• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب یہ تو ہمارے رحمن ملک صاحب اور صاحبان اقتدار کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ کیلنڈر ہی بدل دیں۔ وقت کی تقویم سے وہ چند دن خارج کر دیں جو ان کی حکمرانی پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ کوئی ایسا ”بائی پاس“ بنا دیں جو گنجان احساسات کی مشتعل بستیوں سے ہٹ کر گزر جائے لیکن جو کچھ ان کے بس میں ہے اسے بھی عام لوگوں کی زندگی پر اختیار حاصل کرنے کی طلسماتی قوت کا ایک اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کی کہانی پرانی ہوگئی۔ اگر دس بیس یا سو پچاس دہشت گرد موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کر کے اپنے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو انہیں ڈھونڈنے، روکنے اور پکڑنے کے دشوار عمل میں ناکامی کا اعتراف یوں کیا جائے کہ کسی شہر میں کچھ عرصے کے لئے ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جائے اور لاکھوں زندگیوں کی مشکلات میں اضافے کر کے اپنے بااختیار ہونے کا ثبوت دیا جائے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس پابندی پر عمل وہی کریں گے جو کسی حد تک قانون سے ڈرتے ہیں۔ کیا دہشت گرد قانون سے ڈرتے ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ کچھ پابندیاں ایسی بھی تو ہوتی ہیں جن کو مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے۔ سو لیجئے۔ سیل فون کی بندش کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کیجئے اور یہ سزا لاکھوں نہیں، کروڑوں افراد کے لئے ہے۔ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی جب کسی مخصوص مدت کے لئے، موٹر سائیکل کی سواری ہی پر پابندی کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سندھ ہائیکورٹ کی مداخلت کے بعد ہمارے حکمرانوں کو ممکنہ طور پر ایک عالمی ریکارڈ بنانے سے روک دیاگیا۔ یہ سچ ہے کہ محرم کے ان مشکل دنوں میں، فرقہ وارانہ دہشت گردی روکنے اور امن و امان قائم رکھنے کے لئے سخت انتظامات کی ضرورت ہے۔ اتوار کی شام کراچی میں ایک دھماکہ ہو چکا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دہشت گردی کے امکانات اس لئے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے قانون کی حکمرانی کا سارا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ معاشرے کی تنظیم جن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے مثلاً تعلیم، میرٹ کا احترام، قانون کا خواص اور عوام سب پر یکساں لاگو ہونا، ان پر ہم نے توجہ نہیں دی۔
یہ جو روش ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی لگا دو اور فون بن کر دو، یہ کئی معنوں میں موجودہ پاکستانی معاشرے اور حکمرانی کے بحران کی ایک علامت ہے۔ آپ جب بھی اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ ٹریفک کی افراتفری سے الجھتے ہیں۔ کسی سرکاری محکمے میں اپنے کسی کام کے لئے ایک کے بعد دوسرے دروازے پر دستک دیتے ہیں،کسی اجتماع میں شامل ہوتے ہیں،کسی ہجوم میں سے اپنا راستہ بناتے ہیں تو آپ جان لیتے ہیں کہ عناصر میں اعتدال اور ٹھہراؤ نہیں ہے اور اگر آپ اس گوشوارے میں یہ خوف بھی شامل کر لیں کہ نہ جانے کب، کہاں، کوئی پستول کی نوک پر آپ کا سیل فون اور بٹوہ لے اڑے تو اس معاشرے کی آپ کے ذہن میں بننے والی تصویر زیادہ تاریک ہو جائے گی اور ہاں، کسی نجی دعوت میں یہ کھیل کھیل کر دیکھئے کہ ہر مہمان یہ بتائے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ ہوا یا نہیں اور اگر ہوا تو کتنی بار۔ میرے حلقے میں سب سے ”اچھا“ اسکور میرے ایک برادر نسبتی کا ہے۔ پانچ دفعہ انہیں اسلحہ کے زور پر لوٹا گیا پولیس میں رپورٹ نہیں لکھوائی گئی لہٰذا پولیس سے جا کر یہ مت پوچھئے گا کہ کیا ہوا اور کس نے کیا۔
ان حالات میں قانون نافذ کرنے اور سیکورٹی کے انتظامات کرنے کیلئے جو اقدامات کئے جا سکتے ہیں وہ محدود ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر اور انتظامیہ پر اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ کرپشن اپنی جگہ، سرکاری کارندوں کی نااہلی یا بیگانگی کا رویہ سارے عمل کو پراگندہ کر دیتا ہے۔ انتظامیہ کے پاس ایک زنگ آلود ہتھیار دفعہ 144 کا ہے۔ ناکے لگا کر گاڑیوں اور مسافروں کی تلاشی بھی روایت کا حصہ ہے۔ بات بڑھ جائے تو ہیبت ناک کینٹنر لگا کر راستے بند کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی لگ سکتی ہے۔ موبائل فون خاموش کر دیئے جاتے ہیں۔ اس سے آگے کرفیو نافذ کرنے کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ گویا طاقت کے استعمال کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔
جو بنیادی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ طاقت کا یہ مظاہرہ دراصل انتظامیہ یا نظام کی بے طاقتی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ کسی بھی مہذب اور منظم معاشرے میں لوگ قوانین پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ ہر موڑ پر کوئی وردی پہنے، بندوق لئے کھڑا ہے۔ اگر یہ صورت حال معمول بن جائے تو آپ جان لیں کہ معاشرہ اپنے مدار سے ہٹ رہا ہے اور افراد اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں۔ عمرانیات کے ماہر اور سماجی مسائل کا مطالعہ کرنے والے مبصر یہ جانتے ہیں کہ کسی معاشرے کا توازن کن حالات میں قائم نہیں رہتا۔ جو نشانیاں بتائی جاتی ہیں وہ ہماری آنکھوں کے سامنے رقصاں ہیں۔ توہم پرستی بھی ایک علامت ہے جسے ہم عقلیت کی ضد بھی کہہ سکتے ہیں۔بے راہ روی، خواہ ذہنی ہو یا معاشرتی، بڑھ رہی ہے۔ اپنی بات منوانے کے لئے تشدد کا استعمال جائز سمجھا جانے لگا ہے۔ خوف و دہشت کی فضا میں نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک انتہائی اہم اور قدرے پیچیدہ علامت وہ کشمکش ہے جو تقریباً ہر فرد کے اعصاب کو شل کئے دے رہی ہے۔ یہ کشمکش ذاتی اخلاقی قدروں اور معاشرے کی بے لگامی کے درمیان تضاد سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں، کچھ بھی کرتے ہوں، قدم قدم پر آپ کا امتحان لیا جاتا ہے کہ آپ کتنے ایماندار اور اصول پرست ہیں۔ کب کب آپ سمجھوتے کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ کتنی بار آپ کا ضمیر آپ سے جھگڑتا ہے اور اگر نہیں جھگڑتا ہے تو یہ تو اور بھی زیادہ خوفناک بات ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ یہ ہم کہاں آ گئے اور یہاں تک کیسے پہنچے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اب ہمارے لئے عافیت کا راستہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پہلا سوال اس لئے زیادہ اہم ہے کہ اس کے جواب کے بغیر ہم مستقبل کا زائچہ نہیں بنا سکتے۔ میں نے ان موجودہ نشانیوں کا سرسری حوالہ دیا ہے جو اقتدار یا نظام کی بے بسی اور بے طاقتی کا مظہر ہیں۔ لیکن مسائل اس لئے اتنے زہرآلود ہوگئے کہ صحیح وقت پر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب یہ جو عدم مساوات ہے، غریبوں اور امیروں کے درمیان یہ کسی چور دروازے سے تو داخل نہیں ہوئی، شروع سے تھی۔ سماجی انصاف کا نہ ہونا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ تعلیم اور ایسی تعلیم جو ہر فرد کو اس کی اپنی صلاحیت کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے، کبھی رائج ہی نہیں تھی لیکن اس کالم کا آغاز میں نے امن و امان قائم رکھنے کے جس مسئلے سے کیا تھا اس کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے یعنی یہ کیسے ہوا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوتا گیا، ہوتا گیا اور ملک کی تقدیر کے رکھوالے دیکھتے رہے یا انہوں نے اس جنگجویانہ سوچ کے مضمرات کو نہیں سمجھا اور اس پر قابو پانے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ جلوس کا راستہ روکنے کے لئے تو کنٹینر لگائے جا سکتے ہیں، آنسو گیس استعمال کی جا سکتی ہے، گولیاں بھی چلائی جاسکتی ہیں۔ معاندانہ سوچ کا راستہ کیسے روکا جائے؟ موبائل فون مختصر وقفوں کے لئے اور یوٹیوب ایک طویل عرصے کے لئے بند کر دینا کتنا آسان ہے۔ یہ کر کے شاید ہمارے حکمراں اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ بہت بااختیار ہیں۔ ان کے پاس پولیس ہے، فوجی اور نیم فوجی دستے ہیں۔ ان کے محافظ، بندوقیں تانے، ان کے گرد کھڑے ہیں۔ وہ خود کو بہت محفوظ سمجھتے ہیں لیکن کیا پاکستان، پاکستان کا معاشرہ، پاکستان کے عام شہری… وہ بھی محفوظ ہیں؟
تازہ ترین