• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام!آپ یہ تو جانتےہی ہیں کہ اداریہ اور کالم نویسی رائے عامہ کی تشکیل کا بڑااور موثر ذریعہ ہیں۔ سو، اداریہ اور کالم نویس اپنی تحریر میں ہمیشہ حالات حاضرہ پر چوکس رہتے ہیں، لیکن یہ روزبروز کوئی آسان کام نہیں۔ رواں دواں حالات حاضرہ اور یکدم تبدیل ہوئی صورت حال میں ترجیحی موضوع کا انتخاب ، تحریری و تجزیاتی مہارت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بدلتی صورت پر نظر رکھنا اور اسے جلد سے جلد پڑھ کر درست سمجھنا رائے سازی کے عمل سے وابستہ صحافیوں کا بڑا اور مسلسل پیشہ ورانہ چیلنج ہوتا ہے۔ آج کے ’’‘آئین نو‘‘ کی ذرا ہٹ کریہ تمہیدیوں باندھنی پڑی کہ گزری شام مسلم لیگ ن کے اراکین نے وزیر اعظم کے انتخاب کے اجلاس میں منتخب وزیر اعظم کی تقریر کے دوران جس طرح کی پارلیمانی دھما چوکڑی مچائی، وہ ان کی 35 سالہ گورننس میں مچائی گئی مالی او انتظامی دھماچوکڑی کی سطح پر آ گئی، وگرنہ تو پارلیمان کے حوالے سے اب تک ان کا ریکارڈ ، مسلسل نا اہلیت کے غلبے ، قانون سازی میں عدم دلچسپی اور ایوان سے غیر حاضری کے حوالے سے ہی تھا جس نے منتخب ایوان کو برائلر بنا دیا تھا۔ اس صورت نے مجھے لکھا لکھا یا کالم ترک کر کے زیر نظر کالم لکھنے پر مجبور کر دیا، تھا تو پہلا بھی اسمبلی کے اسی اجلاس کے حوالے سے لیکن اس کے مندرجات ’’قومی مفاہمت برائے استحکام جمہوریت‘‘ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔

کتنا خوش کن جمہوری ماحول تھا کہ ووٹنگ سے پہلے اس کے دوران اور پھر گنتی کا نتیجہ آنے تک متضاد جماعتوں کے رہنما اور اراکین ایک دوسرے سے باہم ہنسی خوشی سلام دعا کرتے اور ملتے جلتے نظر آئے۔ جیسے ہی سپیکرنے نو منتخب وزیر اعظم کو خطاب کی دعوت دی پلان کے مطابق ن لیگی سراپا احتجاج ہو گئے ۔ معاملہ روایتی علامتی پارلیمانی احتجاج تک نہ رہا، اس میں شدت اور شدت سے جارحیت آتی گئی اور طوالت کے ساتھ یہ ماتم اور پھر ایک اجتماعی وحشت کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سارے عرصے میں عمران خان جو ایوان میں مسکراتے ہی داخل ہوئے تھے، نشست پر بیٹھے مسکراتے ہی رہے اور ان کی تسبیح بھی گھومتی رہی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں خاں صاحب ایاک نعبد وایاک نستعین (میں تیری عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں) کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پارلیمان میں وزیر اعظم بننے کے اعلان کے بعد، ان کے مسلسل پر امن اور خوش گوار رویے پر ن لیگ اراکین شہباز شریف کی قیادت میں پارلیمانی احتجاج کا علامتی حق کھوکر، ان پر اس قدر جارحیت اور وحشت کیوں طاری ہو گئی؟حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں، یہ انتخابی عمل سے بھی پہلے شروع ہو کر جاری رہنے والے احتسابی عمل کا نتیجہ ہے۔ وہ احتسابی عمل جس نے عوام دشمن نظام بد کو تحفظ دینے والے اسٹیٹس کو کواس شکست جاریہ سے دو چار کر دیا ہے، جس میں کمپنیوں اور اقاموں کی آڑ میں قومی خزانہ بے دردی سے لوٹ کر سمندر پار محفوظ ٹھکانوں میںپہنچادیا گیا۔ قومی خدمات کے اداروں پر ان کی مالی و انتظامی تباہی کے لئے ان اداروں پر ایک سے بڑھ کر ایک نا اہل اور بدعنوان خوشامدی کو مسلط کیا گیا۔ حتیٰ کہ کھربوں کی منی لانڈرنگ کے لئے سپیشل بینک قائم کئے گئے ۔ اور عوام سے سستی روٹی ، پانی اور بجلی چھین لی گئی ۔ نہ صحت، نہ تعلیم ،سیاسی ڈرامے اورجھوٹ کا غلبہ۔

مکمل آئینی و قانونی احتسابی عمل ہمراہ انتخابی عمل اور ان کے نتائج کی ن لیگیوں پر دہشت سمجھ میںآتی ہے۔ نیب، اس کی عدالتوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے آئینی فرائض کی انجام دہی، جو پاکستان کے داخلی سیاسی اور مالی استحکام کے لئے ناگزیر ہو گئی ہے، کی محدود پیشہ ورانہ سکت کا بڑا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ ’’آئین نو‘‘ میں تو اس قومی ضرورت کی نشاندہی احتسابی عمل شروع ہونے پر بہت پہلے کر دی گئی تھی۔وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو یقین تو دلا دیا ہے کہ اب کوئی این آر او نہیں ہو گا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انتہائی بنیادی نوعیت کے گھمبیر عوامی مسائل کی موجودگی میں اپنی اس کمیٹمنٹ جو اب اولین قومی ضرورت احتسابی عمل کے انتظامی ڈھانچے کی کپیسٹی بلڈنگ کے طور پر سامنے آگئی ہے کو اڈریس کر سکیں گے۔ ان کی ٹیم کو اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وگرنہ اقتدار کی باری پوری ہونے پر بھی احتساب کا عمل ادھورا رہ جائے گا۔

ن لیگ کی پارلیمانی ماتمی ٹیم نہیں جانتی کہ اس نےخود پر طاری جس وحشت اور دہشت کو خود ہی اتنے منظم پارلیمانی ڈرامے سے پوری قوم کے سامنے بے نقاب کیا ہے، وہ کتنا بڑا فائر بیک ہے اس سے شاید اڈیالہ میں ان کی اصلی قیادت کو تو کچھ تسلی ہو گئی ہو، لیکن اس کے جو نفسیاتی اثرات خود ن لیگیوں عمران خاں اور ان کی جماعت پر مرتب ہو گئے، وہ ن لیگ کے لئے کتنے خسارے کا سودا بنا؟ثابت ہوا کہ اس کو سمجھنے کی فہم مشت غبار بنتے ’’مغل خاندان‘‘ میں کسی شہزادے شہزادی اور حواری کو نہ تھی، نہ ہو گی۔ اس کی سیاسی خود کشی کے سفر کی تیزی اور نوعیت تو یہ ہی بتا رہی ہے۔

ایک بڑا سوال ، جسے ن لیگی سوال کے جواب کے طور پر ’’آئین نو‘‘ میں تفصیل سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن 18کی قومی، بین الاقوامی اور ملکی سیاسی جماعتوں میں بحیثیت مجموعی اور قومی میڈیا میں انتخابی نتائج اور ان کے نتیجے میں اقتدار کی تبدیلی، بہت بلند درجے پر قبول ہو چکی۔ حتیٰ کہ معقول ن لیگی اور نچلی سطح تک کے کارکن پہلے عمران خان کی متوقع اور بن جانے والی حکومت کو دل سے تسلیم کر رہے تھے۔ اور اب بننے پر کر لی۔ آخری مبارک سلامت بذریعہ فون برطانوی وزیر اعظم کی آئی ہے۔ اب ن لیگ 10ڈائوننگ سٹریٹ پر احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کر سکتی ہے تو کر لے۔ ماسکو، ریاض اور بیجنگ میں تو اجازت بالکل نہیں ملے گی۔ شاید یورپی یونین کے سامنے کوئی ہلکا پھلکا شو ہو جائے۔ غبار نکالنا ہے تو ایک دو اصلی جمہوری مغربی ملکوں کا رخ کر لیں، لیکن ذرا احتیاط سے وہاں انڈے ٹماٹر پڑنے کا بھی خطرہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی حمایت اور سپورٹ کی ڈگری کا اندازہ تو ن لیگ کو ہے ہی۔ شک ہے توڈالر ڈار انکل سے مشورہ کر لیں۔ جن کو جمعہ پڑھنے میں بھی مشکل ہونے لگی ہے۔

کچھ عثمان بزدار بارے: وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی اپنے اقتدار کی پہلی گیندپر ہی چھکا مار دیا ہے۔ ادھر ن لیگیوں نے اسمبلی اجلاس میں اپنا اصل دکھایا ادھر عمران خاں نے اپنا اصل دکھا دیا۔ اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی پورے ملک خصوصاً پنجاب کو گہرے تجسس سے نکال دیا۔یوں کہ، پنجاب ہی نہیں ملک کے پسماندہ ترین ضلع تونسہ سے ایک شریف النفس، پڑھے لکھے، مڈل کلاس، اور سب سے بڑھ کر عوام دوست رکن اسمبلی عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کر دیا۔ میں نے اطلاع سنتے ہی علاقے سے تعلق رکھنے والے اپنے شاگردوں اور ڈی جی خاں اور راجن پور میں کئی سال بطور سپرنٹنڈنٹ جیل تعینات رہنے والے اپنے کزن حال مقیم ڈی جی خاں شیخ صابر علی منصوری کو فون کر کے عثمان بزدار کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ کچھ ان کی مزید تصدیق کی ، کیونکہ عمران خان نے یہ جو ہر تونسہ سے تلاش کیا ہے، جہاں کتنے ہی شہری کبھی نہیں گئے، بلکہ ملتانی اور بہاولپوری بھی جنوبی پنجاب میں رہتے ہوئے نہیں پہنچے لیکن وزیر اعظم عمران خاں کی نظر پہنچی، اب جو معلومات مجھے ملیں وہ قارئین کے لئے حاضر ہیں۔ معلوم ہوا کہ عثمان بزدار ایک سکول ٹیچر جناب فتح بزدار کے صاحبزادے ہیں۔ جو خود بھی سیاسی کارکن ہیں ۔ تین مرتبہ (عثمان بزدار) ایم پی اے رہے۔ آخری مرتبہ ق لیگ میں، اب پی ٹی آئی میں شامل ہیں۔جماعت اسلامی والوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عثمان کے دادا اور بابا کی سپورٹ سے ہی بھٹو آمریت کے پہلے شہید ڈاکٹر نذیر احمد قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ عثمان صاحب ایم اے پولیٹیکل سائنس ہیں، ان کی بیگم بھی ایک گرلز کالج میں لیکچرار ہیں۔ درمیانےدرجے کے زمیندار ہیں، لیکن عوام دوست شہرت کے مالک، فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اوردور دراز کے غرباء میں صدقہ و خیرات اپنی سکت سے زیادہ کرتے ہیں۔ پورا خاندان بہت شریف النفس اور غریبوں کا خصوصی خیال رکھنے والا ہے۔ ان کا ایک بھائی بارڈر ملٹری پولیس میں ہے۔ بہرحال خان کے روڈ میپ کا واضح اظہار اس پہلے اہم ترین نظر انتخاب سے ہو رہا ہے ۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین