• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں ان دنوں تبدیلی یا نئے پاکستان کا نعرہ خوب گونج رہا ہے تبدیلی کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ کائنات کا فطری ارتقا جس نمو کا تقاضا کرتا ہے وہ پت جھڑ کے ساتھ نئی کونپلیں اور نئے برگ و بار بھی لاتا ہے۔’’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ تغیر یا تبدیلی سوسائٹی کے وسیع تر مفاد میں ہے یا محض ایک خوش کن نعرہ ہے ۔ جب مسلم روایتی فکر نے نئی انگڑائی لیتے ہوئے جدیدیت میں قدم رکھا تو پورے مسلم روایتی سماج میں ایک ہل چل بپاہو گئی۔ اس کی بھر پور مثال ترک معاشرت ہے جہاں خلافتِ عثمانیہ کے دوران ہی جدت و قدامت کی محاذ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ یہاں ہندوستان یا جنوبی ایشیاء کے مفکرین میں سر سیدؒ ایسی ہستی تھے جنہوں نے تبھی زور شور اور مدلل اسلوب میں قدامت کے بالمقابل جدت پسندی کی تحریک کو سپورٹ کیا تھا۔ اتاترکؒ نے جب خلافت کا بوریا بستر لپیٹتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو اس کا حقدار ٹھہرایا تو ہمارے روایتی طبقات نے ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے نام سے تادیر بڑا طوفان اٹھائے رکھا مگر اقبالؒ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف کھل کر اتا ترک کی سپورٹ کی بلکہ یہاں تک کہا کہ اب فردِ واحد کی شخصی خلافت نہیں چلے گی اب اس حیثیت یا مقام و مرتبے کی حقدار صرف اور صرف منتخب پارلیمنٹ ہو گی اور خلیفہ کے تمام تر اختیارات اُسی کو حاصل ہونگے۔

اس تاریخی تناظر کو سمجھنے کے بعد اب ہم آتے ہیں وطنِ عزیز میں تبدیلی یا نئے پاکستان کے نعرے کی طرف جو دعوے کی حد تک بلاشبہ قابلِ قدر ہے لیکن بالفعل اس میں نئے پن کی چھینٹ بھی نہیں ہے ۔۔۔کونسا نیا نظریہ یا آئیڈیا آپ نے قوم کو دیاہے ؟ہماری 70سالہ تاریخ تو یہ ہے کہ یہاں منتخب پارلیمنٹ کو آج تک وہ مقام نہیں دیا جا سکا جس کا خواب اقبالؒ ،اتاترکؒ یا جناحؒ صاحب نے دیکھا تھا۔

قصہ مختصر تبدیلی کے خوبصورت نعرے کی ان دنوں وطنِ عزیز میں جتنی تحقیر ہوئی ہے اس سے یہ درویش بہت دکھی ہے ۔۔۔تبدیلی کے نعرے پر تحسین کے ڈنکے تو تب بجائے جاتے اگر کم ازکم آپ روایتی جبر ی فکر کے خلاف دو الفاظ ہی زبان سے نکالتے۔آپ کم ازکم بانی پاکستان کے قریب ہی چلے جاتے جنہوں نے تمامتر مذہبی دباؤ کے باوجود قیامِ پاکستان سے چار روز قبل پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح اعلان فرما دیا تھا کہ’’ اب مملکت میں کسی نو ع کا مذہبی یا نسلی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا آپ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مملکتِ کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا‘‘۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مملکت پاکستان میں اس وقت ہماری روایتی فکر قائد کے اس فرمان کی مطابقت میں ہے ؟تبدیلی تو تب ہوتی اگر آپ اس حاوی روایتی فکر کو بدلنے کے لیے کوئی کاوش کرتے۔آپ یہ اعلان کرتے کہ مذہب کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

کرپشن کے خلاف آپ نے پکڑ دھکڑ احتساب یا دیانتداری کا جو نعرہ لگایا ہے یہ بھی قطعی نیا نہیں ہے 70سالہ تاریخ کے تمام صفحات پلٹ کر دیکھ لیں ہر ڈکٹیٹر نے جب جب آئین شکنی کی اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے نعرے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔ حسین شہید سہروردیؒ جیسے دیانتدار عظیم منتخب سیاستدان کو جب جیل بھیجا جا رہا تھاجنرل ایوب ان کے خلاف میڈیا کے سامنے یہی پروپیگنڈہ کر رہا تھا ۔ جو نیجو کو گھر بھیجتے ہوئے جنرل ضیاء یہی راگ الاپ رہا تھا محترمہ اور میاں صاحب کی منتخب حکومتیں توڑتے ہوئے یہی کہانیاں سنائی جا رہی تھیں اگر کل کی ہارس ٹریڈنگ برُی تھی تو آج کی تبدیلی والی ہارس ٹریڈنگ کو کیا اس لیے اچھا کہا جائے کہ کرنے والا آپ کا دیانتدار نمائندہ امیر ترین ہے ؟

2013کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر احتجاج کرنے اور دھرنے دینے کا وتیرہ اگر درست تھا تو 2018میں اسے ناجائز کیونکر کہیں گے؟کسی بد دیانت کو ٹکٹ نہیں دونگا اور پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں ایلکٹ ایبل قرار دیتے ہوئے ٹکٹوں سے نوازا جائے تو یہ نیا پاکستان کیسے قرار پائے گا؟آپ فرماتے ہیں کہ اگر قیادت ٹھیک ہو تو نیچے خرابی نہیں ہو سکتی ،ذرا اتنی وضاحت فرما دیں جب KPمیں آپ کے بقول آپ کے اپنے بیس ممبران اسمبلی پیسے لے کر بک گئے تھے تو اس وقت دیانتدارقیادت کہاں تھی؟۔۔اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو ’’مہذب‘‘زبان اب تک آپ نے استعمال فرمائی ہے اس حوالے سے نئے پاکستان میں تبدیلی کا ضمیر کیا فرماتا ہے ؟۔اگر آپ نے واقعی تبدیلی لانی ہے تو اس کی پہلی اینٹ یہ ہے کہ تمام طاقتور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے بیس کروڑ عوام کے نمائندہ ادارے پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور یہ عہد کریں کہ آئندہ پارلیمنٹ کی تشکیل عوام کی آزادانہ مرضی سے ہو گی کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین