• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستنصر حسین تارڑ

میں ٹولنٹن مارکیٹ کی چھوٹے گوشت کی دکان پرکھڑا اپنی باری کا انتظارکررہا تھا اورکچھ اس قسم کے ‘‘جذباتی’’سوال ،جواب سن رہا تھا۔

}’ُنسیم بھائی! پہلے میرا قیمہ بنا دیجئے‘‘ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔

’’بہن جی آپ فکر ہی نہ کریں ،میں آپ کا ایسا قیمہ بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گی‘‘۔

’’ذرا جلدی کریں نسیم بھائی‘‘

’’بس آپ کھڑی رہیں، آپ کے کھڑے کھڑے میں آپ کا قیمہ بنادوں گا‘‘۔

’’قیمہ روکھا بناؤں یا موٹا.....‘‘۔

’’روکھا ٹھیک رہے گا لیکن میں ذراجلدی میں ہوں‘‘۔

’’بہن جی یہ قریشی صاحب کا قیمہ ہے یہ والا جو میں کوٹ رہا ہوں اس کے بعد انشاء اللہ آپ کا قیمہ بنے گا‘‘۔

’’نسیم صاحب......مغزچاہیے مل جائے گا‘‘۔ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔

’’کیوں نہیں جناب...... یہ ہمارے لیڈران کرام تھوڑی ہیں بکرے ہیں ان میں بہت مغز ہے ابھی دیتا ہوں‘‘۔

’’اورمیرے گردوں کا کیا ہوا؟‘‘ایک آوازآتی ہے۔

’’یہ والے!‘‘نسیم کا بھائی جو شکل سے ہیرو لگتا ہے، چند گردے فضا میں بلند کرتے ہوئے کہتا ہے،’’ آپ کے گردے ہیں،ابھی نکالے ہیں، بنا کر دیتا ہوں‘‘۔

’’اورمیری ران......‘‘۔

’’یہ رہی آپ کی ران بالکل نرم اورتازہ تازہ‘‘۔

’’اورمیری سری......‘‘

’’ابھی توڑتا ہوں......‘‘

’’ایک صاحب جوآرڈردےکرجاچکےتھے ،واپس آکر پوچھتے ہیں ’’یارابھی تک میرا گوشت نہیں بنایا‘‘۔

’’اوہوآپ یہ بتائیں کہ آپ کی بوٹیاں کیسےکاٹوں، چھوٹی یا بڑی ،میں پانچ منٹ میں آپ کا گوشت بناتا ہوں جناب ،ہم آپ کا گوشت نہیں کاٹیں گے تو اور کس کا کاٹیں گے‘‘۔

بالآخرمیری باری آتی ہے اورمیں ایک مختصرسا آرڈر دیتاہوں۔

’’تارڑصاحب ‘‘،نسیم مسکراتے ہوئےکہتا ہے،’’اتناگوشت توپورےمحلےکے لیےکافی ہوگا کیا کریں گےاتنےگوشت کودیگ پکائیں گے؟‘‘

’’بھائی آپ براہ کرم جگتیں نہ کریں اورگوشت بنادیں.اور یہ والی بوٹی تو اچھی نہیں ہے، یہ نہ ڈالنا‘‘۔

’’یہ والی؟’’وہ بوٹی کواٹھا کراس کی نمائش کرتا ہے‘‘یہ والی تو بڑی جذباتی بوٹی ہے تارڑ صاحب‘‘۔

نسیم اپنےگوشت کےبارےمیں’’جذباتی ‘‘کا لفظ بےدریغ استعمال کرتا ہے۔مثلاً جناب یہ گردہ ملاحظہ کیجئے بالکل جذباتی، یہ چانپ جوآپ دیکھ رہے ہیں،جذباتی ہورہی ہے آہستہ آہستہ یہ ران تو خیر ہے ہی جذباتی ،ویسے میرے پاس غیر جذباتی گوشت بھی ہے لیکن آپ کو مزہ نہیں آئے گا...... وہ سامنے والا بکرا جو لٹک رہا ہے ،وہ شہنشاہ جذبات ہے اور بکری جو ہے، یہ ملکۂ جذبات ہے اس کی ٹانگ پیش کروں؟‘‘

