• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حقیقی مُسرّتیں دھن دولت کی محتاج نہیں ہوتیں۔ حقیقی خوشیاں انسان کے اندر سے پھوٹتی ہیں اور روشنی بن کر ہر طرف بکھر جاتی ہیں۔ تاہم مادّہ پرستی کے دور میں لوگ حقیقی مُسرّتوں کے لیے ترستے نظر آتے ہیں۔ ذوالحج کا مہینہ مسلمانوں کے لیے روحانی مُسرّتیں لے کر آتا ہے اور حج کے ساتھ عیدالاضحی کا تحفہ دےکر جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے عیدالاضحی کا تہوارمُسرّت اور شادمانی کا پیغام بن کر آتا ہے، لیکن اسے کیا کہا جائے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق اور اقتصادی ناہم واری ان خوشیوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کردیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مادّہ پرستی کا بڑھتا ہوا رُجحان اور نمود و نمائش کی خواہش نے بہت کچھ بدل دیاہے، لیکن پرانے لوگ اپنا دور یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا وقت گزارا۔انسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے آج خود اسے ہی مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ وہ دین جو ہر طرح کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ہے،آج اُس کے ماننے والے بھی مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ امیروں اورغریبوں کے درمیان فرق پاکستان میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں غریبوںکے لیے عیدالاضحی کے موقعے پر قُربانی کرنا تو دور کی بات ہے، وہ تو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان رہتے ہیں۔پاکستانی میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ اور اتنی نچلی سطح تک نہیں تھی، جتنی آج ہے۔چناں چہ اس برس بھی بڑی تعداد میں ہم وطن عیدِ قرباںپربہت سی خوشیوںاور لذّتوںکےلیےترستے رہیںگےاور دوسری جانب تِکّے اور کباب بن رہے ہوںگے۔

جانور اتنےمنہگے کہ قربانی مشکل

عید الاضحی جہاں خوشیوں کا باعث ہے وہیں ہر برس کچھ مسائل بھی اپنے ساتھ لاتی ہے ۔اس برس بھی کہا جارہا ہے کہ منہگائی نے بہت سو ں کو قربانی سے روکے رکھا۔ جو لوگ ہر سال انفرادی طورپرجانورقُربان کیا کرتے تھے ان میں سے بہت سے افراداس بار اجتماعی قربانی میں حصہ لے رہے ہیں۔ناگن چورنگی کے رہائشی محبوب احمد کئی برس سے انفرادی طورپرجانور خریدتے تھے ،مگر اس برس وہ بھی منہگائی کا سُن کر اجتماعی قربانی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق جانور منہگا کرنے میں ذرایع ابلاغ بہت غلط کردار اداکرتے ہیں۔منڈی لگتے ہی خبریں آنے لگتی ہیں کہ خریداروں کے مقابلے میں جانور کم ہیں،اس لئے مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ایسی خبریں سُن کربہت سے افرادمنڈی جانے کا خیال دل سے نکال دیتے ہیں اور اجتماعی قربانی پر اکتفاکرلیتے ہیں۔

سرفراز نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ گھر میں تین لوگ کمانے والے ہیں،پھر بھی بڑھتی ہوئی منہگائی کی وجہ سے صرف بچوں کی تعلیم اور ان کا پیٹ پالنے کا بندوبست ہی کیا جا سکتا ہے ۔اس لیے عید الاضحی پر قربانی کرنا ہمارے لیے ایک خواب بن چکا ہےاور عیدکے روزبھی ان کے والد ٹیکسی چلانے پر مجبور ہیں ۔سرکاری ملازم خورشید کا کہنا تھا کہ جانوروں کی قیمت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم قربانی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق چندبرس قبل تک عید الاضحی کے موقعے پر وہ اہلِ خانہ سمیت اپنے گاؤںچلے جاتے تھے، لیکن اب کرایوں میں بے حد اضافے کی وجہ سے یہ بھی نا ممکن ہو گیا ہے ۔

اجتماعی قُربانی میں حصہ لینا بھی اب آسان نہیں رہا

ان کے بہ قول تقریباً پچّیس برس سے وہ سرکاری ملازمت کر رہے ہیں پھر بھی ان کی تنخواہ سترہ ہزارروپے ہے جس سے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کو پالنا مشکل ہے ۔ انہوں نے بچوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اچھے وقتوں میں عید کے روز جب گھر میں قربانی کی جاتی تو کافی گہما گہمی ہوا کرتی تھی جس سے بچے بھی خوش ہو جاتے تھے ۔ لیکن آج بچوں میں سے کوئی کسی دوست کی طرف تو کوئی پارک میں سیر کے لیے گیا ہوا ہے ۔

سرکاری ملازم خورشید کے گھر سے تھوڑی ہی دور چند افراد ایک گائے کے گرد ے جمع تھے۔وہاں کھڑے محمد زین کا کہنا تھا کہ اس گائے کےحصے داروں میں سارے سرکاری ملازم ہیں اور زیادہ تر قربانی کے جانور کے لیے پہلے سے ہی پیسے اکٹھے کرنا شروع کر دیتے ہیں تب کہیں جا کراجتماعی قُربانی میں حصہ لینےکے قابل ہوتے ہیں ۔ ان کے مطابق منہگائی کے دور میں بہت سے ایسے سرکاری ملازمین ہیں جن کے لیے اجتماعی قربانی میں حصہ لیناتوایک طرف، تین چار سو روپے ماہانہ بچت کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔

پیشے کے اعتبارسے قصّاب،جہاں زیب پانچ ساتھیو ں کے ساتھ حیدرآبادسے کراچی آئےہوئے ہیں ۔ان کے مطابق پچھلے سال ان کی ٹیم نےدس سے بارہ جانو ر ذبح کرکے ان کا گوشت بنایا تھا، لیکن اس مرتبہ ایک تو کم لوگوں نے قربانی کا ارادہ کیاہے،دوم جن لوگوںنے قُربانی کا اہتمام کیاہےان میںسےبہت سے پیسے بچانےکے لیے خود ہی جانور ذبح کر کے گوشت بنا نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بیش قیمت جانوروں کی قربانی

ایک جانب غریب ہیں اور دوسری جانب عیدالاضحی کے موقعے پر قربانی کے بعض جانور اور ان کے خریدار ذرایع ابلاغ کی خصوصی توجہ کا مرکزبنتے ہیں۔کسی جانور کے بارے میں خبر آتی ہے کہ وہ میوے، مکھن اور جلیبی کھاتا اور دودھ پیتا ہے، توکسی کے بارے میں اطلاع ملتی ہے کہ وہ چارپائی پر بیٹھتا اور صرف اپنے پالنے والے کے ہاتھ سے کھاتا پیتاہے۔ ایسے جانوروں کے نرخ دیگر جانوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیِں جو عموماً چار،پانچ لاکھ روپے سے شروع ہوکردس ،بارہ لاکھ روپے تک ہوتے ہیں۔ انہیں خریدنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مال دار افراد ہوتے ہیں، جو بہت خوب صورت، صحت مند اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی قربانی کا شوق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے شہر کی تمام مویشی منڈیاں اور کیٹل فارمزجاتے ہیں اور بعض افراد دیگر صوبوں اور شہروں تک کا سفرکرتے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد عیدالاضحی سے کئی ماہ قبل اچھے جانوروں کی تلاش شروع کردیتے ہیں اور اپنے مطلب کا جانور ملنے پر اس کا سودا کرلیتے ہیں اور بعض ایک ہفتہ یا ایک ماہ قبل تلاش کا کام شروع کرتے ہیں۔

ایسے بیش قیمت جانور خریدنے والوں کی طرح انہیں دیکھنے کے شوقین افراد کی بھی کمی نہیں اور خریداروں کی طرح وہ بھی اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کافی فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ایک جانب یہ شوقین ہیں اور دوسری جانب ان کے ناقدین ہیں۔ ناقدین کے مطابق کچھ عرصے سے بیش قیمت جانوروں کی قربانی فیشن بنتی جارہی ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ مقابلہ ہونے لگاہے۔ چناں چہ اب بہت سے افراد شہرت حاصل کرنے اور اپنی دولت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے جانور خریدتے ہیں جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔ ممکن ہے کہ ایسے بعض افراد کے بارے میں یہ رائے درست ہو، لیکن بیش قیمت جانوروں کی قربانی کرنے والے ہر شخص کے بارے میں یہ بات درست نہیں کہی جاسکتی۔

