• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک حاتم دوراں جو زمانے کی نظروں سے پوشیدہ ہیں مگر بحمد اللہ ہم پرو ہ ظاہر ہیں اور گاہے بگاہے ان سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے ۔ ابھی گزشتہ روز ان سے شرف ملاقات حاصل ہوا، شرف ملاقات کیا شرف مہمانی حاصل ہواکہ ان کے ہاں جانا اپنے طور پر شرف ہے چنانچہ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی گھنٹی دے کر چپڑاسی کو بلایا اور کہا صاحب کے لئے چائے لے کر آئو۔ اور ہاں دیکھو ساتھ ذرا اچھے سے بسکٹ بھی لانا پھر اس کے بعد چائے پیتے ہوئے انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’صاحب پتہ نہیں وہ کیسے لوگ ہیں جو پیسے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اپنی تو یہ عادت ہے کہ جو کمائو وہ خرچ کرو اب آپ چائے پی رہے ہیں بسکٹ کھا رہے ہیں مجھے خوشی ہو رہی ہے اگر دیکھا جائے تو ان دس بارہ روپوں کی بھلا کوئی وقعت ہے اتنے پیسے انسان فقیر کو بھی دے دیتا ہے‘‘ یہ سن کر بسکٹ میرے حلق میں اٹک گیا۔ اتنے میں ایک اور صاحب کمرے میں آگئے ہمارے اس حاتم دوراں نے چپڑاسی کو ایک کپ اور لانے کے لئے کہا بسکٹوں کی پلیٹ ان کی طرف سرکائی اور بولے’’جناب مہمان کو دیکھ کر میرے چہرے پر چمک آ جاتی ہے مہمان اللہ کی رحمت ہوتا ہے اور وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اب آپ جو بسکٹ کھا رہے ہیں ان پر آپ کی مہر لگی ہوئی تھی میں تو صرف وسیلہ بن رہا ہوں۔ یہ تو قلندروں کا ڈیرہ ہے یہاں سارا دن لوگ آتے ہیں اور جوان کے مقدر میں ہے لے جاتے ہیں یہ سب اس کی ذات کا کرم ہے ۔ میں بھلا کس قابل ہوں ۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ہمارے اس حاتم دوراں نے ٹیلی فون اٹھایا اور دوسری طرف موجود صاحب کا حال احوال پوچھنے کے بعد کہا بس گزارا ہی ہے قاسمی صاحب بیٹھے ہیں چائے پی رہے ہیں جس نے چائے پینا ہوتی ہے وہ فقیر کے ڈیرے کا رخ کرتا ہے مجھے لگا کہ میرا سانس بند ہو رہا ہے چنانچہ میں نے ان سے اجازت چاہی مگر انہوں نے بڑی محبت بلکہ شفقت سے ہمارے ہاتھ پکڑ کر واپس کرسی پر بٹھا دیا اور کہا ایک کپ اور چائے پئیں۔ چائے تو آپ پئیں گے لیکن اس سے خون میرا بڑھے گا۔ میں بادل نخواستہ بیٹھ گیا۔ میں نے کہا مجھے ایک جگہ جانا تھا چلئے میں فون کر کے انہیں مطلع کر دیتا ہوں مگر میں اپنا موبائل گھر بھول آیا ہوں یہ سن کر انہوں نے خندہ پیشانی سے اپنا موبائل فون مجھے تھمایا اور بولے بسمہ اللہ بسمہ اللہ یہ ٹیلیفون ہی آپ کا ہے آپ جیسے کتنے ہی دوست اپنے فون ہوتے ہوئے بھی یہاں سے دن میں بیسیوں کا لیں کرتے ہیں مجھے مسرت ہوتی ہے کہ میرا ٹیلی فون کسی کے کام آ رہا ہے سو دوسو روپے تو انسان یونہی کسی ضرورت مند کو دے دیتا ہے آپ تو خیر ماشااللہ صاحب علم آدمی ہیں اتنے میں ان کے دوسرے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور کہا اللہ کا شکر ہے جی رہے ہیں قاسمی صاحب بیٹھے ہیں چائے پی رہے ہیں بسکٹ کھا رہے ہیں ٹیلیفون کر رہے ہیں یہ تو قلندروں کا ڈیرہ ہے یہ سخاوت اس کی دین ہے میں کس قابل ہوں۔!

ان حاتم دوراں کے علاوہ ایک صاحب اور بھی ہیں جو سخاوت اور دریا دلی میں اگر ان کی ٹکر کے نہیں تو ان کے قریب قریب ضرور ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ میری دعوت کی ۔میں ان کے ہاں پہنچاتو دنگ رہ گیا دیکھا دیگیں کھڑک رہی ہیں شامیانے لگے ہوئے ہیں سو ڈیڑھ سو آدمی وہاں پہلے سے ہمارے منتظر ہیں ہمیں کئی بار اپنے بارے میں یہ شبہ گزرا تھا کہ ہم خاصے مشہور اور مقبول انسان ہیں مگر اس روز اپنی آنکھوں سے اپنی اس قدر عزت افزائی دیکھ کر ہمیں کچھ یقین سا ہو گیا ۔ان حاتم دوراں نے بہت پر تپاک طریقے سے میرا استقبال کیا وہاں بیٹھے احباب سے تعارف کروایا اور پھر اپنی جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے درخواست کی کہ اپنا تازہ کلام سنائیں، میں نے تعمیل ارشاد میں ایک غزل سنائی اس پر وہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور مجھے مخاطب کر کے کہا اب چند شعر فی البدیہ عزیزی عاطف سلمہ اللہ کے بارے میں بھی ہو جائیں اس کی آج رسم ختنہ ہے اور یہ تقریب اسی سلسلے میں منعقد ہو رہی ہے۔ میرا جی تو چاہا کہ عزیزی عاطف سلمہ اللہ کا ختنہ ہی خود کرنے کی پیش کش کروںتاکہ ان کے لئے یہ دن ہمیشہ کے لئے ناقابل فراموش ہو جائے۔یا انہیں قربان کر دیں مگر افسوس اخلاقی قدریں میرے عزائم کی راہ میں حائل ہو گئیں اور میں تعمیل ارشاد کے بغیر وہاں سے اٹھ آیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین