• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان پہلے 100 دن میں کیسے تبدیلی لائیں گے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) چاہے یہ بات آپ کو اچھی لگے یا نہ لگے لیکن نو منتخب وزیراعظم عمران خان کی اعلانیہ 20؍ رکنی کابینہ ان کے اپنے الفاظ کے مطابق ’’تبدیلی کے رہنمائوں‘‘ کا مجموعہ ہے۔ عمران خان نے بذات خود جس 100؍ روزہ ایجنڈے کا اعلان الیکشن سے قبل کیا تھا اس میں اعلان کیا گیا تھا کہ عمران خان ’’تبدیلی لانے والے رہنمائوں پر مشتمل کابینہ‘‘ لائیں گے تاکہ تبدیلی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ جس وقت عمران خان کی کابینہ کے وزراء کی اکثریت جنرل (ر) پرویز مشرف اور ق لیگ والوں سے جڑی ہے، عمران خان نے اپنے 100؍ روزہ ایجنڈا میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’عمران خان کی شہرت ایسی ٹیمیں بنانے کی ہے جو کامیابی حاصل کرتی ہیں، اور وہ اسی سوچ کے ساتھ ملک چلانے کیلئے اپنی ٹیم کا انتخاب کریں گے۔‘‘ نقادوں نے پہلے ہی نئے آنے والے وزیروں کو دیے جانے والے قلم دانوں کے حوالے سے سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ کئی لوگوں کا اصرار ہے کہ کئی معاملات میں یہ لوگ موزوں نہیں ہیں۔ لیکن عمران خان کے 100؍ روزہ ایجنڈے کے مطابق، ’’پی ٹی آئی کی کابینہ ایسے افراد پر مشتمل ہوگی جن میں قیادت کا ہنر، پیشہ ورانہ تجربہ اور ساکھ کا اعلیٰ معیار ہوگا تا کہ وہ پاکستان کو تبدیلی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔‘‘ قارئین کی یاد دہانی کیلئے یہ بتاتے چلیں کہ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ہوں گے، قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ دفاع اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کی سابق چیئرپرسن اور دفاعی امور اور بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر شیریں مزاری کو ہیومن رائٹس جبکہ پرویز خٹک کو وزیر دفاع مقرر کیا جا رہا ہے۔ کابینہ کیلئے بابر اعوان، شیخ رشید، فواد احمد، غلام سرور خان اور باقی دیگر لوگ خوش قسمت ہیں کہ وہ عمران خان کے فیصلے کے مطابق اہل قرار پائے کہ وہ ’’ایسے لوگ ہیں جن میں قیادت کا ہنر ہے اور ان کے پاس پیشہ ورانہ تجربہ اور وہ ساکھ کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔‘‘ 100؍ روزہ ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’’کوئی بھی ایجنڈا، چاہے وہ کاغذ پر کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگتا ہوں، اس وقت تک پر اثر نہیں ہوگا جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔ حکومت میں تبدیلی پر عملدرآمد ایک پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے جس میں عزم اور صلاحیت کے ساتھ مستقل طور پر سیکھنے اور تبدیلی کو قبول کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور کے مقابلے میں تبدیلی کے ایجنڈا پر زیادہ بہتر انداز سے عمل کیلئے تیار ہیں، کیونکہ ہم میں زیادہ تمنا اور خواہش ہے؛ ہمارے پاس ٹیم ہے جس کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں، ساتھ ہی ملک کا بہترین سیاسی اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ ہے، اور اب ہمارے پاس اس حکومت کا بھی تجربہ ہے جو ہم قائم کریں گے۔ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ہم اپنے عملدرآمد پلان کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری کریں گے، لیکن وسیع پیمانے پر، عمران خان کی حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے ایجنڈے پر عمل کو یقینی بنائے گی: ۱) عمران خان تبدیلی لانے والے رہنمائوں پر مشتمل کابینہ لائیں گے۔ عمران خان کے عمران خان کی شہرت ایسی ٹیمیں بنانے کی ہے جو کامیابی حاصل کرتی ہیں، اور وہ اسی سوچ کے ساتھ ملک چلانے کیلئے اپنی ٹیم کا انتخاب کریں گے۔ پی ٹی آئی کی کابینہ ایسے افراد پر مشتمل ہوگی جن میں قیادت کا ہنر، پیشہ ورانہ تجربہ اور ساکھ کا اعلیٰ معیار ہوگا تا کہ وہ پاکستان کو تبدیلی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ ۲) وزیراعظم بذات خود اصلاحات کی نگرانی کریں گے اور اپنی ٹیم کی کارکردگی کی مینجمنٹ کریں گے۔ دیگر مقامات پر اصلاحات کے عظیم سفر کا جائزہ لیتے ہوئے ہمارے اصلاحاتی عمل کی نگرانی وزیراعظم عمران خان بذات خود کریں گے اور۔ اصلاحاتی ایجنڈے کے اہم نکات پر عملدرآمد کا ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے گا، تمام چیلنجز سے نمٹا جائے گا۔ اہم وزرا کی کارکردگی اور ایجنڈا کے حوالے سے کارکردگی چند اہم اشاریوں پر منحصر ہوگی تاکہ کارکردگی کی رفتار پر ایماندارانہ اور حقائق پر مبنی نکات کے تحت مباحثہ ہو سکے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تبدیلی آئے، صرف اس وجہ سے نہیں کہ منصوبہ سازی ہم کریں گے، بلکہ اس وجہ سے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مستقل اس منصوبہ پر عمل کیلئے کام کرتی رہے گی۔ ۳) وزیراعظم آفس میں ایک ریفارم یونٹ ہوگا جو تبدیلی لانے کیلئے کام کرے گا۔ کابینہ کے علاوہ، اصلاحات کے عمل کی حمایت کیلئے، عمران خان اصلاحات لانے والے رہنمائوں، ماہرین اور چیمپئنز پر مشتمل ایک چھوٹی ٹیم تشکیل دیں گے تاکہ وہ ان کے ویژن کے مطابق ملک میں تبدیلی کیلئے کام کر سکیں، یہ اعلیٰ کارکردگی کا حامل ریفارم یونٹ ان کے آفس میں کام کرے گا۔ یہ ٹیم پاکستان کے بہترین پیشہ ورانہ افراد پر مشتمل ہوگی، جنہیں سرکاری پس منظر رکھنے والوں یا پھر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والوں میں سے منتخب کیا جائے گا۔ ۴) ہم پاکستان میں انتہائی شفاف حکومت چلائیں گے۔ پاکستان میں حکومت نے ہمیشہ سے ہی کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ عموماً جو کام حکومت کرتی ہے وہ عوام کو نظر نہیں آتا۔ ہماری حکومت ایسی ہوگی جس کی کارکردگی عوام کو نظر آئے گی۔ اہم ترجیحات کے حوالے سے کارکردگی رپورٹ ہر تین ماہ بعد جاری کی جائے گی، تاکہ عوام، جو ملک کے اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں، اصلاحات کے اس سفر میں ہمارے ساتھ رہیں۔‘‘ واضح رہے اس سلسلے میں عمر ان خان اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اصل اہمیت ٹیم لیڈر کی ہوتی ہے اور میں ٹیم لیڈر ہوں، جانتا ہوں کہ اپنے ٹیم کے ارکان کی صلاحیتوں کا کس طرح استعمال کرنا چاہئے۔

تازہ ترین