• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی محرومیوں اور استحصال کی مثال وبائی امراض جیسی ہے جنہیں سیاست چمکانے کے لئے موذی بیماریوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور شافی و کافی علاج کرنے کے بجائے عارضی طور پر دردکش ادویات کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ سیاست کی رونقیں انہی محرومیوں کے دم قدم سے آباد رہتی ہیں۔ آپ جنوبی پنجاب کی مثال لے لیں، مخدوم سجاد حسین قریشی، مصطفی کھر، مخدوم شاہ محمود قریشی، یوسف رضا گیلانی، مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم احمد محمود،فاروق لغاری مرحوم اور سردار ذوالفقار کھوسہ سمیت کتنے ہی رہنما اہم ترین عہدوں پر باربار متمکن ہوئے لیکن اپنے وسیب کی محرومیاں دور نہ کر سکے۔ کوئی ایک بھی انتخابی مہم ایسی نہیں جس میں جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے اور ہر جگہ مساوی نمائندگی دینے کے وعدے نہ کئے گئے ہوں۔ حالیہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی مفادات کے تحت ایک بار پھر جنوبی پنجاب حقوق تحریک کو زندہ کیا گیا اور ارکان پارلیمنٹ کو توڑ کر صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بنایا گیا۔ تحریک انصاف نے وعدہ کیا کہ ہم اقتدار میں آکر جنوبی پنجاب سے مساوی سلوک کریں گے لیکن ان وعدوں کی حقیقت پہلی ہی آزمائش میں طشت ازبام ہو گئی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) سے بھی یہ گلہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب سے بھاری مینڈیٹ لیکر خواتین کی مخصوص نشستیں لاہور میں رس گلوں کی طرح بانٹ دی جاتی ہیں اور اب نئے پاکستان میں بھی وہی ڈھب اور روش برقرار دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کو پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص 30نشستیں ملیں۔ ان میں سے 22نشستوں پر لاہور کی رہائشی خواتین اسمبلی میں پہنچیں، جنوبی پنجاب کے 11اضلاع کے حصے میں صرف 2نشستیں آئیں جبکہ باقی پنجاب سے 7خواتین کو نامزد کیا گیا ۔مسلم لیگ (ن) تو اس غیر مساوی تقسیم کا یہ جوازپیش کر سکتی ہے کہ اسے مینڈیٹ ہی شمالی پنجاب ،وسطی پنجاب اور لاہور سے ملا مگر تحریک انصاف جس نے جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کے وعدے کرکے ووٹ لیا، اس نے ووٹ لینے کے بعدجنوبی پنجاب کو کس حد تک نمائندگی دی؟ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی خواتین کے لئے مخصوص 33نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ جنوبی پنجاب سے حاصل کی گئی عددی برتری کی بنیاد پر ملنے والی یہ سیٹیں گلبرگ اور ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں کی خواتین کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔33میں سے 22نشستیں لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم خواتین کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئیں، جنوبی پنجاب کے حصے میں محض 3نشستیں آئیں جبکہ پنجاب کے دیگر اضلاع سے صرف 8خواتین پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پہنچ سکیں۔

قومی اسمبلی میں بھی خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر ایسی ہی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم دیکھنے کو ملتی ہے۔ تحریک انصاف نے خانیوال سے قومی اسمبلی کی 2نشستیں جیتیں، ملتان سے پی ٹی آئی کے 6ایم این اے منتخب ہوئے، لودھراں سے بلے کے انتخابی نشان پر ایک امیدوار کامیاب ہوا، وہاڑی سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے 2حلقوں میں کامیابی حاصل کی، بہاولنگر سے 01جبکہ بہاولپور سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2ایم این اے منتخب ہوئے، رحیم یار خان سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی 2نشستیں جیتیں ،مظفر گڑھ سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کے 3حلقوں میں کامیابی ملی، لیہ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2ایم این اے منتخب ہوئے، ڈی جی خان سے 4جبکہ راجن پور سے 3ارکان قومی اسمبلی بلے کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے۔ یعنی جنوبی پنجاب کے ان 11اضلاع سے پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 27نشستیں حاصل کیں۔ پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں 117جنرل نشستیں ہیں، اس حساب سے اسے خواتین کے لئے مخصوص 27نشستیں دی گئیں۔ یعنی تقریباً 4.3 نشستوں پر ایک مخصوص نشست۔ اس حساب سے جنوبی پنجاب کی 7خواتین کو قومی اسمبلی میں نمائندگی ملنی چاہئے تھی لیکن پی ٹی آئی کے کوٹے پر آنے والی خواتین ارکان اسمبلی میں شیریں مزاری ہی وہ واحد ایم این اے ہیں جنہیں کسی حد تک جنوبی پنجاب کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پنجاب سے پی ٹی آئی کو خواتین کے لئے مخصوص 16نشستیں ملیں اور ان میں سے 9خواتین ارکان اسمبلی کا تعلق لاہور سے ہے۔ راولپنڈی سے 2خواتین کو نمائندگی دی گئی جبکہ سرگودھا، چکوال، خوشاب، گجرات اور راجن پور سے ایک ایک خاتون پی ٹی آئی کے کوٹے پر قومی اسمبلی پہنچی۔ اصول اور میرٹ کی بات کی جائے تو لاہور سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے 4حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور اس حساب سے لاہور کے حصہ میں قومی اسمبلی کی بمشکل ایک نشست آتی تھی مگر جنوبی پنجاب کا حق چھین کر تخت لاہور کو دے دیا گیا۔

خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر جنوبی پنجاب اور دیگر اضلاع کو نہ صرف یکسر نظر انداز کیا گیا۔ مثال کے طور پر عالیہ حمزہ ملک کی نامزدگی کی وجہ یہ ہے کہ جب جہانگیر ترین نے لودھراں میں صدیق بلوچ کے خلاف ضمنی الیکشن لڑا تو وہاں انتخابی مہم چلا نے کے لئے گئیں اس لئے نہ صرف خود قومی اسمبلی کی رُکن بن گئیں بلکہ ان کی سفارش پر رخسانہ نویدکو بھی خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر ایم این اے بنایا گیا۔ لاہور خواتین ونگ کی صدارت کے لئے نیلم حیات نے شکست دی۔ برطانوی شہریت کی حامل ملیکہ علی بخاری کوشاہ مبینہ طور پر محمود قریشی کی سفارش پر قومی اسمبلی میں لایا گیا۔ سرگودھا سے پی ٹی آئی کے کوٹے پر ایم این اے بننے والی کنول شوزیب اور خوشاب سے قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچنے والی جویریہ آہیر ظفر کو راولپنڈی کے حلقہ این اے 61سے ایم این اے منتخب ہونے والے عامر کیانی کی حمایت حاصل تھی۔ لاہور سے مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رُکن بننے والی روبینہ جمیل، سابق کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جمیل حیدر کی اہلیہ ہیں۔ مخصوص نشستوں پر پارلیمنٹ میں پہنچنے والی دیگر خواتین کی اکثریت بھی اسی طرح کسی نہ کسی کی سفارش پر آگے لائی گئی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ تبدیلی کے علمبرداروں نے متوسط طبقے کی کسی خاتون کو نمائندگی نہیں دی بلکہ ڈیفنس، گلبرگ اور کینٹ جیسے پوش علاقوں کی خواتین کو نوازا ہے۔صوبہ جنوبی پنجاب محاذ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ ایک آدھ وزارت لے کر خاموش ہو جائیں گے اورپرانی تنخواہوں پر ہی کام کرتے رہیں گے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح پی ٹی آئی بھی جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کے بجائے محض وقتی اور نمائشی اقدامات کے تحت پین کِلرز دینے پر ہی اکتفا کرے گی تاکہ سیاست کی رونقیں شاد اور آ باد رہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین