• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ، نئےوزیراعظم کا انتخاب، اہل پاکستان کیلئے مسرت انگیز لمحہ

اسلام آباد( طاہر خلیل) اہل پاکستان کےلئے مسرت انگیز لمحہ ہے کہ ہم آج قومی سیاسی سفر کاایک اور اہم سنگ میل طے کرنے جارہے ہیں اور قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کاانتخاب کرے گی، مقابلہ عمران خان اور میاں شہباز شریف کے درمیان ہوگا، نئے سپیکر کے انتخاب سے اور پی پی پی کی طرف سے میاں شہباز شریف کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد ایوان میں عدد ی اکثریت کی گیم بہت واضح ہوگئی ہے پہلے بھی سپیکر کے انتخاب کے موقع پر کئی مبصرین تحریک انصاف کی کامیابی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے۔ یہی حالات پنجاب اسمبلی میں سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے انتخاب کےضمن میں بھی در پیش تھے اور مسلم لیگ (ن) نے ان خدشات کو قطعی بے بنیاد اور لغو قرار دے کر مسترد کردیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی فارورڈ بلاک بننے جارہاہے یا ان کے ووٹ ٹوٹ سکتے ہیں لیکن معاملہ قومی اسمبلی کا ہو یا پنجاب اسمبلی کا اسلام آباد اور لاہور میں سپیکرز کے انتخاب میں جو نتائج سامنے آئے وہ قطعی حیران کن نہیں ہیں۔اسلام آباد اور لاہور دونوں اسمبلیوں میں تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کی معینہ تعداد سے زیادہ ارکان کے ووٹ سے کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ خفیہ رائے دہی میں ن لیگ کےووٹ کم ہوگئے اور ان کے بعض ارکان نے اسلا م آباد میں اسد قیصر اور لاہور میں چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں ووٹ دیا تھا ، آج جبکہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ در پیش ہے اور پی پی پی کے فیصلے سے امکانی طور پر عمران خان کی کامیابی میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں یوں عام انتخابات کے بعد شروع ہونے والے انتقال اقتدار کے مراحل کل 18 اگست کو نئے وزیراعظم کی حلف برداری سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے اور نئی حکومت کے ساتھ قومی سیاستدانوں کی آزمائش کا آغاز ہوجائے گا۔ نئے متوقع وزیراعظم عمران خان کےلئے تاریخ نے سنہرا موقع عطا کیا ہے کہ وہ اپنے غیر معمولی وژن، صلاحیتوں اور جرات مندانہ فیصلوں کے ذریعے ملکی تعمیر و ترقی کے اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کرکے ملکی سیاست کی کایا پلٹ سکتے ہیں اور اگر وہ انتخابات میں منشور کی صورت میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو پختہ عزم کے ساتھ مکمل کرنے کی راہ پرگامزن ہوں گے تو عوام کو ملک میں ایک واضح تبدیلی نظر آئے گی۔ عمران خان نے 6 اگست کو اپنی پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں ترجیحات اور اہداف کا واضح تعین کردیا تھا۔ نئی حکومت کے کارکردگی دکھانے کےلئے پہلے چھ ماہ بہت اہم ہوں گے، عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور انہوں نے 25جولائی کو ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا جو چیلنجز درپیش ہیں اس میں ملک کو مالی بحران سے نکالنا سب سے بڑا اورمشکل چیلنج ہے۔روایتی سیاست کو مسترد کرکے عوام نے مینڈیٹ دے دیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بدلنے کی جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ مسلم لیگ(ن) کو بھی غورو فکر کرنا چاہیے کہ میگا ڈویلپمنٹ پرو جیکٹس کے باوجود کیا ہوا کہ انتخابات میں مطلوبہ سیٹس نہ مل سکیں اور اب وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں میاں شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے فیصلے نے در حقیقت یہ دوٹوک پیغام دے دیا کہ پی پی پی اپوزیشن میں بھی ن لیگ کی ہم سفر نہیں ہوسکے گی اور یوں موجودہ نمبر گیم میں پاکستان کی سب سے بڑی حزب اختلاف قوم کو مشکلات اورمسائل سے باہر نکالنے میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔
تازہ ترین