آئین کی ثانوی حیثیت ہے۔“ آئین کے بارے میں اس طرح سے سوچنے والے یہ نہیں جانتے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج پاکستان کے ادارے ہیں۔ ان میں کسی بھی ادارے کو کمزور کرنے سے پاکستان مضبوط نہیں ہو سکتا۔ ان اداروں کا استحکام آئین کی بالادستی میں مضمر ہے۔ کسی ادارے پر بے جا تنقید نہیں کرنی چاہیے لیکن کسی کو قانون سے بالاتر بھی قرار نہیں دینا چاہیے۔ ہر وقت ایک بحران کھڑا کر کے اس کی آنچ میں ہاتھ تاپتے رہنا مناسب رویہ نہیں۔ آگ بجھانے کا یہ کیا ڈھنگ نکالا ہے کہ”دور بیٹھے کسی تیسرے فریق“ کی مفروضہ خوشی کی دہائی دی جائے۔ تیسرا فریق ؟ وہی دشمن جاں یعنی سیاسی قیادت ۔ آئیے ایک پرانا قصہ سنتے ہیں۔
جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ تھے۔ ایک غیرسرکاری تقریب میں جنرل آصف کے علاوہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق، وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب بھی شریک تھے۔ اگلے روز تمام اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں صدر، وزیراعظم اور سپیکر کی پر اشتیاق نگاہیں فوج کے سربراہ کو ہالہ کیے ہوئے تھیں۔ ہر تین حضرات نے مصافحے کے لیے دست بیعت دراز کر رکھا تھا جب کہ جنرل آصف نواز تینوں حضرات سے پرے کسی غیر متعین نکتے پر نظریں گاڑے ہوئے تھے۔ ایک سماجی تقریب میں لی گئی یہ تصویر اس وقت کے سیاسی توازن کی آئینہ دار تھی۔ 1992ء سے 2012ء تک آتے آتے ہمارے اداروں کی باہم میزان میں اتنی تبدیلی تو آنی چاہیے جس سے ہمیں محسوس ہو سکے کہ ہمارے اداروں کی مضبوطی کسی کی شخصی انا کا معاملہ نہیں بلکہ ہماری قومی سلامتی اور ترقی کا سوال ہے۔
تازہ ترین