• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پاکستان میں بدترین آمریت سےجمہوری دورآنےتک کی سیاسی تاریخ کو دوبارہ لکھنےکاوقت ہے۔ پاکستان کےبدترین آمرجنرل ضیاءالحق سےجمہوری دورتک تاریخی غلطیاں ٹھیک کرنے کاوقت ہے۔ 17اگست ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب 30سال قبل جنرل ضیاءکےپُراسرارطیارہ حادثےکے باعث ایک دورکااختتام ہواجس کے باعث پاکستان کو شدیدنقصان پہنچاتھا۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنھیں ایک بار ضیاءنےخود انھیں حکومت میں شامل ہونےکی پیش کش کی تھی اور انھوں نے یہ کہتےہوئےانکارکردیاتھا’یہ میراکام نہیں ہے‘، اُس دن سے تیس سال بعدقومی اسمبلی ایک اور وزیراعظم عمران خان کا انتخاب کرےگی۔ 17اگست 1988سے 17اگست2018تک پاکستان بدترین آمریت سےسے ہوتے ہوئےجمہوری دورمیں داخل ہوچکاہےجو تاحال اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسی دن جنرل ضیاءالحق کی برسی بھی ہے جوپُراسرارطورپرایک طیارےکےحادثے میں جاں بحق ہوئےتھےاور دوسری جانب قومی اسمبلی ملک کے نئے وزیراعظم عمران خان کومنتخب کرےگی۔ جنرل ضیاء نے پیش کش اسوقت کی تھی جب انھوں نے محمد خان جونیجو کی حکومت کوبرطرف کیاتھا اور عمران انگلش کائوٹنی سسکس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ عمران نےخوداپنی کتاب ’عمران خان پاکستان‘ میں ایک واقعہ لکھاہےکہ کس طرح پہلی باران کےایک ذاتی دوست اشرف نوابی اوربعدمیں ضیاءکےبیٹےڈاکٹرانوارالحق نے کابینہ میں شامل ہونے کی پیشکش کی تھی۔ ’’جولائی 1988 میں لندن میں رہتے ہوئےسسکس کیلئے کائونٹی کھیل رہاتھا۔ مجھے پاکستان سے ایک غیرمعمولی فون آیا۔ یہ میرادوست اشرف نوابی تھا جوضیاءکےبھی کافی قریب تھا۔ اس نےکہاکہ کیامیں ضیاءکی کابینہ میں وزیربناچاہتا ہوں۔ ضیاءنےمحمدخان جونیجوکی حکومت کوبرطرف کیاہی تھا۔ جوپاکستان کاسب سےزیادہ مہذب وزیراعظم تھے۔ ضیاءنےسوچاکہ وہ بہت نرم اورتابعدارہوں گے۔ لیکن جونیجونےضیاکی جانب سےافغانستان میں سویت جنگ کے بعد جنیوا معاہد ے پردستخط سےانکارکے معاملےپر خود کو فائدہ دینےکی غلطی کرلی۔‘‘ عمران مزید کہتے ہیں،’’جونیجو نےسادگی کیلئے بھی ایک مہم چلانے کی کوشش کی تھی۔ دیگرحکمرانوں کے برعکس جومغل بادشاہوں کی طرح شان وشوکت سےرہناچاہتے تھے جونیجونے خود کی مثال کےساتھ قیادت کی، پاکستان میں تیار کردہ گاڑی چلائی تاکہ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوسکے۔‘‘ عمران نے کہا کہ اگرچہ انھوں نے ضیاءکی پیش کش کو ٹھکرادیا تھا لیکن اس پرانھیں حیرانی ہوئی تھی۔ ایک دن بعد ان کے بیٹے ڈاکٹرانوارالحق نے مجھے فون کیا اوراپنے والد کی حکومت میں شامل ہونےکیلئےاصرارکیا۔ میں نےیہ کہتے ہوئےنرمی سے انکار کردیا کہ میں اس نوکری کے قابل نہیں ہوں۔‘‘ ضیاءالحق کے سب سے چھوٹے بیٹے انوارالحق نے عمران کویہ کہتے ہوئےقائل کرنےکی کوشش کی کہ ان کے والد کرپٹ سیاستدانوں سے تنگ آچکے ہیں۔ اپنی کتاب میں عمران نے لکھاہےکہ کس طرح جنرل ضیاءنےپاکستانی سیاست کونقصان پہنچایا۔ انھوں نےکہاہےکہ’’ انھوں نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو کافی زیادہ نقصان پہنچایاخاص طورپر غیرجماعتی نظام کو متعارف کراکر۔‘‘ عمران مکمل طورپرغلط نہیں تھے کیونکہ ضیاءکی آمریت کے 11سالوں کےدوران پاکستان کاسیاسی کلچرمکمل طورپرتباہ ہوگیاتھا۔ وہ نہ صرف ایک عدالتی قتل کے ذریعےایک معروف رہنماکوقتل کرانےکےذمہ دار تھے بلکہ وہ عدلیہ کوتباہ کرنے، 1981میں ایک فراڈ ریفرینڈم کے ذریعےقانونی حیثیت حاصل کرنے، سیاسی مخالفین اور میڈیاکوکچلنےاور نظریاتی سیاست کوختم کرنے کیلئےکاروباری شخصیات کاسہارالینےکےبھی ذمےدارتھے۔ جب ضیاءنے جونیجو کی حکومت کو 28مئی 1988کوختم کیا تو انھوں نے کبھی انتخابات نہیں کرائے اگرچہ یہ انتخابات اگست 1988 میں ہونا تھے۔

تازہ ترین