• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جمعہ کے روز پاکستان کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ ان کے مدمقابل امیدوار مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو مشکل ترین حالات میں حکومت ملی ہے۔ ملکی معیشت زبوں حال ہے تو اندرونی بیرونی خطرات بھی دوچند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خارجہ امور درستی کے متقاضی ہیں تو اندرون ملک عوامی ریلیف بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ انہی عوامل کے باعث بعض تجزیہ کار بجا طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے لئے حکمرانی پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوگی تاہم بعض دانشوروں کو قوی امید ہے کہ چیلنجز قبول کرنے والے عمران خان اپنی محنت، لگن اور دیانت داری سے مسائل کا حل نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ اگر قیادت واقعی کچھ کرنا چاہے تو کوئی بھی چیلنج اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو سردست جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ معاشی ہے کہ حکومت کو آتے ہی بیرونی قرضے ادا کرنے کیلئے 12ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ کرنٹ تجارتی خسارہ جو کبھی دو ارب ڈالر سالانہ تھا پچھلے دو تین ماہ میں دو ارب ڈالر ماہانہ ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت تقریباً 95ارب ڈالر کے قرضوں تلے دبی سسک رہی ہے، درآمدات و برآمدات میں تفاوت نصف سے بھی زیادہ ہے۔ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد اور بیروزگاری میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں اگرچہ چین اور سعودی عرب پاکستان کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں تاہم یہ ناکافی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو دوست ممالک پر زیادہ توجہ دینا ہوگی، ٹیکس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ آئی ایم ایف پر کم ہی انحصار کرنا پڑے۔ معاشی مسائل کے حل کے بعد ملک کے اندر فکر و عمل کی تقسیم کا خاتمہ ضروری ہے خواہ یہ علاقائی، سیاسی، نظریاتی یا کسی اور بنیادوں پر ہو۔ یہ وقت انتشار کا نہیں متحد ہو کر ایک یادگار قوم ہونے کا ثبوت دینے کا ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن جمہوری نظام کاجزو لانیفک ہے اس کی بات کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے تاکہ اسے بھی یہ احساس ہو کہ وہ ملکی فیصلوں میں برابر کی شریک ہے۔اپوزیشن بھی ملکی اورعالمی حالات کے پیش نظر تعمیر کی راہ پر چلے کہ اس کے برعکس رویہ اپنانے والا وطن دوست قرار نہیں پائے گا۔ عمران خان نے حکومت کے پہلے 100دن کا جو پروگرام دیا ہے اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ نہ صرف حکومت بلکہ پوری اسمبلی ملک کی ترقی کیلئے یکسو ہو کر تاریخ میں امر ہو جائے۔ عوام کی تمنا ہے کہ قومی اسمبلی ہی نہیں چاروں صوبائی اسمبلیاں ملک کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کیلئے ایک دوسرے کی دست و بازو بنیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی موثر تبدیلیاں ناگزیر ہیں کہ بھارت اور امریکہ نے مل کر ہمیں دنیا میں تنہا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اس محاذ پر عمران خان کو ذہین و فطین لوگوں کو تعینات کرنا ہوگا تاکہ بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ ممکن ہو اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں۔ عمران خان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کامیابی ہمیشہ ٹیم ورک کے نتیجے میں ملتی ہے، لہٰذا انہیں انتہائی دانش مندی سے صرف اور صرف میرٹ پر اپنی ٹیم سلیکٹ کرنی ہوگی تاکہ مسائل کو حل کیا جاسکے، کمزور ٹیم کے ساتھ کامیابی کا حصول ممکن نہ ہوگا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کو نئے وزیراعظم سے بہت سی توقعات ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عمران خان جو کہتا ہے کر کے دکھاتا ہے، چنانچہ عمران خان کو وہ سب کچھ کر کے دکھانا پڑے گا جس کا وہ اعلان انہوں نے انتخابی کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں کیا تھا، جس میں صلح کل کی بات بھی تھی اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کا عزم صمیم بھی۔ عمران خان سادگی کو شعار بنائیں، صلح جوئی کی راہ اختیار کریں اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں کہ اسی راہ پرچل کر تمام اندرونی و بیرونی مسائل ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین