• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھا لیا ۔ روایت ہے کہ حلف لینے کے بعد صدر پاکستان نئے وزیر اعظم کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں اور انہیں مبارک باد دیتے ہیں مگرصدرممنون حسین خاموشی کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے ۔سنا ہے وہ کچھ خوش نہیں تھے کہ اِس تقریبِ کےلئے انہیں اپنا بیرون ِ ملک کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔وہاں انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنی تھی۔شاید یہ اُن کا آخری دورہ تھا جسے پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالنے سے پہلے منسوخ کرا دیا تھا ۔اب اگلے مہینے کے پہلے ہفتے انہیں صدر ہائوس کو الوداع کہنا ہے ۔بے شک اُن کی کراچی میں ذاتی رہائش گاہ بڑی اچھی ہے۔ لیکن ایوان صدر تو ایوان صدر ہے ۔اُس کی جدائی کا دکھ کچھ دن تو رہے گا۔ویسے وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی موجودہ رہائش گاہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں ۔

تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ پاکستان کی تمام اہم ترین شخصیات موجود تھیں ۔ چائے کے دورانیے میں برقع پوش خاتون اول تمام نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں ۔عمران خان نے جب گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا تو بشری بی بی چلتی ہوئی وزیر اعظم ہائوس کی سیڑھیوں کے پاس جا کھڑی ہوئیں ۔جہاں سے وہ عمران خان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوئیں ۔وہ ممالک جہاں حجاب پر پابندی ہے اُن کےلئے یہ خاتونِ اول امتِ مسلمہ سے ایک پیغام ہے کہ مسلم خواتین کو اسلامی روایات کی پاسداری سے نہیں روکا جا سکتا۔عرب ممالک میں بھی خاتونِ اول کو تحسین بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے ۔ عورت کواس بات کا حق ہے کہ وہ جلباب(چہرے کا مخصوص عربی پردہ ) کرنا چاہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا ۔یہ امہات المومنین کی سنت ہے۔ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس گئےاگرچہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اپنے ملٹری سیکرٹری کے مکان میں قیام پذیر ہونگے ۔یہ مکان وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ساتھ ہی ہے ۔مجھے ان کے وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ میرے خیال میں تو انہیں ملٹری سیکرٹری کے مکان کی بجائے وزیر اعظم ہاؤس میں ہی رہنا چاہئے کیونکہ یہ ہاؤس جہاں بنایا گیا ہے وہاں کچھ اور نہیں بن سکتا ۔ یہ ممکن نہیں کہ یہاں یونیورسٹی بنائی جا سکے یا کوئی ایسی چیزجہاں عام لوگ آجا سکیں کیونکہ سیکورٹی کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہاں تک عام آدمی کو رسائی نہیں دی جا سکتی۔ وزیر اعظم ہاؤس کا ایک دروازہ قومی اسمبلی میں کھلتا ہے۔ ایک صدر ہاؤس میں ۔ایک دروازہ کیبنٹ ڈویژن کے پیچھے ہے ۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کی عمارت ہے ۔سو اس عمارت کا کوئی اور استعمال ممکن ہی نہیں ۔

وزیر اعظم ہاؤس میں رہنے سے صرف ایک مسئلہ پیدا ہوگا کہ عمران خان کو زندگی پروٹوکول میں گزارنا پڑے گی جس کے وہ قائل نہیں ہیں ۔ اب بھی خطرہ ہے کہ رفتہ رفتہ وہ عام لوگوں کی دسترس سے مکمل طور پر باہر نکل جائیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک اپنے پروٹوکول کواپنے کنٹرول میں کرتے ہیں اور اپنے عوامی مزاج کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اپنے اُس حلقہ احباب سے رابطہ رکھتے ہیں جنہیں لوگ کم جانتے ہیں جو ہر شہر میں موجود ہیں اور عمران خان کےلئے آنکھیں بنے ہوئے ہیں ۔میرے خیال میں عمران خان کے صحیح فیصلوں میں اُس ٹیم کا بہت بڑا کردار ہے ۔وہ ٹیم عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں سے بھی اوجھل رکھی ہوئی ہے ۔

قوم کی آنکھیں اِس وقت وزیر اعظم عمران خان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ پہلا کام کونسا کرتے ہیں۔ انہوں نے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے وہ وزیراعظم ہاؤس میں تھوڑی دیر ٹھہرے اور پھر وہاں سےنکل کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ چلے گئے اوراپنے اسٹاف کے ساتھ میٹنگزشروع کردیں۔حلف اٹھاتے ہی کام کا آغاز کرنے والے یہ پہلے وزیر اعظم ہیں ۔اپنی ترجیحات تو انہوں نے وزیراعظم کا ووٹ لینے کے بعد جو تقریر کی تھی اُس میں واضح کردی تھیں۔

اگرچہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہےکہ اگرنون لیگ کے ایم این ایز کا ’’احتجاجِ بد تہذیب ‘‘ اپنی انتہا کو نہ پہنچا ہوتا تو عمران خان بڑی مصالحت بھری تقریر کرتے مگر میراخیال مختلف ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمام تر مشوروں کے باوجود عمران خان نےکسی دروغِ مصلحت آمیز کا سہارا لینا پسندنہیں کیا۔قوم نے انہیں کرپشن کے خاتمہ کے سلوگن پر ووٹ دئیے ہیں ۔لٹیروں کے احتساب کےنام پر ووٹ دئیے ہیں ۔سو انہوں نے اللہ کے سامنے قوم سے وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو برے حال میں پہنچانے والوں کا احتساب کروں گا۔ڈاکوئوں کواین آر او نہیں ملے گا ایک ایک شخص کو کٹہرے میں کھڑا کروں گا ۔جو لوگ ملک کا پیسہ لوٹ کر بیرونِ ملک لے گئے ہیں وہ واپس لائوں گا۔‘‘ بے شک یہ کام بھی ضروری ہے مگر انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے سب سے پہلے قوم کو اپنے سو دنوں کا حساب دینا ہے۔آج سے الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔99دن باقی رہ گئے ہیں۔ پہلے سو دنوں میں جن کاموں کا وعدہ ہے اس میں جنوبی پنجاب صوبہ کا وعدہ بھی شامل ہے۔کل بلاول بھٹو زرداری نے بھی صوبے کےلئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔کوئی آئینی رکاوٹ نہیں رہی ۔یقیناََ ایک دوماہ کے اندر صوبے کا اعلان ہوجائے گا ۔شاید اِسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان نےعثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہےکہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کےلئے اہم کردار ادا کرسکیں اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا خاتمہ کرسکیں ۔کتنے ستم کی بات ہے جس علاقہ میں عثمان بزدار کا آبائی گھر ہے وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچ سکی ۔اُن سے عمران خان کو بہت سی توقعات ہیں ۔ میری دعا ہے کہ وہ کپتان کی توقعات پر پورا اتریں اور پنجاب کو ایک نئے پنجاب میں تبدیل کردیں ۔

بہت سے دستِ شناس اور ماہرین ِ نجوم کہتے تھے کہ عمران خان کے ہاتھ میں وزیر اعظم بننے کی لکیر ہی نہیں ہے مگر عمران خان کو اپنے وزیر اعظم بننے پر مکمل یقین تھا کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے ، کبھی تھک کر نہیں بیٹھے مسلسل بائیس سال اسی تگ و دو میں لگے رہے اور آخر کار اپنے ہاتھ کی لکیریں اپنے عمل سے بدل دیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ انہوں نے اپنے یقینِ کامل ، عمل پیہم کے خنجر سے اپنی ہتھیلی پر خوداپنے مقدر کی لکیر بنا لی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین