• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5سالہ ٹیسٹ میچ شروع ہوگیا ہے۔ اپوزیشن وکٹیں گرتی دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ عوام چوکوں چھکوں کے منتظر۔ حکمت عملی آپ کو بنانی ہے۔

بہت مبارک ہو آپ اس منصب جلیلہ پر فائز ہوگئے ہیں جس کی آرزو لیے بہت سے دُنیا سے اُٹھ گئے۔ یہ لیلیٰ ان کی نہ ہوسکی۔آپ کو یقیناََ احساس ہوگا کہ اب آپ کن ہستیوں کی صف میں سب سے آخر میں کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے اپنے ان پیش روئوں سے کہیں زیادہ خطرناک گھاٹیاں ہیں۔ جمع ہوتے طوفان ہیں۔ ہر شعبے میں مشکلات سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ قائد ملّت لیاقت علی خان سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک۔ کیسے کیسے کردار ہیں۔ وطن کے لیے جان قربان کرنے والے بھی۔ وطن کے خزانے لوٹنے والے بھی۔ کتنے تھے جو مختصر سے وقت میں بڑے کام کرگئے۔ جن کا نام امر ہوگیا۔ بہت سے چھوٹے سے عرصے میں اربوں روپے اپنے کھاتوں میں منتقل کرگئے۔ تاریخ کے اوراق آپ کو مطالعے کی دعوت دے رہے ہیں۔ فیصلہ آپ کا ہے کہ ان میں سے کس کی تقلید کریں گے۔ اس منصب کا انجام گولی بھی رہا ہے۔ پھانسی بھی۔ دربدری بھی۔ اڈیالہ جیل بھی۔

یہ میری خوش فہمی ہے یا حقیقت ہے کہ ہم نے فتح کے بعد میاں نواز شریف۔ اور آصف زرداری صاحبان کے چہروں پر جو فاتحانہ چمک دیکھی تھی۔ سرکاری خزانے پر ان کی نظریں تھیں۔ اس لیے انہیں ملک کو درپیش مسائل اور قوم کو لاحق پریشانیوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ آپ کے چہرے پر یہ چمک نہیں بلکہ تردد اور فکرمندی نظر آتی ہے۔ قائد اعظم نے اپنے کھوٹے سکوں کا ذکر کیا تھا۔ آپ کے پاس ان سے بھی کہیں زیادہ کھوٹے سکے جمع ہوگئے ہیں۔

میڈیا والے وزیر اعظم ہائوس ۔ گورنر ہائوس ۔ وزیر اعلیٰ ہائوس کے بارے میں آپ کے دعوئوں کو لے کر چل پڑے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے پہلا ٹیسٹ یہی ہے۔ گورنر ہائوس کی دیواریں نہ گریں تو آپ کی قیادت کا قلعہ زمیں بوس ہوجائے گا۔ آپ یورپ میں کرکٹ کھیلتے رہے۔ اس لیے یورپ کے وزرائے اعظم کی رہائشگاہیں آپ کو مثالی لگیں۔ لیکن وہ اس منزل پر صدیوں بعد پہنچے ہیں۔ ان کے بادشاہ پہلے بڑے بڑے قلعوں۔ محلّات میں رہتے تھے۔ پاکستان جس خطّے میں ہے یہاں کی روایات یہی محلّات ہیں۔ ہندوستان۔ افغانستان۔ برما۔ یہاں انگریز نے بھی اپنی حکمرانی کے دوران مغل بادشاہوں کے محلّات کو ہی برقرار رکھا تھا۔

میڈیا اور آپ کے مخالفین اسے سب سے بڑا مسئلہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں باور کروائیے آپ انتخاب کے ذریعے حکومت میں آئے ہیں۔ انقلاب کے ذریعے نہیں۔ انقلاب میں تو ہزاروں کے سر کٹتے ہیں۔ گلیوں میں خون بہتا ہے۔ تبدیلی رفتہ رفتہ آتی ہے۔ تب ہی مستحکم رہتی ہے۔ تبدیلی ایسے آنی چاہئے جیسے موسم تبدیل ہوتا ہے۔ تبدیلی ایک دم آئے گی تو ایک دم ختم بھی ہوجائے گی۔

عمران خان کے جس نعرے۔ جس فلسفے کو عوام نے قبول کیا ہے وہ ہے کرپشن کا خاتمہ۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ملک کے خزانے کو جس طرح لوٹا جارہا ہے چند خاندان معجزاتی طور پر مالا مال ہوگئے ہیں۔ کئی کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ملک پر ہزاروں ارب کے قرضے چڑھ گئے ہیں۔ عوام ان لٹیروں کو صرف جیل میں چکی پیستے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ اربوں روپے واپس خزانے میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔آپ اپنے اس مشن کو جاری رکھیں گے تو عوام کی ہمدردیاں اور حمایت آپ کے ساتھ رہے گی۔ اس پر کوئی بھی سمجھوتہ ہوگا چاہے وہ اندرونی طاقتوں کے ایما پر ہو یا بیرونی طاقتوں کے ۔ اس سے آپ کا قلعہ منہدم ہوجائے گا۔

کرپشن مال و دولت کی ہوس نے ہی ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ کرپشن نے ہی ملک کے دشمنوں کو سازشیں کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ کرپشن نے ہی ہم پر امریکہ سمیت دوسرے ملکوں کی بالادستی قائم کی ہے۔ منتخب۔ غیر منتخب۔ سیاسی ۔ غیر سیاسی۔ ہر قسم کی بیورو کریسی۔ چپراسی سے لے کر سیکرٹری تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔ پارسا وہی ہے جس کو موقع نہیں ملا ہے۔

زعم ہے جن کو پارسائی کا

وہ گناہوں کے اہل تھے ہی نہیں

اشرافیہ کی اکثریت اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ اخراجات سے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ اضافی آمدنی کہاں سے آتی ہے۔

سر فہرست اس رُجحان کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کے لیے آپ عوام سے تجاویز مانگیں۔ ملائشیا۔ ترکی۔ ویت نام۔ تھائی لینڈ۔ بھارت سے مثالیں لیں۔

ایک ہی فارمولا ہے۔ قانون کی حکمرانی۔ ٹریفک کا اشارہ توڑنے سے لے کر کسی کے قتل تک۔ قوانین موجود ہیں ہر قانون پر عمل ہونا چاہئے۔ کسی ایک خلاف ورزی پر چھوٹ ملتی ہے تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایدھی۔ اخوت۔ چھیپا۔ سٹیزن فائونڈیشن۔ انڈس اسپتال۔ الخدمت اور اس جیسے ادارے انسانیت کی خدمت نہ کررہے ہوتے تو ہمارے پیارے وطن کا کیا حال ہوتا۔ لاشیں، زخمی سڑکوں پر پڑے ہوتے ۔ لیکن یہ حساب بھی تو لگائیے کہ یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ اس کے لیے بجٹ بھی مختص ہوتا ہے۔ جب یہ فرائض زیادہ تر یہ ادارے کررہے ہیں۔ تو بجٹ میں اسی کام کے لیے مختص رقوم کہاں جارہی ہیں۔

یہ امور زیادہ تر بلدیاتی اداروں کے تھے۔ جن کو جمہوری حکومتوں نے بے اختیار کردیا ہے۔آپ بلدیاتی اداروں کے اختیارات بحال کرکے فوراً ان کے نئے الیکشن کروادیں۔ عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ ہے۔ گھر سے دفتر یا کارخانے جانے کے لیے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کم ہوتی جارہی ہے۔نئی کاریں ہر روز سڑکوں پر آرہی ہیں۔ نئی بسیں نہیں آرہی ہیں۔ 71سال میں کہیں بھی زیر زمیں ریلوے کا نظام قائم نہیں ہوا ہے۔ ماس ٹرانزٹ کے نام پر اربوں روپے امکانی رپورٹوں کی تیاری میں صَرف ہوگئے۔ اولیں ترجیح۔ کراچی ۔ لاہور۔ پشاور۔ کوئٹہ۔ سیالکوٹ۔ ملتان۔ حیدر آباد میں سرکاری بسوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ باقاعدہ ٹکٹ والا جدید ترین سسٹم۔ یہ شعبہ صوبائی ہے۔ آپ کے پاس تین صوبوں کی کنجیاں ہیں۔ ان میں شروع کردیں۔ چوتھے صوبے کو بھی کرنا پڑے گا۔

دوسرا بڑا مسئلہ پولیس ہے۔ یہ بھی صوبائی ہے۔ کے پی میں پولیس کا نظام کافی ٹھیک ہوا ہے۔ اب یہی بہتری پنجاب اور بلوچستان میں بھی آنی چاہئے۔ سیاسی بھرتیاں۔ سیاسی تقرریاں۔ سیاسی تبادلے بند کردیں۔ آئی جی کو سارے اختیارات دے دیں۔ کرپشن بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگی۔ قانون شکنی بھی ۔ ہر تھانے میں عوامی کمیٹیاں بن سکتی ہیں۔

مسجد مسلم ریاست میں انتظام و احتساب کا مرکز رہی ہے۔ اب بھی پورے ملک میں ہر مسجد میں شہری باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں۔ ہر ایم این اے۔ ایم پی اے کی ڈیوٹی ہو کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقے کی مختلف مساجد میں نماز پڑھے۔ لوگوں کے حالات جانے۔ آپ بھی فیصل مسجد اسلام آباد۔ شاہی مسجد لاہور۔ مسجد مہابت خان پشاور۔ جامع مسجد کوئٹہ۔ میمن مسجد کراچی میں ایک نماز جمعہ پڑھیں۔ خطبہ سنیں۔ سیکورٹی والے آپ کو ڈرائیں گے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب آنی ہے ضرور آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں محلّہ کمیٹیاں بنائیں۔ایم این اے ۔ ایم پی اے کے مشورے سے ۔ یہ محلّہ کمیٹیاں ہفتے مہینے میں ایک بار میٹنگ کریں۔ اپنے مسائل سے ارکان اسمبلی کو آگاہ کریں۔ اس سے ہی عوام محسوس کریں گے کہ وہ فیصلہ سازی میں شریک ہیں۔

معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانا آپ کی ترجیحات میں پہلے سے ہے۔ اسد عمر صاحب۔ اس کے ماہر ہیں ۔ انہیں ملک کے ماہرین۔ صنعت کاروں کاتعاون حاصل ہے۔ پہلے دو ہفتوں میں ہی اس کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ عوام ان فیصلوں کے منتظر ہیں۔

لیکن عوام کی جو روز مرہ کی پریشانیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے تیر رفتاری سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے بڑے فنڈز درکار نہیں ہیں۔ نہ آئین میں ترامیم کی۔ صرف نیت نیک ہونی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین