• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار رومان پرور (Romantic)وقفے آتے ہیں ورنہ توپاکستان جیسے ممالک اور ہم جیسی قومیں ہمہ وقت مسائل اور بین الاقوامی خطرات ہی میں گھری رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بے بسی کے باوجود ان چیلنجز کا دبائو ہر شہری محسوس کرتا ہے۔ اس لئے جب رومانس، خوابوں اور امیدوں کا دور آتا ہے تو قوم خوشی، توقعات اور امیدوں کے خواب دیکھنا شروع کردیتی ہے اور مجموعی طور پر چہروں پر مسکراہٹ کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔ موجودہ انتخابات تبدیلی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ تین چار دہائیوں سے ایک ہی طرح طرز سیاست و حکمرانی دیکھ دیکھ کر لوگ تبدیلی کی خواہش پالنے لگے تھے۔ چنانچہ اب وہ تبدیلی کا ’’اڈیاں چک چک‘‘ کر انتظار کررہے ہیں۔ اگرچہ حزب مخالف بذریعہ احتجاج اور تنقید یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ تبدیلی نے جن وعدوں کا گلستان سجایا تھا وہ غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہیں، وہ وعدے پورے ہو ہی نہیں سکتے، اس لئے آپ کے گلستان کا مقدر خزاں ہے جو بہت جلد چھا جائے گی اور تبدیلی کے حامیوں کو مرجھا جائے گی۔ دراصل یہ ایک رومان پرور دورانیہ ہے لوگوں کا رومانس توڑنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حزب مخالف کا کام ہی حزب اقتدار سے مایوس کرنا ہے۔ چنانچہ وہ فی الحال مخالفین کے پروپیگنڈے کے جال میں پھنسنے کو تیار نہیں۔ البتہ اگر تبدیلی کا وعدہ کرنے والوں نے عوام کو مایوس کیا تو وہ خود ہی ہاتھ ملنے لگیں گے۔ میں ان کی بات نہیں کررہا جو اندھے مقلد یا سیاسی عاشق ہوتے ہیں۔ میں اس اکثریت کی بات کررہا ہوں جو تبدیلی کی آرزو کے تحت ووٹ کے حق کا استعمال کر چکی ہے اور اب امید لگائے بیٹھی ہے۔ انہیں یقین نہیں لیکن توقع ہے کہ عمران خان وعدے پورے کرے گا، تبدیلی لائے گا وہ تبدیلی جس کا آج کل مخالفین اورمیڈیا پر بیٹھے ناقدین مذاق اڑا رہے ہیں، تمسخر اور طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ درست کہ ایک کروڑ جاب (ملازمتیں) پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ یہ کرامت ہی ہوسکتی ہے جس کے بظاہر امکانات موجود نہیں لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ اگر قیادت مخلص ہو اور خلوص نیت سے کوشش کرے تو کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس وقت فضا سازگار ہے۔ قوم بھی حکومت کی ہر طرح مدد کرنے کے لئے تیار ہے اور اس مدد میں ایثار بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ برآمدات کے بڑھتے ہوئے بل اور اخراجات پر قابو پانے کے لئے غیر ملکی سامان تعیش پر پابندی لگانی پڑے گی جس کے لئے ایثار کی ضرورت ہوگی۔ اگر حب الوطنی کے نام پر ایثار مانگا جائے تو اس کا جواب مثبت ملتا ہے اور حب الوطنی کا جذبہ بھی رومانس کے دورانیے یا دور میں عروج پر ہوتا ہے۔ جوں جوں رومانس تنزل کا شکار ہوگا یہ جذبہ بھی سرد پڑنا شروع ہو جائے گا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح کی مہم، سادگی، بچت، غیر ملکی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ صرف اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب قیادت اس کی عملی مثالیں قائم کرے۔ قیادت سے مراد صرف صدر، وزیراعظم، وزراء، صوبائی گورنر، وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء وغیرہ ہی نہیں بلکہ اس میں منتخب نمائندے، پارٹیوں کے عہدے دار اور کارکن وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ عوام نقال ہوتے ہیں۔ ضیاء الحق شلوار قمیض اور واسکٹ پہننا شروع کردے تو قوم یہی لباس اپنا لیتی ہے، قائد نمازی ہو تو مساجد آباد ہو جاتی ہیں۔ مشرف مغربی لباس پہننا شروع کردے تو کابینہ سے لے کر سرکاری عہدے داروں اور پھر عوام تک مغربی لباس پاپولر ہو جاتا ہے۔

میری نظر میں تبدیلی کا احساس اسی دن پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جب وزیراعظم اس کی عملی مثالیں قائم کرے گا۔ کم خرچ رہائش، شان و شوکت سے اجتناب، کم سے کم پروٹوکول اور عوامی انداز تبدیلی کا پیامبر ہوگا۔ بچت اور سادگی کی مہم تبدیلی کے تاثر کو گہرا کرے گی۔ سعودی حکمران اور کرائون پرنس کے ایک سے زیادہ ٹیلی فون، پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش، اسلامی بینک کی جانب سے چار ارب ڈالر کے قرضے کی پیشکش، چین کا محبت بھرا پیغام اور تعاون کی بھرپور پیشکش، افغان صدر کاگرم جوشی سے ہاتھ بڑھانا، ایران، قطر اور یو اے ای کی جانب سے دوستی اور تعاون کے پیغامات بلاشبہ اچھا آغاز اور نیک شگون ہیں اور ان کے پس پردہ تبدیلی کے استقبال کی ’’آس‘‘ بھی دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ قوتیں سابق حکمرانوں سے رنجیدہ خاطر تھیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے سعودی عرب، قطر اور یو اے ای بہرحال کچھ نہ کچھ مدد کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس مسئلے کا اصل حل ملک میں سرمایہ کاری، صنعت کاری، تجارت کا بے پناہ پھیلائو، غیر ملکی گلوبل سطح کی کمپنیوں کی پاکستان میں آمد، ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی اور تعمیراتی سرگرمیوں میں مضمر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ جلدی نہیں ہوسکتا۔ البتہ حکومت شروعات کردے تو پھر بھی امیدوں کے چراغ جلتے رہیں گے۔ ملک جن گھمبیر معاشی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنا آسان نہیں۔ ترجیحات کی فہرست طویل ہے۔ پانی کے ڈیمز کی فوری تعمیر کا آغاز، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور امن کے قیام کے بغیر غیر ملکی سرمایہ کار یہاں قدم نہیں رکھے گا۔ تعلیم سائنس ریسرچ اور صحت کے شعبوں کو موجودہ زبوں حالی سے نکال کر معیاری بنانا، برسوں کی منصوبہ بندی اور مستقل مزاجی کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک میں ہر طرف لاقانونیت کا سمندر بہہ رہا ہے۔ سفارش، کرپشن، اثر و رسوخ، اقرباء پروری ہمارا کلچر بن چکی ہیں اور یہ اقدار معاشرے میں راسخ ہو چکی ہیں۔ منتخب نمائندے دھونس اور رسوخ کی بنا پر ہر شعبے میں دخل دیتے ہیں، قانون اور میرٹ کو پامال کرتے ہیں۔ جو سرکاری اہل کار ذرا سی مزاحمت کرتے ہیں انہیں ٹرانسفر کروا دیتے ہیں۔ پولیس منتخب نمائندوں کی تابع فرمان بن چکی ہے اور ’’وارداتیے‘‘ ان کی پناہ میں پھلتے پھولتے ہیں۔ کیا نئی حکومت قانون کی حکمرانی قائم کرسکتی ہے؟ کیا پولیس کو سیاسی اثر سے آزاد کر کے کرپشن سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ پولیس سے ہر شہری کو پالا پڑتا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ پولیس رشوت اور سفارش کے بغیر جائز کام بھی نہیں کرتی۔ پولیس مقابلے، ٹارچر سیل اور تھانوں کی حوالات قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ مختصر یہ کہ حکومت کے کسی بھی محکمے اور شعبے میں رشوت اور سفارش کے بغیر جائز ترین کام بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ قانون محض مذاق بن چکا ہے۔ سڑکوں پر خودکش ٹریفک، لاقانونیت اور بدنظمی کی بہترین مثالیں ہیں۔ کیا اس لاقانونیت کے سمندر میں قانون کی حکمرانی، میرٹ کی بالادستی اور شہریوں کے حقوق کا احترام قائم کئے جاسکتے ہیں؟ جس دن نئی حکومت نے تباہ شدہ سرکاری مشینری، محکمے، کرپشن، رشوت، سفارش اور نااہلی کے سمندر میں بہتے اہل کاروں پر قانون کی حکمرانی نافذ کردی اور انہیں اپنے شہریوں کے احترام پر مجبور کردیا وہ دن عوام کے لئے حقیقی تبدیلی کا دن ہوگا۔ مجھے اس دن کا انتظار ہے۔

تازہ ترین