• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کو پانچ سب سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، برطانوی اخبار

لندن (نیوز ڈیسک) پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کو پانچ سب سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کرکٹر سے سیاستدان بننے والے عمران خان کو تیزی سے سخت چوائسز سے کام لینا ہوگا۔ یہ بات برطانوی اخبار میل نے کی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ عمران خان کی زیر قیادت پاکستان کی نئی حکومت کو ہزاروں چیلنجوں کا سامنا ہے اور عمران خان کو تیزی سے سخت چوائسز سے کام لینا ہوگا۔ تجزیہ نگاروں نے وارننگ دی ہے کہ نئی حکومت کو تیزی سے کام لینا ہوگا کیونکہ ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے دہانے پر ہے۔ عمران خان کے نئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ وہ ستمبر کے آخر میں فیصلہ کریں گے کہ آیا5سال میں ملک کے دوسری بیل آئوٹ کے لیے آئی ایم ایف جائیں یا نہ جائیں۔ تاہم آئی ایم ایف کے ایک سب سے بڑے ڈونر امریکہ نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان بیل آئوٹ رقم چین کے قرضے واپسی کرنے کے لیے استعمال کرے گا جس کی پاکستان نے تردید کی ہے۔ گزشتہ5سال کے دوران بجٹ کے خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں بار بار کمی سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان نے بھارت کے ساتھ تجارت کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے تجارت کو آسان بنانے اور ٹیکس کلیکشن میں اضافے کی بات کی ہے۔ تاہم قومی مالیات کی حالت تعلیم اور صحت پر اخراجات میں اضافے پر مبنی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے ان کے وعدے کو متاثر کرسکتی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں سے پاکستان بھر میں سیکورٹی کی صورتحال ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے۔ تاہم تجزیہ نگار طویل عرصے سے وارننگ دے رہے ہیں کہ پاکستان انتہا پسندی کی بنیادی وجوہ سے نہیں نمٹ رہا اور انتہا پسند اب بھی حملے کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں الیکشن کے سیزن کے دوران حملے ہوئے جس میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ نئے وزیراعظم جنہوں نے انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کے اظہار پر ’’طالبان خان‘‘ کا لقب پایا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران سخت مذہبی موقف رکھنے والوں کے لیے باعث تقویت رہے اور اس سے ان خدشات نے جنم لیا کہ انتہا پسند ان کی قیادت میں نڈر ہوسکتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اپنی محدود خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ ایشیا میں ایک سب سے بڑی شرح پیدائش یعنی3بچے فی عورت کا حامل ہے اور1960ء سے آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے جو اب207ملین کو چھو رہی ہے اور ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کے لیے مزید کچھ نہیں کیا گیا تو ملک کے قدرتی وسائل آبادی کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ مسئلہ اس وجہ سے بھی بڑا ہے کہ عوام میں اسقاط حمل کی بات کرنا بھی پابندی کی زد میں ہے۔ عمران خان نے ماضی میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا اور دیکھنا یہ ہے کہ ان کی حکومت کس طرح آبادی میں اضافے سے نمٹے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکام نے پانی کی قلت دور کرنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات نہ کیے تو ملک ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر ہوگا اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے سیاسی پہل ضروری ہوگی۔ ماحول کے بارے میں اپنی پارٹی کے گڑھ خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کے عنوان سے درخت لگانے کے پروگرام کے حوالے سے عمران خان نسبتاً اچھے ٹریک کے حامل ہیں جس کو ماحولیاتی گروپوں نے سراہا ہے۔ آیا وہ اس تجربے کو ملک گیر واٹر کنزرویشن پروگرام میں تبدیل کرسکتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں۔ پاکستان نے اپنی 71سالہ تاریخ کا نصف حصہ فوجی حکومت کے تحت گزارا ہے اور سویلین حکومتوں اور مسلح افواج کے درمیان اختیارات کے عدم توازن کو جمہوریت اور ترقی کے لیے رکاوٹ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 2013ء میں امید بڑھی تھی کیونکہ اقتدار کی پہلی جمہوری تبدیلی عمل میں آئی تھی۔ تاہم ماہرین نے جنرلوں اور تیسری بار وزیراعظم بننے والے نوازشریف کے درمیان کشیدگیوں سے ہوا ملنے کے باعث رینگتے ہوئے انقلاب کی وارننگ دی تھی جس کا سبب یہ تھا کہ نوازشریف سویلین کی بالادستی اور کٹر مخالف بھارت کے ساتھ گرمجوشی کے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے تھے۔ وہ2017ء میں اقتدار سے ہٹا دئیے گئے اور جولائی میں کرپشن پر گرفتار کرلیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اوِر ان پارٹی کو فوج نے نشانہ بنایا۔ فوج نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ عمران خان نے جو پہلے ہی بھارت کی طرف سلسلہ جنبانی شروع کرچکے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اصرار کیا ہے کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر منتخب ہوئے ہیں اور اپنے پیروں پر پارلیمنٹ میں کھڑے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اقتدار کے اس نازک توازن کو الٹائے بغیر ملک کے چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔

تازہ ترین