کراچی میں بیش قیمت جانور کی قُربانی کے ضمن میں ایک نمایاں ترین شخصیت کے مطابق ان کے خاندان میں ان کے بچپن سے قربانی کے لیے ہمیشہ خوب صورت اور صحت مند جانور خریدا جاتا رہا ہے اور اس ضمن میں خوب سے خوب تر کی تلاش ہوتی تھی۔ وہ جب بچّے تھے تو والد کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے جاتے تھے۔ وہ آج جس معیار کے جانور خریدتے ہیں ان کے والد بھی اسی معیار کے جانور خریدتے تھے۔ پھر انہوں نے وہ وقت دیکھا جب بعض گھروں میں قربانی کے نام پر کسی ادارے میں پیسے دے کر حصہ لے لیا جاتا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قربانی کا مقصد اور اس کا ماحول، پس منظر میں چلا گیا ہے اور گھر کے بچّوں کو عیدالاضحی کے موقعے پر یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ قربانی کا فلسفہ اور مقصد کیاہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے۔ مال دار گھرانوں میں لوگ کتّے اور بلّیاں بہت پیار سے پالتے ہیں اور ان کی بہت خدمت کی جاتی ہے، لیکن قربانی کے لیے خاص اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔یہ محسوس کرکے انہوں نے قربانی کے لیے پہلے سے زیادہ اہتمام کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے گھر، خاندان اور محلے کے بچّوں میں قربانی کے بارے میں زیادہ دل چسپی پیدا ہورہی ہے۔ اب خاندان کے بچّے سارا سال بہت شوق سے عیدالاضحی کا انتظار کرتے ہیں اور قربانی کا فلسفہ ان کی سمجھ میں آگیا ہے۔

ان کے مطابق قربانی کا فلسفہ محبوب ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا قربانی کا جانور اتنا خوب صورت اور صحت مند ہونا چاہیے اور اس سے ہمیں اتنی انسیت ہونی چاہیے کہ جب اس کے گلے پر چھری پھیری جائے تو ہمیں اس کا دکھ محسوس ہو۔ پہلے قربانی کے جانور صرف بھینس کالونی یا بکرا پیڑی میں ملتے تھے، لیکن جب سے صاحبِ حیثیت افرادنے خوب صورت، صحت مند اور بیش قیمت جانور خریدنے شروع کیے ہیں، سپر ہائی وے پر بہت سے کیٹل فارمز میں اور مختلف شہروں اور علاقوں میں لوگ گھروں میں بہت محنت سے اچھے جانور پالنے لگے ہیں۔ لوگوں کی قوتِ خرید بڑھنے کی وجہ سے اب ملک میں منظم اور سائنسی انداز میں جانوروں کی افزائش اور پرورش ہونے لگی ہے۔ سپرہائی وے پر واقع بعض فارمز میں اب ہر سال قربانی کے لیے 100 خوب صورت، صحت مند اور اچھی نسل کی گائیں اور بیل پالے جاتے ہیں۔ ان میںسے ہر جانور کی اوسط قیمت کم ازکم تین،چار لاکھ روپے ہوتی ہے اور بعض 8 تا10 لاکھ روپے کے ہوتے ہیں۔اپنی پسند کے خانور خریدنے کے لیے وہ اس شعبے کے افراد سے رابطے میں رہتے ہیں اور انہیں عیدالاضحی قریب آنے تک یہ اطلاع مل جاتی ہے کہ ان کے مطلب کے جانور کہاں کہاں موجود ہیں۔ وہ کسی خاص نسل یا علاقے کے جانور خریدنے کو ترجیح نہیں دیتے،بلکہ جو جانور ان کے دل کو بھا جاتا ہے خرید لیتے ہیں۔ البتہ ان کے مطابق آسٹریلین نسل کے بیل بہت صحت مند اور قد آور ہوتے ہیں، سبّی (بلو چستا ن ) کے بیل اور ساہیوال کی گائیں بھی بہت اچھی ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق بیش قیمت جانور خریدنے والے مادہ کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیوں کہ بیل کو پال پوس کر خوب صورت بنانا کوئی خاص فن نہیں سمجھا جاتا اور یہ کام بہت سے افراد کرلیتے ہیں۔ لیکن گائے کا جسم خوب صورت بنانے کے لیے اس پر بچپن سے بہت محنت کی جاتی ہے ۔ وہ عموماً عیدالاضحی سے دس یوم قبل جانور خریدتے اور اسے اپنے گھر کے سامنے لاکر باندھتے ہیں‘ جہاں ان کے لیے شامیانہ لگایا جاتا ہے۔

