• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو ہونے جا رہا تھا، وہ ہو کے رہا، چاہے کوئی کیسے ہی چلّائے۔ ہمارے کرکٹ ہیرو، رفاہی مسیحا، بلا کے توانا اور پختہ دم عمران خان پاکستان کے وزیراعظم کے منصب پہ براجمان ہوئے۔ اب اُن کی باری شروع ہوئی۔ ان کی کامیابی کے لیے دُعا اور جمہور و جمہوریت کے لیے دُعائے خیر۔ یہ وقتِ قیامت تو نہیں وقتِ قیادت (فرائیڈئین سلپ کے باوجود) ضرور ہے۔ قومی اسمبلی نے اُن کے انتخاب پہ ایسا ہنگامہ البتہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ اپوزیشن تو شور مچایا کرتی ہی ہے اور اس بار مبینہ دھاندلی پہ اُس کا غضب کچھ زیادہ ہی تھا۔ لیکن حکومتی بنچوں نے وہ کر دکھایا جو مسلم لیگ ن چاہتی تھی۔ ہنگامہ! یہاں تک کہ اپنی کامرانی پہ مسرور عمران خان ایسے مشتعل ہوئے کہ ویسی ہی آگ بگولا تقریر کر ڈالی جو وہ کبھی بطور اپوزیشن لیڈر ڈی چوک پر کنٹینر پہ کھڑے کیا کرتے تھے۔ عمران خان کا چوروں ڈاکوؤں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا تھا کہ ہمارے صلح جو قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے بھی ایک زور دار جوابی تقریر کر ڈالی۔ قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں جو ہنگامہ بپا ہوا اور جس شدتِ جذبات کا اظہار کیا گیا وہ اِس اسمبلی کے تشویشناک مستقبل کی غمازی کرتا ہے۔ سطحی اور سفلی سیاست کے شور میں کوئی دانشمندانہ اور فکر انگیز آواز سنائی بھی دی تو قومی اسمبلی میں نووارد بلاول بھٹو کی نہایت نپی تُلی تقریر تھی اور ایسی کہ ہر طرف سکوت طاری ہو گیا اور حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ پارلیمانی سیاست کا کیا سلیقہ ہو یہ اس نوجوان نے اپنے سے بڑوں کو سکھلانے کی کوشش کی۔

توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ عمران خان اپنے انتخاب پہ کچھ ویسی ہی تقریر کریں گے جیسی کہ اُنہوں نے انتخابی کامیابی کے بعد کی تھی اور جس کی توصیف ہر کسی نے کی۔ مگر اپوزیشن نے ’’ووٹ چور‘‘ ’’ووٹ چور‘‘ کا ایسا شور مچایا کہ کپتان نے جواب آں غزل کے طور پر وہی بیانیہ دہرا دیا جو وہ گزشتہ سالوں میں تمام بڑی جماعتوں کے بڑے لیڈروں کے حوالے سے کرتے رہے تھے۔ ’’کسی چور کو چھوڑا نہیں جائے گا‘‘، ’’ہر کسی کا احتساب ہوگا‘‘ اور ’’لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی‘‘۔ بھلے یہ افتتاحی تقریر کیسے ہی ردّعمل میں کی گئی ہو، ’’دھاندلی دھاندلی‘‘ کے نعروں کے جواب میں غالباً وزیراعظم عمران خان کا یہی بیانیہ ہوگا اور اُن کی حکومت کا پہلا ایجنڈا بھی، جو پہلے ہی سے طے شدہ ہے۔ عمران خان کے نوجوانوں کے حلقۂ انتخاب کی سب سے بڑی آرزو بھی یہی ہے۔ لگتا ہے کہ عمران خان کنٹینر سے ابھی نہیں اُترے، حالانکہ اب اُن کا احتساب شروع ہو چکا۔ اب وہ حکومت کو ڈھانے والے نہیں، حکومت کو چلانے والے بن گئے ہیں۔ اور صبح شام اُن سے سوالوں کی بھرمار ہوگی۔ یہ کیا کیا، وہ کیوں کیا، یہ کیوں نہ ہوا اور اس کا کیا ہوا؟؟ اور وہ کب تک ماضی کے گناہوں کا عذر پیش کر پائیں گے جبکہ اُنہوں نے عوام کی توقعات کے جنوں کو بوتلوں سے آزاد کر دیا ہے۔ اُن کے چاہنے والے اور عوام کی بہت بڑی تعداد واقعی اُن کی ’’تبدیلی‘‘ کے عصائے تجلی کے کرشمات کی بے چینی سے منتظر ہے۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدل دینے اور ’’تبدیلی آئی نہیں، آ گئی ہے‘‘ کو دیکھنے کے لیے کروڑوں آنکھیں منتظر ہیں۔ اُمیدوں کی اُمید کو بہلانا مشکل ہے۔

انقلابِ انصافیاں کی گرج چمک کیسے ہی ہو، یہ قبل از اور بعد از ووٹنگ کی دھاندلی کے الزامات میں گہنا گئی ہے۔ اور جب قومی اسمبلی میں ووٹ پڑے تو عمران خان کو صرف 176 ووٹ ملے اور ساتھ ہی ایم کیو ایم والوں کی پھبتی بھی کہ اگر اُن کے سات ووٹ نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ عمران خان کا انتخاب بڑی ہی معمولی اکثریت سے ہوا ہے جو آدھ درجن سے زاید حلیفوں کے رحم و کرم پر ہوگی۔ جب 2008ء میں وزیراعظم کا انتخاب ہوا تھا تو یوسف رضا گیلانی کو 264 ووٹ ملے تھے اور نواز شریف نے بھی 2013ء میں 244 ووٹ لیے تھے۔ اُن کے مقابلے میں جمہوری عبور کی یہ تیسری حکومت کافی نازک اندام ہوگی۔ اوپر سے دو سروں والی اپوزیشن لیفٹ رائٹ سے حملہ آور بھی۔ پیپلز پارٹی کے شہباز شریف کے بطور وزیراعظم اُمیدوار پہ متفق نہ ہونے سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں موثر اپوزیشن ثابت ہوں گی۔ لیکن اپوزیشن کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو ریاستی ایجنڈا کچھ برسوں سے اُبھر کر سامنے آیا ہے، عمران خان اُسی کے امین ہوں گے۔ یہ ایک بہت طاقتور مخلوط مقتدرہ ہو گی اوپر سے عمران خان کے پاپولزم کی طاقت بھی ہوگی ۔ احتساب کا عمل جس طرح پھیل رہا ہے، وہی عمران کی منشا بھی ہے اور ریاستی حکمتِ عملی کا جو بدلتا رُخ ہمیں نظر آ رہا ہے وہ عمران خان زیادہ موثر طریقے سے آگے بڑھا پائیں گے۔ لیکن عمران خان کے لیے بڑا چیلنج اُن کا تبدیلی کا ایجنڈا ہے جس کا اطلاق اُن پر اور اُن کی ٹیم پر بھی ہوتا ہے اور تمام اداروں کے طرزِ حکمرانی پر بھی۔ یہاں جو بڑا سوال اُٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک پاپولر وزیراعظم جتنا عوام کو جوابدہ ہے، اُس سے زیادہ بااختیار ہونے کا حقدار ہوگا، جبکہ ایسا کرنے کی کوشش میں گزشتہ وزرائے اعظم کی بساط کم ہوتے ہوتے لپٹ گئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اُن کے عوامی دعوے اور بھی عظیم الشان ہیں۔ ایک بڑا مالیاتی اور مالی بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے اور پہلے سے بھی بڑے کشکول کا متقاضی۔ پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ پر پہنچنے کو ہے، دُنیا میں یکا و تنہا ہے۔ پھر انتظامی، عدالتی اور اداراتی اصلاح کا وسیع ایجنڈا ہے اور اوپر سے 100 روز کے عوامی اعلانات کے وعدے، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر، یہ سب کچھ معیشت کے عالمِ نزاع میں کیا جانا ہے۔ ابھی تک جو لوگ مختلف عہدوں پہ لگائے گئے ہیں، اُن ہونہار برواؤں کے چکنے چکنے پات ابھی ہی دُور سے نظر آ رہے ہیں۔ عیسیٰ خیلوی کے ترانوں نے جلسوں میں جو رنگ جمایا تھا اور جس طرح مایوس نوجوان ایک نئے مسیحا کی جانب بڑھے تھے، آج وہ مسیحا وزیراعظم ہاؤس میں ہچکچاہٹ کے باوجود جلوہ گر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے جلوے دکھانے کا پورا موقع دینا چاہیے۔ وزیراعظم ہاؤس میں رہنے کی خفت کو ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہنے سے دُور نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی گورنر ہاؤسز کی دیواریں گرانے سے عوام کی اُمنگوں کا پیٹ بھرنے والا ہے۔ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا کام جوئے شیر لانا ہے۔ اور جو ملنا بھی ہے اس سے خسارہ پورا ہونے کو نہیں۔ خیرات کے پیسوں سے دو چار اسپتال تو بن سکتے ہیں حکومتی اخراجات اور مالیاتی خسارے پورے ہونے کو نہیں۔ تحریکِ انصاف کو اب مضحکہ خیز معاشی ٹوٹکوں کی بجائے سنجیدہ ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو اچھی حکمرانی کے لیے دو چار بڑے اچھے افسر کافی نہیں۔ چٹکیوں میں مسائل حل کرنے کی شعبدہ بازی عوام کو متوجہ کرنے کے لیے تو کبھی کبھار کارآمد ہوتی ہے لیکن سنجیدہ مسئلوں کے حل کے لیے ان پر انحصار کرنا طفلانہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کی بڑی حمایت متوسط طبقے کے نوجوانوں میں ہے جو اُن کی محبت میں کچھ سننے کو تیار نہیں۔ وہ زیادہ دیر انتظار نہیں کر پائیں گے اور نہ عمران خان کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ اُن کی تشفی مخالفین کی مٹی پلید کرکے کریں۔ اس سے یہ ایک بھڑکی ہوئی اپوزیشن کو اور بھڑکائیں گے۔ اُنہیں سب سے پہلے عدم رواداری اور نفرت انگیزی کے کلچر کو بدلنا ہوگا۔ اور اپوزیشن بھی دھاندلی کے معاملے پر ایک بااختیار پارلیمانی کمیشن کی تشکیل سے مطمئن ہو کر پارلیمانی نظام کے استحکام کی جانب پلٹ آئے۔ جمہوری عبور کو پٹری سے اُتارنا کسی سیاستدان کے مفاد میں نہیں اور اس بات کا خیال اور ضرورت سب سے زیادہ وزیراعظم عمران خان کو ہونی چاہیے۔ آخرکار یہ اُن کی باری ہے اور یہ اُن کے مفاد میں نہیں کہ اگر اپوزیشن پچ ہی اکھاڑ دے تو وہ کھیلنے سے رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین