• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری تسلسل، ذمہ داریاں

یہ ساعتیں بہت مبارک ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا ہے، یہی تسلسل ہی جمہوریت کو استحکام اور معاشروں کو بلند مقام عطا کرتا ہے، ذمہ داری جمہوری نظام میں ہر فرد کی ہوتی ہے، مگر اس کی نوعیت الگ الگ، جس کے ذمہ جو کچھ ہے وہ خوش اسلوبی سے کر کے دکھائے، آج تک ہماری تاریخ میں جتنے حکمران آئے انہوں نے اللہ کو گواہ بنا کر قوم سے انصاف اور حق کو سر بلند رکھنے کا وعدہ کیا مگر اس کے باوجود پاکستان جہاں کھڑا تھا اس سے آگے نہیں بڑھ سکا، صرف اس لئے کہ وعدے پورے نہیں کئے گئے۔ منشور، دستور، قانون، عدل پس پشت ڈال دیا گیا اور من مانیاں شروع ہو گئیں، حکمرانوں کی دیکھا دیکھی قوم نے بھی یہی روش اپنا لی، نتائج ہم سب کے سامنے ہیں، جب امانتوں میں خیانت ہونے لگی تو خزانے میں سو چھید ہو گئے، ہم سب نے اپنے اپنے حصے کی خیانت کی، سیاست جو عبادت ہے، خدمت ہے اسے منافع بخش دھندا سمجھ کر ایک پیشہ بنا لیا گیا قوم کے ہر فرد نے اپنی اپنی جگہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی، اور یوں عدل کے بجائے ظلم کے نظام نے لے لی، اور ہم اسے جمہوریت کہتے رہے،یا ہم سے کہلایا جاتا رہا، اگر اس مذموم انداز فکر و عمل میں تبدیلی نہ آئی تو ہم مزید 5سال ضائع کر دیں گے، چند لوگ تجوریاں بھر لیں گے اور اکثریت خط غربت کے نیچے ہی رہے گی، نظام بہتر ہونے کے بجائے اور بگڑ جائے گا۔ ذاتی عناد و مفاد غالب آ جائے گا اگر ایک ہاتھ حکومت کا ایک قوم کا مل کر ٹکرائے تو تالی بج سکتی ہے، قول کا دورانیہ ختم اور عمل کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا، سب اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں یہی وقت کا تقاضا ہے۔

٭٭٭٭

جذباتیت غالب، تحمل و تدبر پر مغلوب

پاکستانی قوم میں وہ سب کچھ ہے جو ایک اچھی قوم میں ہونا چاہئے، نہیں ہے تو تحمل و برداشت، البتہ ہر مرد شہنشاہ جذبات اور ہر خاتون ملکہ جذبات ہے، کچھ ایسے نہیں مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر، وزیراعظم پاکستان عمران خان اب کنٹینر پر نہیں، ان کی منزل ان کو مل گئی ہے، اب وہ اپنے قول میں اپنی وکٹری اسپیچ جیسی متانت لائیں، انہیں کتنا ہی بھڑکایا جائے وہ نہ بھڑکیں اپنا کیلنڈر سامنے رکھ کر اس پر عمل شروع کر دیں، جلد بازی بھی نہ کریں مگر سست روی کا مظاہرہ بھی نہیں، سوچ سمجھ کر، مشاورت سے آگے بڑھیں، آئین قانون کو راہ دیں، محکموں، اداروں کی اصلاح کریں، کسی پر پائوں رکھ کر آگے بڑھنا ہی ظلم ہوتا ہے، اب ان کے سامنے سب فقط پاکستانی ہیں اور وہ ان کے حقوق کے محافظ، عجز و نیاز اور عقل و فراست سے قدم بڑھائیں گے تو پتھر بھی ان کے ساتھ چل پڑیں گے، 71سال کی کوتاہیاں پہلے 100دن میں چھیڑ لی جا سکتی ہیں، ان کی تلافی نہیں کی جا سکتی، اگر ادارے مضبوط ہوں گے، میرٹ پر بھرتیاں ہوں گی، تو انہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا کرپشن کو غیر سازگار ماحول ہی جڑ سے اکھاڑ دے گا، ان کے ناقدین و مبصرین بھی فقط تنقید و تبصرہ کو اپنا شعار نہ بنائیں، اگر وہ حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے کوئی اعلان، اقدام کرتے ہیں تو اسے نمائشی قرار نہ دیں، اس طرح تو ہم عمر بن عبدالعزیزؓ کے سرکاری چراغ کی روشنی میں ذاتی کام نہ کرنے کو بھی نمائشی سمجھیں گے جب کہ ایسا نہیں، اپوزیشن، حکمرانوں کی اتالیق ہوتی ہے، مخالفت اس کا فرض نہیں ہوتا، ہاں وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائی کی تلقین اور برائی سے روکنے) تک رہے، مگر یہ کام بھی جذباتی پن اور ذاتی عناد کے بغیر کیا جائے بہرحال حکومت کو جنونی جذباتیت سے دور رہنا ہو گا۔

٭٭٭٭

پارلیمانی کمیشن کا جائز مطالبہ

اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں جذبات کی رو سے ہٹ کر جو ایک مطالبہ کیا کہ ووٹ کی چوری پر پارلیمانی کمیشن بنایا جائے، اس پر بخل سے کام نہ لیا جائے، ہمارے ہاں جو قانونی ڈھانچہ ہے اب وہ کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ ہے، اس لئے نئی قانون سازی نئے دور کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ مقدمات کے انبار کم ہو سکیں، اور عدالتوں کے فیصلوں کا ٹمپو تیز ہو سکے، اگر پنجاب جیسے بڑے صوبے کے دو صوبے بنانے میں محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے تو اس میں بھی مثبت انداز اختیار کیا جائے توقعات کی کثرت کو عوام کچھ کم کریں، کیا پچھلی حکومتوں سے بھی اتنی توقعات کا طوفان کھڑا ہوا تھا؟ اچھی توقع رکھنی چاہئے، مگر ہم اس پر زور دیں گے کہ پی ٹی آئی جس قدر برداشت اور اپنا صالح عمل جاری رکھنے پر توجہ دے گی اتنی ہی کامیابیاں سمیٹے گی اور مقبولیت حاصل کرے گی، اگر ابتدائی سو دنوں میں یہ تاثر سامنے آیا کہ پی ٹی آئی قیادت اپنے قول کو اپنے عمل سے دور رکھ رہی ہے، تو جہاں دل ٹوٹیں گے وہاں مخالف قوتوں کو بھی شہ ملے گی، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ برطانوی وزیراعظم نے منی لانڈرنگ کی روک تھام پر مکمل تعاون کا یقین دلایا، اب بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں، راستہ ہموار ہے، راہی کسی سمت چل نکلتا ہے آنکھیں منتظر ہیں، پہلا اچھا منظر ہی آگے کی منازل آسان کر دے گا، ہم یہاں حلف نامے کو بھی سلیس بنانے کے لئے کہیں گے۔ بہرحال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، سادگی اور شکر کی حد تک اور پروٹوکول کے غائب ہونے تک تو تاحال سب ٹھیک تھا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

٭٭٭٭

ایک اچھی جھلک کا سوال ہے

....Oزرداری کا ن لیگ کے وفد سے ملنے سے انکار ۔

ہوا انکار تو کچھ باعث انکار بھی تھا۔

....Oشیخ رشید:چار ماہ میں بڑے کرپٹ پکڑے جائیں گے۔

کرپٹ اپنے اندر سے پکڑا جاتا ہے، اس کے لئے چار ماہ کی ضرورت نہیں ۔

....Oنوجوت سنگھ سدھو:عمران خان مشکل وقت میں کمزوری کو طاقت میں بدل سکتے ہیں۔

مگر یہاں تو کمزوری بھی غائب ہے طاقت میں کیا بدلیں گے۔

....Oعمران خان:ریفریشمنٹ میں صرف پانی پلانا چاہتے تھے۔

اب اتنی بھی سادگی میں انتہاء پسندی کیا؟

....Oعمران خان:کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا۔

اس جملے میں ڈاکو کا لفظ زائد ہے، باقی جملہ درست ہے۔

....O سارا جشن تو ختم ہو گیا اب کیا ہو گا۔

اب وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا، انسانوں کو کیا خبر کہ کیا ہو گا مگر محروموں مظلوموں کو معلوم ہو گا کہ ان کا رب اب کیا کرے گا۔

تازہ ترین