• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔

آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی

تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں

اب ہم جیسے کج نظرکسی خوبرو کے خدوخال تو خیر ٹٹول ہی لینگےکہ یہ حسین و دلکش مرحلہ ہوتا ہے، حضرت جس جانچ کی بات کررہے ہیںوہ بہرحال اہلِ بصیرت کا ہی خاصہ ہوتاہے ۔ ہمار اموضوع تو مگر سیاست ہے، پھر وہ بھی پاکستانی سیاست،جو پل میں کچھ تو اگلے مرحلے اُس کے برعکس۔ایسے عالم میں بسا اوقات بڑے بڑے فنکار تجزیہ کار مار کھا جاتے ہیں۔تاہم کچھ باتیں چونکہ پاکستانی سیاستدانوں کے سیاسی کردار کی طرح اتنی واضح ہوتی ہیں کہ ہر خاص و عام جان لیتا ہے کہ کل کیا ماجراہونے کو ہے،اس لئے ہم جیسے عام لکھاری بھی کبھی کبھی قبل از وقت کچھ کہہ دیتے ہیں، جو درست ہوجاتا ہے۔اب ہم نے اپوزیشن کے اتحاد کے متعلق یہ جو اپنے گزشتہ کالموں میں لکھ دیا تھا کہ یہ اتحاد بے وقت کی راگنی ہے۔تو اب ایسا لگتا ہے کہ اندازوں سے بھی بہت پہلے یہ اتحاد سرپرائز دینے پر بضد ہوچکا ہے۔ جیسا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سے لیکر وزیر اعظم کے انتخاب میں آپ کو نظر آیا۔لیکن چونکہ ہم نے لیلیٰ کو مجنوں کی آنکھ سے نہیں دیکھا تھااسلئے کچھ دوست برہم ہوگئے۔ جب اپوزیشن کا اتحا د سامنے آیا، تو ان میں شامل دو جماعتوں کے کارکن یوں مست ہوگئے تھے گویا جاتی امرا سے جاتی تختِ طائوس اُن کے ناز و نخروں کی سیج سجانے کی خاطر اُن کے چرن چھونے والی ہے۔نقارہ وقت اگرچہ کب کا بچ چکا تھاکہ یہ تخت ِچند دن میں بنی گالہ کے در وبام پر ڈیرہ ڈالنے والی ہے۔لیکن کیاکیا جائے کہ شیدایانِ سرخ و نوع رنگ یا تو عالم شکست خوردگی میں چٹانوں کو چیرتی یہ صد اسُن ہی نہ پائے، یا پھر خوف و رو سیاہی کے باعث اُنہوں نے کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھیں۔ البتہ جیسے ہی مولانا تا مسٹر اتحاد کے شادیانے ان کے کانوں کی سماعت سے ٹکرائے، یہ دیوانہ وار سڑکوں پر آئے، گویا اس فن کے اظہار سے انتخابات کا ساز دوبارہ بجنا شروع ہوجائیگا۔ ہم نے ایسے موقع پر لکھا کہ اتحاد کا موزوں وقت قبل از انتخابات تھا ،لیکن چونکہ موجودہ شکست خوردہ جماعتیں بھی کسی انتظار میں تھیں ،یہاں تک کہ ا یک جماعت نے ایسے نعرے بھی لگائے جن کی سیاسی جلسوں میں چنداں ضرورت نہیں ہوتی ہے ،یہاں تک کہ تحریک انصاف کے جلسوں میں بھی ایسے نعروں پر زور نہیں دیا جاتا تھا۔ یاد رہے یہ وہی ہیں جو ،اب اُن نعروں کے برعکس گویائی میںتاک بلکہ پرتپاک ہیں۔خیر ہم عرض کررہے تھے کہ کرسی کی خاطر انگڑائی لیتےاس جوش میں قبل از انتخابات یعنی بروقت اتحاد کا خیال انہیں نہ آیا۔ جب نامہ اعمال ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیاتوبقول احمد فراز انہیں احساس یہ ہوا ۔

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں

در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں

لیکن اب تو ظاہر ہے وقت گزر چکا تھا، لیکن کرسی کا نشہ تو ہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، سو اس حسرت ویاس میں اس اتحاد میں وہ بھی باہم بغلگیر ہوگئےجو کل تک ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ہم نے ان دنوں جب یہ لکھا کہ یہ اتحاد چوں چوں کا مربہ ہے،ہر ایک اپنے مفاد کا اسیر ہے یا کسی خوف نے اسے گھیر رکھا ہے، اس لئے یہ قدم قدم پر باہم متصادم ہونگے۔تو کہا گیاکہ ماضی میں بھی تو اتحاد بنتے رہے ہیں؟یہ درست ہے کہ ماضی میں بھی اتحاد وجود میں آتے رہے ہیں، لیکن اُن کا واحد ایجنڈا جمہوریت ہوتا تھا،جبکہ موجودہ اتحاد کی وجہ بعض نظامِ کہن کے ٹھیکیداروں کی شکست ہے،جنہیں یار لوگ پختون قیادت بھی کہتے ہیں۔ بنابریں پیپلز پارٹی ایک خوف کی وجہ سےاس اتحاد کا حصہ بنی ہے۔ وہ کارکردگی سے اور ان کے اپنے اندازوں سے بھی زیادہ بٹو ر چکی ہے۔لیکن کوئی خوف اسے بھی ایسا لاحق ہے کہ وہ اتحاد بنتے وقت یہ کہتے ہوئے سخن ’نوازی ‘پر مجبور ہوئی ۔

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، کل کے واسطے

ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی

ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل

تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بُن سکیں

ہم نے ان سطور میں بڑے سادہ الفاظ میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی اب نظریاتی سے زیادہ موقع پرستی کو سیاست کا اصل سمجھنے لگی ہے، لہذا یہ اس اتحاد میں پل میں تولہ پل میں ماشہ یعنی اتحاد میں ایک لاشہ ہی رہے گی.... اس پر پیپلزپارٹی کے دوستوں نے تو لب کشائی نہیں کی کہ وہ بہرصورت وسیع النظر تو ہیں، پھر بالخصوص اُن کا میڈیا تو ہے ہی بالغ النظر اصحاب کے ہاتھ میں۔لیکن بعض ’اپنے‘ بولے کہ یہ اتحاد نیک نیت ہے لیکن آپ کی نیت !لگتا ہے کسی اور امام کے پیچھے نیت باندھنے کی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا استدلال ہے کہ پختون قیادت اب پارلیمنٹ سے باہر ہے۔ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے کہ یہ’ قیادت‘ ایک دوسرے کو سرے سے تسلیم کرنے پر تیار ہی نہ تھی۔آنے والے کل میں بھی یہ دست وگریباںہی رہیں گے۔مولا کریم کا کرنا یہ ہوا کہ اب پختون قیادت کا راگ الاپنے والوں نے ایک ’پختون قائد‘ پر یہ کہہ کر تبرا بھیجنا شروع کردیا ہے کہ اُنہوں نے جناب شہباز شریف کو ووٹ کیوں نہیں دیا۔ہم نے جس مدرسے میں تھوڑی سی تعلیم پائی ہے اُس کے اساتذہ غل غپاڑے کی بجائے ہوش و تحقیق کا درس دیتے تھے۔ہمیں یقین ہے کہ جیسے نعروں سے متعلق ہماری بات درست ثابت ہوئی ،خداوندِکریم نے چاہا تو ان کی پختون قیادت بھی بہت جلد بے نقاب ہونے والی ہے۔ خلاصہ یہ ہےکہ اپوزیشن کے اتحاد کے بامراد ہونے کے امکانات اس لئے نہ ہونے کے برابر ہیںکہ یہ اتحاد اضداد کا پیکر ہےاور اس کا پیرہن محض جماعتی، شخصی و گروہی مفادات ہیں جمہوریت نہیں۔ ہم نے پچھلے کالموں میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں کسی جمہوریت وغیرہ کیلئے قربان گاہ کا انتخاب نہیں کرسکے گی اور وہ ہمیشہ کی طرح اپنے پتے اس خوبصورتی کے ساتھ کھیلے گی کہ حلیف دنگ رہ جائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ جناب آصف زرداری کوسمجھنا بھی اب سیا ست میں ایک فن ٹھہرا،جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا تھا

نظر میں بے رخی لب پر تبسم

نہ جانے دل میں کیا ٹھانے ہوئے ہیں

چلتے چلتے یہ نوٹ فرمالیں کہ اگر تحریک انصاف کے دھرنے اور بھرپور و یکسو احتجاج مسلم لیگی حکومت کو مقررہ وقت سے ایک دن قبل بھی نہ ہٹا سکی، تو موجودہ نحیف ونزار اتحاد موجودہ حکومت کیلئے چیلنج کیسے ثابت ہوسکتاہے!ہاںتازہ حکومت کیلئے نا اہلی اور غلطیاں ہی زوال کا سبب بن سکتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین