• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں تشدد کی موجودہ نئی لہر (کراچی میں تشدد پرانا کب ہوا تھا؟) 1990ء کی دہائی میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہونے والے تشدد سے بڑی مماثلت رکھتے ہوئے بھی مماثلت نہیں رکھتی کہ تب حکومت اور شہر کی سب سے طاقتور پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں تھے لیکن اب پاکستان پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے حکومتی اتحاد میں ساجھے دار ہونے کے باوجود کراچی جل رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے کارکن ہیں، پروفیشنلز ہیں، پولیس، فوج اور رینجرز کے پرسنل ممبر کہ عام لوگ ، کراچی میں بسنے والے اور کراچی کو آنے جانے والے ہیں کہ اک آگ کا دریا ہے اور پار اترنا ہے کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کراچی میں امن قائم کرنے کے احکامات کے بعد اب سندھ ہائی کورٹ بھی کراچی میں امن قائم کرنے پر سماعت کر رہی ہے لیکن بوری بند یا بغیر بوری کے لاشے گر رہے ہیں۔ کراچی ایک شہر مرگ ہے۔ اب تو کراچی کے امن اور جنگ میں فریق پارٹیاں بھی کراچی میں حالات معمول پر لانے کے لئے فوج طلب کرنے کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ گویا فوج کراچی میں جب بھی آئی ہے امن بحال کرکے واپس گئی ہے! بس ادھر ٹی وی پر عزیز ہموطنو کے بٹن دبانے سے راوی چین لکھ رہا ہوگا، لاشیں گرنے اور ٹارگٹ کلنگز ( جبکہ ہر کلنگ ٹارگٹ ہوتی ہے) بند ہوجائیں گی۔ شہر پھر سے روشنیوں کا شہر بن جائے گا!
پچھلی دفعہ کراچی میں فوج کب آئی تھی؟ (فوج گئی کب تھی؟) کتاب ” ہنٹ آف کے ایس ایم “ یا خالد شیخ محمد کے مصنفین ٹیری مک ڈرموٹ اور جوش مائیر اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ القاعدہ شدت پسندوں کے خلاف مہم کے دوران کرنل طارق نام کے ایک خفیہ ایجنسی کے افسر نے اپنے امریکی ساجھے داروں کو بتایا تھا کہ کراچی کا اسّی فی صد ریئل اسٹیٹ کاروباراسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے ہرگلی کا سروے کیا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ گلی میں کھڑا ہونے والا خوانچہ فروش یا پھیرے لگانے والا بھی ان کا مخبر ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر کراچی میں امن قائم کرنے میں فوج بھی کیوں ناکام گئی تھی؟
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مقتول صحافی ولی بابر کے قتل کیس کے چھٹے اور آخری لیکن چشم دید گواہ حیدر علی کو قتل کیا گیا ہے۔ ولی بابر کے قتل کے کیس میں اپنی چشم دید گواہی دینے پر رضامندی ظاہر کرنے والے حیدر علی زیر زمین چلے گئے تھے لیکن قاتل جتھوں نے انہیں ڈھونڈ نکال کر قتل کیا۔ اس سے قبل مقتول صحافی کے قتل کیس کے تمام تفتیشی افسر اور گواہان بھی قتل کردیئے گئے۔ یہ کراچی ہے کہ کولمبیا اور میکسیکو جہاں مافیائیں راج کرتی ہیں۔ کراچی شہر گوریلا جنگ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ابھی کچھ روز قبل میں ایک نیوز رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ کراچی کے صنعت کار اور تاجر اب اپنے دفاتر اور کارخانوں کے بجائے اپنے گھروں سے کام کرتے ہیں۔
شہر میں پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں، برف والوں، پھول والوں، کفن بیچنے والوں اور گورکنوں کا بزنس پھل پھول رہا ہے۔
1990ئکی دہائی میں جس ایس ایچ او کے تبادلے کا حکم بذریعہ فیکس وزیر اعظم ہاؤس سے آیا تھا وہ اب کراچی میں ایس ایس پی کے عہدے پر ہے اور کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے سب کے سب افسر تقریباً قتل ہوچکے ہیں لیکن کراچی میں نہ حکومتی رٹ قائم ہوئی اور نہ امن بحال ہوا، قاتل سب کے سب نامعلوم ہیں۔
