• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزآشنائی … تنویرزمان خان، لندن
میرے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر یہ بات چھوڑی ہے کہ بیرون ممالک میں بیٹھے کامریڈوں کی مثال ان کبوتروں کی طرح ہے جو کبوتر بازی چھوڑ چکے ہیں لیکن آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کی کبوتر بازی کی طرح انقلاب کی غٹرغوں جاری ہے۔ میں نے اس پوری بات میں سے یہ مختصر ٹکڑا لیا ہے جس میں میرے دوست نے بیرون ممالک بیٹھے انقلاب کی باتیں کرنے والوں پر خوب چوٹ کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کا ایسا کرنا درست بھی ہے یا نہیں البتہ یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ ان کی غٹر غوں ہے بے اثر و بے معنی یعنی وہ صرف دل پشوری کرنے کے لئے غٹر غوں کرتے ہیں۔ گویا انقلاب انقلاب کھیلتے ہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چلیں آج اس پر ذرا غو رکرتے ہیں کہ کہیں یہ کھیل بھی ان کے لئے کہیں مذہب کی طرح جینے کی ایک امید ہی تو نہیں بنا ہوا۔ اس کے لئے کامریڈوں کو کئی پہلوئوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں وہ کامریڈ شامل نہیں جو برطانیہ یا جہاں رہتے ہیں وہیں انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ غٹرغوں صرف ان کی ہے جو ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ملک چھوڑکے آئے، کچھ وہ جو پہلے سے ہی پاکستان میں انقلابی غٹر غوں کیا کرتے تھے۔ دوسرے وہ جنہوں نے دوسرے ممالک میں پہنچ کر پاکستانی سیاست کی غٹرغوں شروع کی۔ایک جھرمٹ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو پاکستان سے یا تو نہایت کم عمری میں آئے یا خالصتاً معاشی وجوہات سے آئے لیکن وہ بھی اب پاکستان کی فکر میں سیاسی غٹرغوں کرنے لگے ہیں۔ اس تمام تر شور و غوغے کا پاکستانی کی سیاست اور انقلاب پر تو کوئی اثرنہیں البتہ باہر رہتے ہوئے چائے کی پیالی یا گلاس میں انقلاب ضرور برپا رہتا ہے اور ایک اچھی سوشلائزیشن بھی ہوجاتی ہے۔ میرے دوست اس سوشلائزیشن کو کیوں چھیننا چاہتے ہیں مجھ سمیت اس غٹرغوں کرنے والے غول نے باہر رہتے ہوئے کئی اچھے کام بھی کئے اور کئی موثر کام بھی۔آمروں کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے بھی کئے ان میں سب سے بڑی لاٹ تو جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف کام کرنے کی پاداش میں ملنے والی قید، کوڑوں اورمقدمات جیسی اذیتوں سے بچ کر یا بھگت کر جلاوطنی اختیار کرنے والوں کی ہے۔گو یا انہیں اب30 سے 40 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے ان کی تعداد تو بہت کم رہ گئی ہے لیکن یہ نسل آج تک خود کو پاکستان کے لئے غٹرغوں کرنا بند نہیں کرسکی، یہ سب لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اس ہجوم میں سے جو نام گردش کررہے ہیں ان میں پروفیسر امین مغل، سردار مظہر علی، ارشد بٹ، منیب انور، ہمراز احسن، جاوید حکیم قریشی، مشتاق لاشاری، محسن باری، امتیاز خان، ڈاکٹر اظہر ملک، اکرم قائمخانی، اسلام مرزا، آغاز ندیم، صباحت حمید نمایاں طور پر ذہن میں ہیں کچھ وہ بھی ہیں جو پاکستان واپس چلے گئے کچھ وہ بھی جو صفدر ہمدانی جسے دنیا چھوڑ گئے یہاں میں اپنے دوست سیدنوید حسین کا ذکر نہ کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا۔ باہر بیٹھ کر پاکستان کی سیاست کے بارے میں سوچنا، فکر کرنا، باتیں کرنا، وہاں کی پارٹی کی برانچ بنانا، تنظیمیں بنانا سب غٹرغوں کرنے کے لئے ہی تو ہے۔ جب یہ لوگ پاکستان میں کام کرنے والے کامریڈوں کی مالی معاونت کرتے ہیں تو وہاں لوگ کافی خوش ہوتے ہیں۔ ان کامریڈوں یا سیاسی ذہن رکھنے والوں کے علاوہ عام لوگ باہر بیٹھے ان کبوتر بازوں کو خبتی ہی سمجھتے ہیں اب تو خیرباہر بیٹھے کامریڈ ہوں یا عام تارکین وطن، پاکستان کی سپریم کورٹ نے انہیں پاکستان میں ووٹ کا حق دے کر بیرون ممالک میں بھی موچی دروازے اور مینار پاکستان کی برانچیں کھول دی ہیں۔ جس کا خمیازہ باہر بیٹھے لوگ تو بھگتیں گے سو بھگتیں گے، پاکستان میں لگتا ہے لوگوں کو مظاہرے کرکے اس قانون کو واپس کروانا پڑے گا کیونکہ اس قانون سے کچھ طاقتوںکے ہاتھ میں دھاندلی کا جو جھرلو آگیا ہے اسے لوگ سوغات سمجھ کر ہمیشہ یاد کیا کریں گے۔ اس طرح اب یہ غٹرغوں صرف کامریڈوں تک نہیں رہ گئی بلکہ پاکستان کی سیاست ہی انٹرنیشنل ہوگئی ہے۔ انقلاب تو دور دور تک نہیں ہے البتہ انتخاب ضرور بیرون ممالک میں دربار کرلے گا اور ہم ان مہذب جمہوریتوں میں اپنی شرع چلانے کی کوشش کریں گے اور باہر بیٹھے لوگوں کے ووٹ کسی کو عرش سے فرش پر گرائیں گے اور کسی کو فرش سے عرش پر اٹھائیں گے۔ خیر یہ سب جب ہوگا تب دیکھا جائے گا کیونکہ ہمارے ہاں پیش بندیوں کا رواج نہیں ہے، ہم تو سیلابوں کو جانتے ہوئے کہ آنا ہے اور تباہی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی کسی پیش بندی کو درست نہیں سمجھتے۔ وہاں کا کامریڈوں کا پاکستان کی طرف منہ کرکے غٹرغوں کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں اور پھر پاکستان میں انقلاب انقلاب کھیلنے والے جاندار پیش رفت کرنے لگیں گے تو میرے دوست کو بیرون ممالک کی پاکستانیوں کی یہ غٹرغوں بہت کارآمد محسوس ہونے لگے گی، اس لئے یہ غٹرغوں جاری رہنی چاہئے۔
تازہ ترین