بیش قیمت جانوروں کی قربانی کرنے والے بعض افراد کے مطابق بعض افرادان پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ دکھاواہے، لیکن ان کے لیے یہ شوق ہے اور لوگ اپنے شوق کی خاطر ان کے جانور دیکھنے آتے ہیں۔اگر پاکستان میں مذبح ہوتے اور وہاں قربانی کرنے کا رواج ہوتا تو وہ کبھی قربانی کے جانور گھر کے سامنے نہیں با ند ھتے ۔وہ لوگ غریبوں کی مدد حیثیت کے مطابق سارا سال کرتے رہتے ہیںاور قربانی کا جانور خریدتے وقت وہ سستے اور منہگے جانوروں کا خیال دل میں نہیں لاتے۔یہ پسند اور شوق کی بات ہے۔ اگر کبھی کوئی جانور خریدنے کے بعد اس میں کسی شرعی نقص کی نشان دہی ہوجائے تو اسے عیدالاضحی سے قبل ذبح کردیا جاتا ہے۔ان افراد کے بہ قول انہوں نے کبھی کسی سے مقابلہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچااور وہ یا ان کے خاندان کا کوئی فرد کبھی کسی کا جانور دیکھنے کے لیے خاص طور پر کہیں نہیں جاتا۔

پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا

پی ای سی ایچ ایس میں رہایش پزیر سیکنڈری اسکول کی ایک ریٹائرڈ استانی، مہ جبیں کے بہ قول پہلے عید ،بقر عید کی خوشیوں میں دولت اور ثروت کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ اب ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے۔غریب روپے، پَیسےسے مجبور ہے اور امیر دھن دولت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہر خوشی پَیسوں سے خریدی جا سکتی ہے، چناں چہ خوشیاں خریدنے کے لیے لوگوں کو دولت کمانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اب محبّت اور خلوص کو روپے پَیسے کے ترازو میں تولا جاتاہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اُن کے بہ قول پہلے لوگ لباس، فرنیچر اور کھانے کی ڈشیں نہیں دیکھتے تھے۔

ایک غیر ملکی بینک میں کام کرنے والے تاشفین احمد کے مطابق پاکستان میں ایک دین کے ماننے والے عید الاضحی کا تہوار یک ساں نہیں، بلکہ دو طرح سے مناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طبقہ اُس روز اپنی دولت اور شان کا مظاہرہ کرتا ہے اوردوسرا اُس روزمہمانوں کی تواضع کے لیے پکوان تیار کرنا تو کجا، اپنا پیٹ بھرنے کے لیے متفکّر دکھائی دیتاہے۔ تاہم ہر امیر اسراف نہیں کرتا اور بہت سے امیر اُس روز اپنے غریب بھائیوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ پھر بھی عید لاضحی طبقات میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔

غریبوں کو یاد رکھنے والے

یہ درست ہے کہ بہت سے صاحبانِ ثروت اُس روز بھی غریبوں کو یاد رکھتے ہیں۔ منگھوپیر میں واقع جذام کے سرکاری اسپتال میں ہر برس عیدالاضحی کے موقعے پر بعض افرادرازداری کے ساتھ معاشرے کے دھتکا ر ے ہوئے لوگوں کے لیے خوشیاں کا سامان کر جاتے ہیں۔ ایک شخص ہر برس عیداور بقر عید سے قبل اسپتال میں داخل بہت سے افراد کے لیے کپڑوں کا بندوبست کر دیتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ شخص خاموشی کے ساتھ اسپتال آتاہے اور نیکی کر کے چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اوجھا سینی ٹوریم میں ہر برس عیدالاضحی کے موقعے پر ایک شخص چُپ چاپ آتا ہے اور مریضوں میں گوشت سے بنے طرح طرح کے پکوان،پھل اور مٹھائیاں تقسیم کر کے چلا جاتا ہے۔ بعض مریضوں کے مطابق تقریباً دس برس قبل تک وہاں ایک شخص ہر تہوار کے موقعے پر آتا اور مریضوں میں نقد رقم تقسیم کر کے خاموشی کے ساتھ چلا جاتا تھا، لیکن اب وہ نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ سینٹرل جیل کراچی میں تعینات رہنے والے پولیس اہل کار، اعجازدرّانی کے مطابق اُن کی جیل میں تعیناتی کے دوران عید، بقر عید کے موقعے پر ایک شخص جیل میں قید بچّوں کے لیے بہت سی اشیاء لے کر آتااورکچھ وقت اُن کے ساتھ گزارتا تھا۔ وہ غبارے، کھلونے، مٹھائیاں، کپڑے، چپلیں،مختلف پکوان، وغیرہ اپنے ساتھ لاتا اور بغیر کسی تفریق کے انہیں بچّوں میں تقسیم کر دیتا۔ اِس موقعے پر اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری رہتے تھے۔ بہ ظاہر وہ دنیا دار شخص نظر آتا، لیکن حقیقتاً وہ بہت سے دین داروں سے زیادہ دین دار تھا۔ اُس کے بارے میں جیل کے عملے کو صرف اتنا معلوم تھا کہ اُس کا کاروبار کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور اللہ نے اسے اولاد سمیت ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔

جناح اسپتال کراچی کے کینسر وارڈ میں زیرِعلاج رہنے والے کفیل احمد نامی شخص کے بہ قول 1998ء میں وہ اسپتال میں داخل تھے۔ اس دوران عید االا ضحی آ گئی۔ عید کے دن ایک اجنبی شخص ان سے ملنے آیا۔ اُس نے نہایت نفیس کپڑے پہن رکھے اور بہت عمدہ خوش بو لگائی ہوئی تھی۔ وہ خوش شکل اور خوش گفتار آدمی ان کےپاس آ کر ان سے اس طرح حال،احوال دریافت کرنے لگا، جیسے وہ انہیں برسوں سے جانتا ہو۔یہ سمجھے کہ وہ ڈاکٹرہے، لہٰذا انہوں نے اُس سے اُس کا نام پوچھا اور نہ اس نےاپنا تعارف کرایا۔ وہ شخص چند منٹ تک ان کے بسترکے قریب کھڑا باتیں کرتارہا اور پھر رخصت ہو گیا۔ اُن دنوں علاج معالجے اور بیماری کے باعث کوئی کام نہ کرنے کی وجہ سے کفیل احمدمالی پریشانیوں کا شکار تھے، لیکن یہ بات صرف ایک ڈاکٹر اور ایک ساتھی مریض کو معلوم تھی۔ قصّہ مختصر، اُس شخص کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نےاپنےتکیے کے نیچے رکھا ہوا ڈائجسٹ نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، توانہیںوہاں کوئی لفافہ رکھا ہوا محسوس ہوا۔ انہوں نے فوراً تکیہ الٹ کر دیکھا، تو وہ خاکی رنگ کا ایک لفافہ تھا، جسے گوند لگا کر بند کیا گیا تھا۔ اُس پران کانام واضح انداز میں لکھا ہواتھا۔ کچھ سوچ بچار کرنے کے بعد انہوںنے لفافہ کھولا تو اُس میں ایک خط، چند نوٹ اور ایک چَیک رکھا ہوا تھا۔ خط میں لکھا ہوا تھا:

’’عیدالاضحی خوشیوں کا نام ہے۔ آپ غم کے ساتھ عید نہ منائیں۔ اللہ آپ کے لیے خوشی کے اسباب پیدا کر دے گا۔ بندے ہی بندے کے کام آتے ہیں۔ یہ چَیک زکوٰۃ، صدقے، خیرات یا فطرے کی رقم نہیں ہے۔ آپ لگ کر علاج کرائیں۔ جب میری خدمت کی ضرورت محسوس ہو، خط میں درج فون نمبر پر مجھ سے رابطہ کر لیجیے گا۔ اِس لفافےکا ہرگز کسی سے ذکر نہ کیجیے گا اور اگر چاہیں تو میرے اور میرے والدین کے لیے کبھی دعا کر دیجیے گا‘‘۔ وہ چَیک اسپتال کے قریب واقع ایک بینک کا تھا۔ اُس پر ایک لاکھ کی رقم درج تھی۔ اِس کے علاوہ لفافے میں تین ہزار روپے کے کرنسی نوٹ موجود تھے۔ اس روز کے بعد کفیل احمدنے اُس شخص کو بہت ڈھونڈا، لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ خط پر درج فون نمبر پر جب بھی فون کیا، تو سوال کیا گیا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے بول رہے ہیں اور کیا آپ کی شناخت خاکی لفافہ ہے؟ یہ سن کر ہر مرتبہ انہوں نے فون بند کر دیا، لیکن پھر ایک مرتبہ اِس سوال کا اثبات میں جواب دیا، تو کہا گیا کہ اپنی موجودگی کے مقام سے مطلع کر کے اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائیں، اللہ بہتر کرے گا۔

کفیل کے مطابق وہ ایک خوددار شخص ہیں اور اُن کی ضرورت چوں کہ کسی حد تک پوری ہو گئی تھی، لہٰذا اُنہوں نے اپنی موجودگی کے مقام سے اُس شخص کو مطلع نہیں کیا اور نہ دوبارہ اس نمبر پر فون کیا۔ بعد ازاں انہیںپتا چلا کہ اس وارڈ میں بعض دیگر افراد کے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ اس وارڈ میں اکثر ایک ایسا اجنبی بھی آتاہے، جو مریضوں کے تکیے کے نیچے نقد رقوم رکھ کر چلا جاتا ہے۔

خیر کچھ بھی کہہ لیجئے ۔۔۔ عیدالاضحی تو مُسرّتوںکا موقع ہے۔ گھر کے بڑے، بوڑھے جہاں قُربانی سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کررہے ہیں وہیںبچے ان سب باتوں سے بیگانہ ہوکر یہ سوچنے میں مگن ہیں کہ کس کا جانورذبح ہوچکا ہے،کس کا ٹہل چکا ہے اور کس کا ابھی ذبح ہونا اور ٹہلانا باقی ہے۔ آج کل جانوروں کو ٹہلانا ان کا محبوب مشغلہ جو ٹھہرا۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ ایک دو روز میںاس وقت تک سب جانورگُم ہوجائیں گے ۔ہاں البتہ کئی راتیں پھر رونق والی ہوںگی ۔بہت سے گھروں میں دوپہرکے کھانے میں گوشت والےپکوانوں کی بھر مار ہوگی تو رات کو گھر گھر باربی کیو کی محفلیں سجی ہوں گی۔ گھروں میں قریبی رشتے داروں کا آنا جانا لگا ہوگا۔ شامی کباب ، گولہ کباب، ریشمی کباب، سیخ کباب، چپلی کباب ، تکہ بوٹی ، ملائی بوٹی۔۔۔ اور نہ جانے کون کون سے کبابوں کی خوشبوئیں اٹھ رہی ہوں گی۔

خیر و شر اورغربت اور امارت اپنی جگہ، اصل بات معاشرتی رویّوںکی ہوتی ہے۔اگرمعاشرتی رویّے مناسب ہوں، تو غربت گالی نہیں بنتی اور امارت زندہ رہنے کا لائسنس قرارنہیں پاتی۔ اگر عید،بقر عیدخوشیاں بانٹنےکے تہواروںکے طور پر منائی جائیں تو اُس روز پاکستان میں ہر چہرے پر مسّرت کے رنگ ہوں۔

تازہ ترین