• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دم بخود رہ گئی بلبل ہی چمن میں ورنہ
کون سا پھول تھا جو گوش بر آواز نہ تھا
پچھلے دنوں دونوں چیف صاحبان کے اپنے اپنے حلقے میں خطابات کو میڈیا نے اس انداز میں بریکنگ نیوز بناکر آمنے سامنے رکھ کر پیش کیا کہ گمان ہو رہا تھا کہ جیسے اوباما اور رومنی کی کوئی نئی ڈیبیٹ ہورہی ہو۔ ایسی صورت میں مجھے جگر مرادآبادی کا مندرجہ بالا شعر حسب حال لگا سو قارئین کی نذر کردیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ریاستی اداروں میں اختیارات کے سلسلے میں کوئی پنجہ آزمائی ہورہی ہے یا نہیں مگر ہمارا الیکٹرونک میڈیا اس کی ایسی منظر کشی ضرور کررہا ہے جس سے ایک عام آدمی کے ذہن کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اوپری سطح پر حالات بہت ہی گمبھیر ہیں اور ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے پھر ان حالات میں راولپنڈی بار کی بے وقت قرارداد نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جسے کچھ سمجھ نہیں آتا وہ بھی کچھ نہ کچھ سمجھنے لگا، یہ تمام عناصر مل کر کوئی مرکب بنانے کی سعی تو نہیں کررہے؟ یہ غیر یقینی صورت حال کسی یقینی منزل کی طرف تو نہیں دھکیل رہی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے جیسے عام آدمی کے ذہن میں ابھرتے ہیں پھر بغیر جواب پائے حالات کی دلدل میں نیچے دھنس جاتے ہیں اور اپنی سطح پر ہلکے ہلکے گول دائرے چھوڑ جاتے ہیں جو سوائے پریشانی کے اور کچھ نہیں دیتے اس پر خواجہ حیدر علی آتش کا شعر ہے
قلزم عشق میں کب تک رہوں اے حسن! بتا
لب دریا جو نہیں تو تہ دریا دکھلا
اب تو سچی بات یہ ہے کہ حالات اس تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ تہِ دریا بھی نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لئے اشارے کافی ہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ اور پھر جواب شکوہ اور پھر جواب در جواب کسی آنے والے طوفان کی غمازی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس بار جمہوریت کو نقصان پہنچا تو قصور کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا ہی ہوگا اور اس کے نتیجے میں کوئی نقصان ہوا تو وہ بھی ہمارا ہی ہوگا۔ ہر کام میں اعتدال پسندی کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم بحیثیت قوم ابھی تک اعتدال سے کام لینا نہیں سیکھے۔ شاید وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ہر شخص اپنی دھن میں تیزی سے لگا ہوا ہے۔ اسے اردگرد دیکھنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کچھ لوگوں نے شاید ٹھان لی ہے کہ جب جیل ہی جانا تو پھر کافی کچھ کرکے جائیں یونہی خالی پیلی جیل جانے کا فائدہ کیا۔ بقول منیر نیازی
ہوائے شوق کے رنگین دیار جلنے لگے
ہوئی جو شام تو جھکڑ عجیب چلنے لگے
اگرچہ جھکڑوں کا موسم گزر گیا ہے اور ہوا میں خنکی آگئی ہے مگر ملک کے سیاسی موسم میں ابھی بھی حدت شدت سے محسوس ہو رہی ہے سیاسی پارٹیاں اگرچہ آج کل نسبتاً خاموش ہیں اور سیاسی جلسوں پر خرچہ نہیں کر رہیں صرف سرکاری سطح پر کہیں عید ملن جلسہ محرم سے ایک دو دن قبل ہورہا ہے تو کہیں کمپیوٹر بانٹنے کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ پارٹی فنڈز بچاکر سرکاری فنڈ سے جلسے اور انتظامات ہورہے ہیں یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے بقول حبیب جالب
وہی جمال وہی تمکنت وہی اعجاز
ہزار پل اسے دیکھیں کہ ایک پل دیکھیں
الیکشن کمیشن اپنا کام مستعدی سے کررہا ہے اور ہر روز خبروں کی زینت بنا ہوتا ہے،الیکشن ہوں یا نہ ہوں الیکشن کمیشن نے کام تو کرنا ہے، سو وہ کررہا ہے۔ ابھی تک کے حالات کے مطابق اور حکومتی بیانات کی روشنی میں قوی امید ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوجائیں گے اور عبوری حکومت بھی اپنے وقت پر قائم ہوجائے گی اگر یہ سب کچھ اسی طرح معمول کے مطابق ہی ہوتا ہے تو پھر یہ غیر یقینی صورت حال کی تصویر ہر وقت کیوں کھینچی جاتی ہے۔ کراچی میں کیوں ہر روز اتنے معصوم اور بے گناہ شہریوں کا خون ہوجاتا ہے۔ سرشام سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں اور شہر پر ایک خوف کا عالم طاری ہے۔ اس انجانے خوف کو کون پھیلاتا ہے اور ہر روز جنازے اٹھنے کے لئے کیوں تیار ہوتے ہیں اور پھر نماز جنازہ کے بعد مزید جنازوں کا اہتمام ہوجاتا ہے۔ یہ ایک دائرہ ہے اور ہم اس دائرے میں پھنس گئے ہیں۔ اب ہمیں اس دائرے سے نکلنے کا راستہ درکار ہے۔ یہ راستہ اسی وقت ملے گا جب مجرموں کی سرکوبی ہوگی اگرچہ پولیس کے دعوے کے مطابق انہیں حال ہی میں بے شمار کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر یہ کامیابی ہمیشہ خبروں کی حد تک محدود رہ جاتی ہے اور گراؤنڈ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ کچھ ملزم تو چالان ہی نہیں ہو پاتے اور جو گرفتار ہوتے ہیں وہ بھی سینٹرل جیل میں آرام و آسائش کی زندگی گزارتے ہیں کیونکہ نہ تو ان کے خلاف کوئی گواہی ہوتی ہے اور اگر گواہ ہو بھی تو وہ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں نتیجتاً ملزم واپس آزاد ہوجاتا ہے بقول غالب
بیکاری جنوں کو، ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں، تو پھر کیا کرے کوئی
تازہ ترین