گوشت کے بارے میں کالم لکھناغیرادبی سا فعل ہے لیکن گوشت کی قیمتوں میں یکدم اضافہ ہوگیا ہے اور کہیں سے احتجاج کا ایک لفظ سنائی نہیں دیا...... سگریٹ مہنگے ہوجائیں تو چھوڑ دو چائے، مہنگی ہوجائے تو کم پیو، آٹا مہنگا ہو جائے تو کیک کھا لو لیکن گوشت تو کم نہیں کھایا جاسکتا،مجھے چونکہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی خبر نہ تھی، اس لیے میں نے جیب میں پڑی رقم کے مطابق آرڈر دیا اور پھر بعد میں بل زیادہ بننے پر خوب خوب شرمندہ ہوا۔

چھوٹے گوشت کی مارکیٹ سے باہرآجائیے۔پنجاب پبلک لائبریری کے سامنے بڑے گوشت کی مارکیٹ ہے ،یہاں بھی علم اور گوشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس مارکیٹ کے اندر بھی دکان دار تقریباً ایک ہی علاقے اورایک ہی خاندان سے متعلق ہیں۔ایک مرتبہ میرے والد صاحب جو انتہائی حساس طبیعت کے مالک ہیں، گوشت خریدنے آئے تو قصاب نے ایک بوٹی اٹھا کر کہا’’چودھری صاحب بالکل بچے کی بوٹی ہے بھون کر کھائیے گا مزہ آجائے گا‘‘۔وہ دن اور آج کا دن والد صاحب کبھی بڑا گوشت خریدنے نہیں گئے یہاں پرگوشت کےعجیب وغریب شوقین نظر آتے ہیں،ایسے شوقین جو پلاؤ کے لیے الگ گوشت منتخب کرتے ہیں اور کریلے پکانے کے لیے الگ ان میں وہ حضرات بھی شامل ہوتے ہیں جو صرف سری پایوں کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔

گوشت کھانامسلمانوں کی خاص طورپرپاکستانی مسلمانوں کی فطرت ثانیہ ہے ۔وہ خوشی کا اظہارکرنا چاہے تو بھنا ہوا گوشت کھائیں گے یا شکرانے کے طورپرایک دوبکرے حلال کردیں گے۔اگر فوتگی ہوجائے تو بھی مہمانوں کی تواضع آلوگوشت سے کی جائے گی۔میرے ماموں اللہ بخشے کہا کرتے تھے کہ بالکل گلا ہوا نرم گوشت کس کام کا ،گوشت وہ جو نوچ نوچ کر کھایا جائے ۔

ایک چھوٹا سا قصہ ہے،جس میں گوشت کے بارے میں ہی کچھ بیاں ہے۔ میں اس وقت تقریباً 16۔15 برس کا تھا اور پہلی مرتبہ ولایت جارہا تھا۔ جہاز میں میرے برابر کی نشست پرایک مولانا براجمان تھے وہ خاصے معصوم تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ’’ کیوں چچا جان آپ کس سلسلے میں انگلستان جارہے ہیں‘‘ تو کہنے لگے،’’ بیٹا میں کافروں کو مسلمان کرنے جارہا ہوں ‘‘۔میں نے پوچھا،’’ آپ کو انگریزی آتی ہے؟‘‘ کہنے لگے نہیں ،جس نے مسلمان ہونا ہوگا، اسے خودبخود میری زبان کی سمجھ آجائے گی ‘‘۔ان دنوں ابھی جیٹ مسافربردارطیارے اڑا نہیں کرتے تھے، چنانچہ پنکھوں والا جہاز بڑے مزے سے ہواؤں اور بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتا منزل کی جانب جاتا تھا۔ ہم کراچی سے چلے اور پھر تہران، قاہرہ، ایتھنز وغیرہ میں رکتے روم پہنچے۔ روم میں دو گھنٹے کا رکنا تھا اور ایئر لائن کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسافر حضرات ائیر پورٹ کے ریستوران میں جاکر اپنی پسند کا کھانا تناول فرمالیں۔ بل کمپنی کے ذمہ ہوگا۔ اس اعلان پر مسافر حضرات بے حد خوش ہوئے۔ میں بھی خوش ہوا اور مولانا تو بے حد خوش ہوئے ،کیونکہ ہمیں شدید بھوک لگی تھی۔

ریستوران میں بیٹھے تو ایک خوبرو اطالوی خاتون ہاتھ میں مینو پکڑے ہمارے قریب آگئی،مولانا کھانسے اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ،میں چونکہ ابھی بچہ تھا اس لیے مجھے کھانسی بالکل نہ آئی۔ میں نے اپنے لیے ایک عدد روسٹ چکن ‘‘مولانا آپ کیا کھائیں گے؟’’میں نے اپنے مسافرچچاجان سے‘‘پوچھا’’اس گوری گوری لڑکی سے کہو کہ میرے لیے صرف ابلی ہوئی سبزیاں لے آئے کیونکہ گوشت تو یہاں پرحلال نہیں ہوگا‘‘انہوں نے منہ بنا کر کہا۔

میں نے تو اس معاملے کے بارے میں غور نہیں کیا تھا کہ یہاں گوشت کس قسم کا ہوتا ہے اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی بہرحال میں نے ان کا آرڈر بھی دے دیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد ویٹرس ہماری خوراک لے آئی...... ایک ٹرالی میں میرا روسٹ مرغ ابھی تک روسٹ ہو رہا تھا اس کی خوشبو پورے ریستوران میں پھیلی تھی، مرغ کے گرد، انڈے اور آلو کے قتلے اور سلاد وغیرہ بہاردکھا رہے تھے۔ یہ سب کچھ میرے آگے رکھ دیا گیا......پھر ویٹرس واپس گئی اورایک چھوٹی سی پلیٹ لاکر مولانا کے آگے رکھ دی۔اس میں ایک ابلی ہوئی گاجراورایک دو آلو تھے۔ سفری چچا جان نے گاجریں کھانے کی کوشش کی لیکن ان کی نظریں میرے روسٹ مرغ پر سےہٹائے نہ ہٹ رہی تھی۔میں مزے سے کھاتے جارہا تھا اور وہ مجھے دیکھے جارہے تھے، بالآخرانہوں نے گرج کر کہا ،’’برخوردار‘‘۔

’’جی جناب ‘‘میں نے گھبرا کرجواب دیا۔

’’یہ ہوٹل والی زنانی کو کہو کہ میرے لیے بھی یہی مرغ لے آئے یہ شکل سے حلال لگتا ہے‘‘۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گوشت کھانے کے شوق میںہم بعض اوقات اپنی مسلمانی کو بھی خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔

لاہور کے ایک بہت ہی معروف ڈاکٹر صاحب اکثر بازار جاکر ایک بکرا خرید لاتے۔ گھر جاکر اسے خود ذبح کرتے ،گوشت بناتے خود ہی بھونتے اور پھر اپنے بیٹوں کے ہمراہ ایک ہی نشست میں اسے نوش کرجاتے ...... موصوف فرمایا کرتے تھے کہ گوشت ہونا چاہئے۔ چاہے گدھے کا ہی کیوں نہ ہو۔

میں نے مکان بنایاتوایک مزدورتقریباً روزانہ شام کو مزدوری کی رقم وصول کرتا اس کا گوشت خریدتا اور بھون کر کھا جاتا۔ میں خود اگرچہ کھانے پینے کا بہت زیادہ شوقین نہیں ہوں لیکن گوشت کھائے ہوئے اگر دو چار دن گزر جائیں تو جمائیاں آنے لگتی ہیں، دنیا بے رنگ نظر آنے لگتی ہے اور اپنے مسلمان ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے لیکن اب تو قیمت زیادہ ہونے سے ایسا لگ رہا ہے کہ قیمہ بکرے کا نہیں ہمارا اپنا بن رہا ہے، ہمارے گردے نکالے جارہے ہیں اور مغز کھایا جارہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہم گوشت کی دکان پر جاکر قصائی کے آگے لیٹ کر کہیں گے ‘‘براہ کرم میرا قیمہ بنا دیجئے‘‘۔

تازہ ترین