• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگاتار جاری معاشی بحران معاشرے سے امید کا خون نچوڑ لیتے ہیں اور اس کی جگہ تناؤ کو دے کر بطور خاص نوجوانوں میں بے چینی کا زہر بھر دیتے ہیں۔ عرب دنیا، امریکہ اور پاکستان کے حالیہ انتشار اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان ممالک میں طویل معاشی بحرانات کے بعد گھٹتے ہوئے موقعوں اور پوری نہ ہونے والی تمناؤں نے جمود کی قوتوں کے خلاف مظاہروں کی ایک وسیع لہر کو مہمیز کیا۔ جہاں ایک بڑی اور بالخصوص نوجوانوں پر مشتمل آبادی کسی ملک کے لئے اثاثہ ہو سکتی ہے وہیں یہ سماجی اور سیاسی عدم استحکام کی یکے بعد دیگرے بھڑک اٹھنے والی آگ پر تیل چھڑکنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
آزادی کے وقت پاکستان کی کل آبادی33ملین تھی جب کہ2012ء کے وسط تک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ180ملین ہو چکی ہے۔ اس طرح تقریباً دو نسلوں کے بعد پاکستان کی آبادی میں147ملین تک کا اضافہ ہوا ہے یا دوسرے الفاظ میں آبادی میں اضافے کی شرح2.6فی صد سالانہ تھی۔ آئندہ چار یا پانچ عشروں میں پاکستان اپنی بڑی آبادی سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے جو آبادی کے فائدے کے طور پر پاکستان کی معاشی نمو کو ایندھن فراہم کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔2050ء تک توقع ہے کہ ملکی آبادی350ملین سے زیادہ ہو جائے گی۔ یہاں اہمیت کی حامل چیز آبادی کا حجم نہیں بلکہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آبادی کی ساخت (زیادہ تر) کس عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان نسبتاً ایک کم عمر ملک ہے جس کی50فی صد (90ملین) آبادی20سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ بڑے پیمانے پر اس عمر کے نوجوانوں پر مشتمل آبادی آنے والے سالوں میں فی کس آمدنی کی بنیاد پر معیشت کی پیداواری استعداد میں اضافے کا اشارہ ضرور ہے مگر اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ نوجوان افراد پر سرمایہ کاری اور ان کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے میں ناکامی ملک میں سماجی اور سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس اختیار کرنے کے لئے واضح راستہ موجود ہے۔ یہ اپنی آبادی کی عمر کے تبدیل ہوتے ہوئے ڈھانچے میں وراثتی طور پر موجود موقعوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا100ملین نوجوانوں کی توانائیوں کو درست طریقے سے استعمال کرنے میں ناکامی سے ایک بتدریج دھماکے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ہر سطح پر رسائی اور معیار کو بہتر بنانے کے لئے تعلیم اور تربیت میں سرمایہ لگانا چاہئے۔ نو جوانوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے تاکہ وہ معاشرے میں معاشی طور پر پیداواری صلاحیتوں کے حامل رکن بن سکیں اچھی صحت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ تعلیم اور تربیت۔ اس سلسلے میں مفید روزگار اور اس بات کو یقینی بنانا بھی درکار ہو گا کہ نوجوان طبقے کو معاشرے کے تانے بانے میں اچھی طرح سمو دیا جائے اور وہ اس کے وسائل اور وابستہ فوائد کو برابری کی سطح پر استعمال کر سکے۔2050ء تک توقع ہے کہ پاکستان کی آبادی350ملین ہو جائے گی جس میں 235ملین سے زائد افراد کام کرنے کی عمر14تا15سال میں ہوں گے جب کہ فی الوقت یہ تعداد110ملین ہے۔ اس ورکنگ گروپ کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جانے ہوں گے۔
ہم ایسا کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس ضمن میں مشرقی ایشیاء کی اقوام کا تجربہ ہمارے لئے مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی سماجی،معاشی ترقی میں تعلیم مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ فرد کی صلاحیتوں کی تعمیر اور معاشرے کی تخلیقی استعداد کے استحکام میں تعلیم کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ تعلیم غربت و عدم مساوات میں کمی لانے میں مدد کرتی ہے اور صحت کی شرح اور اچھی طرز حکمرانی میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حصول تعلیم کا ہر اضافی سال تمام دنیا میں افراد کی آمدنی میں10فی صد اضافہ کرتا ہے۔ عشروں سے پاکستان نے پرائمری سطح کی تعلیم کو اہمیت دی ہے جب کہ سیکنڈری اور اس کے آگے کے درجوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ گو کہ تعلیم کے پرائمری اور سیکنڈری درجے مسابقتی ورک فورس کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جو معیاری تعلیم کی فراہمی کے ذریعے نہ صرف اعلیٰ سطح کی مین پاور تیار کرتا ہے…تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم پر بنیاد کرنے والی معیشت کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے والے اہم خام افراد…بلکہ پرائمری اور سیکنڈری درجوں میں تعلیم دینے کے لئے بہترین گریجویٹ بھی تیار کرتا ہے۔ایشیاء آج ویسا نہیں ہے جس طرح آج سے50سال قبل تھا۔ گو کہ ایشیاء کے بعض ممالک ترقی کا زینہ چڑھ چکے ہیں مگر بعض پیچھے رہ گئے ہیں۔
جنوبی ایشیاء میں پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش۔ مشرقی ایشیاء میں تھائی لینڈ، ملائیشیا اور کوریا معاشی ترقی کی قطعی متضاد تصویر پیش کرتے ہیں۔1960ء کی دہائی میں ان تمام ممالک کی فی کس آمدنی تقریباً یکساں تھی اور اس حد تک قابل موازنہ تھی کہ تمام ممالک ملائشیا کے سوا200ڈالر سے نیچے تھے۔2011ء تک جنوبی ایشیاء میں فی کس آمدنی700-1400ڈالر کے درمیان نوٹ کی گئی جب کہ مشرقی ایشیاء میں اس کی شرح 8000-23000 ڈالر تھی۔ گزشتہ50سالوں کے دوران کوریا میں فی کس آمدنی میں175گنا اضافہ ہوا، تھائی لینڈ میں55گنا اور ملائیشیا میں29گنا جب کہ اسی عرصے کے دوران پاکستان اور بنگلادیش میں اس اضافے کی شرح محض10گنا اور بھارت میں15گنا تھی۔ اس عظیم تفاوت کی کیا وجہ ہے؟ 1960ء میں پاکستان اور بھارت میں شرح خواندگی بالترتیب15اور18فی صد تھی جب کہ ملائیشیا اور کوریا میں یہ شرح علی الترتیب53اور71فی صد تھی۔2011ء تک مشرقی ایشیاء کے تینوں ممالک تقریباً یونیورسل لٹریسی حاصل کر چکے ہیں جب کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک تاحال54(بنگلا دیش) سے66(بھارت) فی صد کی حدود میں رینگ رہے ہیں۔ کیا جنوب ایشیائی اور مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان انسانی سرمائے کے اشاریوں میں تفاوتیں محض اتفاقی ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔1960ء کی دہائی میں جس وقت جنوبی ایشیاء کے ممالک فرد واحد کی تعلیم پر دو ڈالر سے بھی کم خرچ کرتے تھے، مشرقی ایشیاء کے ممالک میں یہ رقم20-32ڈالر کے درمیان تھی۔2011ء تک دونوں خطوں کے ممالک کے مابین فرد واحد کی تعلیم پر خرچ کے اعتبار سے کوئی مقابلہ باقی نہیں رہا۔
اس موازنے سے صاف ظاہر ہے کہ ایک زیادہ تعلیم یافتہ ملک ایک کم تعلیم یافتہ ملک کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرے گا۔ مزید یہ کہ مشرقی ایشیاء کے ممالک کی قیادت اس حوالے سے زیادہ وابستہ و پُرعزم تھی جس نے جنوبی ایشیاء کے ممالک کی نسبت تعلیم کو بہت زیادہ ترجیح دی۔ آج پاکستان کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ ہر سطح پر تعلیم کو فروغ دے۔ جب تک پاکستان اپنے عوام اور بالخصوص نوجوان نسل پر سرمایہ کاری نہیں کرے گا یہ آبادیاتی تبدیلی کے فوائد سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا اور تباہی و بربادی ہی اس کا مقدر ہو گی۔ پاکستان کے پاس اپنے عوام پر سرمایہ کاری کرنے کے سوا دیگر کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہماری تعلیم دینے اور معیشت کو درست راہ پر لگانے کی صلاحیت ہی آج کی نوجوان نسل کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
تازہ ترین