یہ نامعلوم قاتل اور قاتل جتھے کون لوگ ہیں؟ظاہر ہے کہ یہ سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھتہ مافیا، ڈرگ و گن مافیا یا لینڈ مافیا؟ بجری مافیا، کراچی کی انڈر ورلڈ (جیسے ماضی قریب تک شعیب ڈان اور داؤد ابراہیم گینگز ) بلوچ شدت پسند؟ ملکی غیر ملکی ایجنسیاں اور اب طالبان؟ کیا کراچی پر اب بھی سارا مسئلہ کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہے؟ کیا کراچی کو سندھ یا ملک سے الگ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے؟ فری پورٹ؟ سٹی اسٹیٹ؟ ملک میں آنے والے انتخابات ملتوی کرنے کو میدان تیار کیا جارہا ہے؟ یا کہ فرقہ وارانہ دست بدست لڑائی ہے؟ یا کہ ملک میں بھاری بھر کم بوٹوں کی آمد آمد ہے؟ خدا کے خوف سے زیادہ ڈرون کے خوف سے بھاگتے شدت پسندوں کی نئی کمین گاہ کراچی ہے۔ صدر زرداری جو کہ خود اس کراچی میں پلے بڑھے اور نوجوانی میں کئی لڑائیوں سے شہر کی دیواریں رنگ کر چکے ہیں اپنی حکومت کو طول دینا چاہتے ہیں؟ کئی دل جلے تو یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اصل میں عملی طور سندھ کا وزیر اعلیٰ ان کے سوتیلے بھائی اویس مظفر ٹپی ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات شاید کبھی بھی نہ مل سکیں لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ کراچی کے حالات کی ذمہ داری فقط کسی ایک گروہ یا پارٹی پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ کراچی میں قتل و غارتگری یا تشدد کے کئی رخ اور سمتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ کراچی میں تشدد کے کئی مقاصد اور کئی مستقل مفادات بھی ہیں۔ نسلی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کئی دنوں سے مذہبی اور فرقہ وارانہ شدت پسند تشدد بھی کراچی کی روزمرہ کی زندگی میں بڑے پیمانے پر داخل ہوچکا ہے۔
پھر حیرت اس بات کی بھی ہے کہ سندھ کے وجود و وحدت کی بات کرنے والے سندھی قوم پرستوں نے تشدد کی آگ سے جلتے ہوئے کراچی پر ایک بھی سنجیدہ بیان جاری نہیں کیا،گویا کراچی عملی طور سندھ کا حصہ نہیں۔
ملیر سے منگھو پیر تک، لیاری سے لیاقت آباد تک، کالاپل سے کٹی پہاڑی تک، گٹر باغیچے سے گلشن اقبال تک ، تشدد گویا ڈبلیو گیارہ بس پر چڑھ کر سفر کررہا ہے۔ مجھے اس دن لیاری کے اصل باشندے بتا رہے تھے کہ ایک گروپ نے اپنے شکار لوگوں کی لاشوں یا زخمیوں کو گدھا گاڑیوں سے باندھ کر گٹر باغیچے میں دوڑایا تھا۔
کراچی میں تشدد جو کہ اصل میں1980ء کی دہائی میں طالبہ بشریٰ زیدی کے منی بس سے کچلے جانے کے ردعمل کے نام پر شروع ہوکر پھر نسلی تشدد کی شکل میں کراچی کی شہری زندگی کا ایک مستقل فیچر بن گیا اب فرقہ وارانہ اور نسلی کلینزنگ پر مبنی خانہ جنگی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ لگتا ہے شہر کو بیروت بنائے جانے کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ وہ شہر جس میں اس وقت کے آئی جی پولیس سندھ افضل شگری کی رپورٹ کے مطابق اسّی ہزار کے قریب چھوٹے بڑے غیرقانونی ہتھیار تھے اب وہاں مبینہ طور پر نیٹو کے چوری کئے ہوئے لاکھوں ہتھیار ہونے کی بھی افواہیں سننے میں آتی ہیں۔
فطرے سمیت چندہ گیری پر کراچی کے سیکولر کہلانے والی پارٹی اور دیگر کے مابین چپقلش اور ناجائز قبضوں کی لڑائی اب ملیر سے لیکر پرانے کراچی تک پہنچ گئی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی نئی شکل اس طرح رہی تو شاید بیلٹ اور بلٹ پر قدرت رکھنے والی پارٹیوں کو آئندہ انتخابات میں یہ اعلان کرنا پڑے کہ ووٹر حضرات پولنگ اسٹیشنوں پر آنے کی زحمت نہ کریں یا اپنے رسک پر تشریف لائیں۔ بیلٹ باکس ان کے حق میں اپنی فطرت میں خاکی فرشتے بھر جائیں گے۔
قرائن نہ صرف بتاتے ہیں کہ ملک اور سندھ کے وجود کی آخری جنگ کراچی میں ہی لڑی جائے گی بلکہ وہ اس سندھی کہاوت کو بھی سچ ثابت کرتی ہے کہ
” جڈھن کڈھن سندھڑی توکھے قدہاراں جوکھو"
( ہر دفعہ اے میرے سندھ تجھے قندھار سے خطرہ ہے) جبکہ2008ء میں ہی اقوام متحدہ کی ڈرگ اینڈ کرائم ورلڈ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان کی شوریٰ اپنے ہیڈ کوارٹرز اب پشاور، کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروں میں منتقل کرچکی ہیں۔ کسی نے بھی یو این کی اس رپورٹ کی طرف توجہ نہیں دی۔ حکومت تو ہے ہی ” نہ انجن کی خوبی، نہ کمالِ ڈرائیور چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے۔ لیکن اس انجن میں ہی آگ لگی ہوئی ہے۔ ملک کو کھینچنے والے اس انجن کو کراچی کہتے ہیں۔
تازہ ترین