• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ 14اگست کو پاکستان کا 71واں یوم آزادی بخیر وعافیت گزر گیا۔ پورے ملک میں کہیں بھی کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ کراچی سے خیبر اور چترال سے گوادر تک پاکستانی پرچم لہرائے گئے۔ پاکستان کا جشن آزادی چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھرپور جوش وخروش سے منایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوج کی سنگینوں تلے کشمیری عوام نے یوم آزادی پاکستان زبردست انداز میں منایا۔ اس بار بھی یوم آزادی کے موقع پر پوری قوم نے یہ عہد کیا کہ پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے۔ وطن عزیز دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ لاکھوں شہدا کی قربانیوں سے ہمیں یہ آزاد مملکت خداداد پاکستان نصیب ہوئی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آج سے71سال قبل ہندوستان کی بجائے پاکستان کا انتخاب کیا۔ قائداعظمؒ نے علامہ اقبالؒ کے خواب کو عملی تعبیر دی۔ قیام پاکستان کے وقت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ حصول پاکستان کا سفر خاصا کٹھن تھا۔ لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین آگ وخون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے۔ ہمیں آزادی کی قدر کرنی چاہئے۔ ہندوستان سے مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی ٹرینیں لاہور پہنچیں۔ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ملکی داخلی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔ کراچی، قبائلی علاقوں سمیت پورے ملک میں حالات معمول پر آچکے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر نوازشریف بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی کی پینگیں نہ بڑھاتے تو ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے اور ان کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ پاناما کیس تو ان کے لیے مکافات عمل ثابت ہوا۔ پاکستانی قوم یہ توقع کررہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی نہیں چلے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ نوازشریف نے پرویز مشرف سے دو قدم آگے بڑھ کر امریکہ اور بھارت کی خوشامد اور چاپلوسی کی جس کا نتیجہ عوامی نفرت کی صورت میں 2018کے الیکشن میں ظاہر ہوا۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ گزشتہ پانچ سال اس پر سیاست کرتے رہے لیکن جب عوامی حلقوں میں ’’نیا پاکستان‘‘ کے سلوگن کو سمجھنے میں مشکل پیش آئی تو انہوں نے اسکی یوں وضاحت کی ہم دو نہیں ایک پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر تھا کہ اگر ہم پرانے پاکستان کو ہی ٹھیک کرلیں تو ’’نیاپاکستان‘‘ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 25جولائی2018کے الیکشن میں تمام تر تحفظات کے باوجود یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے عوام روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے اور اب وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی۔ پاناما کیس میں بھی جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ عمران خان اور شیخ رشید بعد میں اس کیس میں فریق بنے۔ تحریک انصاف کو اگر پورے ملک میں پذیرائی ملی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کے عوام کرپشن سے نجات چاہتے ہیں اور وہ ایک ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جو ملک میں عدل وانصاف قائم کرے۔ اب تحریک انصاف کا یہ ایک کڑا امتحان ہے کہ کیا وہ ایک ’’نیا پاکستان‘‘ بنا پاتی ہے اور ملک میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لا پائے گی؟ اس کا جواب ہمیں آئندہ آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔ 2013میں جب نوازشریف نے بطور وزیراعظم تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا تو انہوں نے بھی کشکول توڑنے، مہنگائی، غربت اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے جیسے کئی دعوے کیے تھے مگر وہ اپنے وعدے وفانہ کرسکے۔ ان کے دور میں قومی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ عوام انہیں مسیحا سمجھ رہے تھے لیکن انہوں نے روایتی انداز میں اپنے پانچ سال پورے کیے۔ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرض پہ قرض لیتے رہے اور ملکی معیشت تباہی کے کنارے پہنچ گئی۔ پاکستانی کرنسی اتنی گر گئی کہ اب امریکی ڈالر 124 روپے کا ہوگیا ہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا گراف بھی دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا۔ عوام خود کشیوں پر مجبور ہوگئے۔ دو وقت کی روٹی اُن کے لیے کمانا مشکل ہوگئی۔ المیہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کے اہم معاملے پر تو قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے حکومت کے آغاز پر دعویٰ کیا تھا کہ6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے لیکن پھر دو سال اور بعد میں شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ پانچ سال میں بجلی بحران ختم ہوجائے گا مگر مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوسکا۔ آج مسلم لیگ(ن) حکومت کے پانچ سال پورے ہوچکے ہیں۔ اب15ویں قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھالیا ہے۔ تحریک انصاف کے اسپیکر اسد قیصر176ووٹ لے کر منتخب ہوچکے ہیں جبکہ متحدہ اپوزیشن کے امیدوار سید خورشید شاہ کو 146ووٹ ملے ہیں۔ مرکز، خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں تحریک انصاف کی نئی متوقع حکومت کو ایسی غلطیوں سے بچنا چاہئے جو ماضی میں مسلم لیگ (ن) کرتی رہی۔ اب2018کے الیکشن میں پاکستانی عوام نے تحریک انصاف کے ساتھ توقعات لگا رکھی ہیں کہ وہ روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح سیاست نہیں کرے گی بلکہ وہ بہتر تبدیلی لائے گی۔25جولائی کے انتخابات کے بعد دو ایسے واقعات ہیں جس سے تحریک انصاف کی اخلاقی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ پہلا واقعہ لاہور میں پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی ندیم عباس باراکا ہے، جنہوں نے جیت کے جشن پر اپنے ڈیرے پر اندھا دھند ہوائی فائرنگ کی اور ہلا گلا کیا۔ بعدازاں جب پولیس وہاں پہنچی تو انہوں نے مقامی ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہلکاروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کے ازخود نوٹس لینے پر لاہور سے پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی ندیم عباس بارا کو گرفتار کیا گیا۔ دوسرا افسوسناک واقعہ کراچی میں پیش آیا جہاں تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی عمران علی شاہ نے ایک عام شہری پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ کراچی کے واقعہ پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو بھی دکھ پہنچا۔ نامزد گورنرسندھ عمران اسماعیل کے مطابق عمران خان کراچی کے افسوسناک واقعہ پر خاصے افسردہ ہیں۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے ممبر صوبائی اسمبلی کراچی عمران علی شاہ سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ لاہور اور کراچی کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف اب حکومتی پارٹی بننے والی ہے لیکن تحمل، بردباری اور معاملہ فہمی کی تربیت ان کے ارکان کے اندر موجود نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تحریک انصاف کے جلسوں میں ہڑبونگ اور بدنظمی مسلسل دیکھنے کو ملتی رہی ہے لیکن اب تحریک انصاف مرکز اور دو صوبوں میں اقتدار میں آرہی ہے۔ اسے اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران چونکہ پی ٹی آئی حزب اختلاف کا حصہ تھی اس لیے عوام اور میڈیا کے اندر اُس کے لیے نرم گوشہ موجود تھا۔ اب وہ اقتدار میں ہوگی تو اُسے عوام اور میڈیا میں سخت تنقید کے لیے تیار رہنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین