• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ … مریم فیصل
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب کپتان خان وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوگئے اور انھوں نے باقاعدہ حلف بھی اٹھا لیا ۔ حلف برداری کے دوران ان کا جو انداز تھا وہ ایک سیدھے سادھے عام آدمی کا تھا جس نے نہ ہی بھرم کی تھالی تھامی ہوئی تھی نہ ہی ملک کا اتنا بڑا عہدہ ملنے کے خمار سے اس کی گردن تنی ہوئی تھی ۔ اتنی بڑی تقریب میں شرکت کے لئے انھوں نے شاید کسی قسم کی ریہرسیل سے گزرنے کی بھی زحمت نہیں کی جو انھیں کچھ بھرم ہی سیکھا ہی دیتی ۔ ہر ٹی وی چینل کے کیمرے کی آنکھ بطور وزیر اعظم پاکستان ان کی ایک ایک حرکت کو محفوظ کر رہی تھی لیکن خان صاحب ہر قسم کے تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر، جو ایسے موقع پر نئے منتخب وزیراعظم کے انداز میں خودبخود ہی انسٹال ہوجاتے ہیں ، بالکل ایک عام آدمی کی طرح خود اعتمادی سے حلف لے رہے تھے ۔ البتہ ان کی فاتحانہ مسکراہٹ ان کی بائیس سالہ جدوجہد کی ایسی شاندار کامیابی پر بار بار ان کی چہرے پر ضرور چمکنے لگتی تھی ۔ مجھے ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ کے وہ مناظر نظر آرہے تھے جہاں کے منتخب وزیر اعظم بھی کسی قسم کے بھی تکبرانہ انداز سے لدے بندھے نہیں ہوتے بس مدعکی بات کرتے ہیں ۔ شاید یہی انداز خان صاحب نے بھی برطانیہ میں پڑھ کر سیکھا ہے جبھی اپنی تقاریر میں بھی وہ بارہا برطانوی حکومت اور یہاں کے سسٹم کی مثالیں دیتے رہے ہیں جس کو وہ پاکستان میں بھی دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔کیا واقعی ایسی ہی ہوگا نیا پاکستان جہاں مکملنظام ہوگا جہاں لا قانونیت نہیں ہوگی جہاں غربت کم ہوگی اور ہر کوئی ایک مطمئنزندگی گزارتا نظر آئے گا ۔بطور ایک برٹش پاکستانی کے موازانہ تو ہم ضرور ہی کرتے ہیں کہ جس طرح یہاں ہمیں دودوھ کی نہریں تو نہیں بہتی نظر آتیں لیکن کم از کم ہمارے بچوں کو دودھ جیسی بنیادی اشیاء کی لئے ترسنا بھی نہیں پڑتا ہے اورملاوٹ سے پاک غذا میسر ہو جاتی ہے ۔یہاں علاج معالجے کے لئے اگر فرشتے نہیں بھی موجود ہیں لیکن بنیادی سہولیات اور ادویات تو ہر کسی کی دسترس میں ہیں ۔ یہاں اگر امیر طبقہ موجود ہے تو متوسط طبقہ بھی اس سے کسی طور بھی پیچھے نہیں ہے ۔ یہاں اگر پرائیوٹ تعلیمی ادارے قائم ہیں تو سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بھی اسی نصاب کے تحت پڑھ کر اچھا کئیریر بنا رہے ہیں ۔ بس یہی سب اور اتنا ہی ہم پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہربنیادی سہولت پاکستانیوں کو با آسانی میسر آجائے اور یہی امیدیں اس وقت نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم سے وہاں کی عوام کو ہے ۔ آج کل ہم سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ بھی دیکھ رہے ہیں جس میں لوگ درختوں میں پیسے لٹکنے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ظاہرہے ایسا تو برطانیہ کیا امریکہ جیسی سپر پاور میں بھی ممکن نہیں لیکن اس کی تعبیر ایسی تو ضرور ہونی چاہیے کہ ہر کسی کو ایسا مناسب روزگار میسر آجائے جس سے روٹی کپڑا اور مکان کاخواب ضرورملے ۔خان صاحب کے سامنے عوام کی قوقعات کا بڑا پہاڑ کھڑا ہے کیونکہ جیت کا پہلا مرحلہ تو بائیس سال بعد سر کرہی لیا ہے لیکن اکہتر سالہ پاکستان میں مسائل کے ایسے انبار لگے ہیں جن کو پھلانگ کر گزرنا نہیں بلکہ ان کا خاتمہ ہی ان کے اقتدار کی کامیابی کی ضمانت بنے گا ۔مبصرین خان صاحب کو آئیڈیلزم کو شیدائی مانتے تھے لیکن کامیابی حاصل کرنے کے لئے انھوں نے اپنے کئی اصولوں کو نرمی کی چادر میں لپیٹ دیا جس کو ان کے یوٹرن لینے کا انداز گردانا گیا لیکن شاید یہی یوٹرن انھیں وزیر اعظم بنا گیا ۔ اب انھیں کیا کیا کرنا ہے وہ ان کے سامنے ہے اور عوام ان سے کیا کیا چاہتے ہیں وہ بھی واضح ہے اور ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا واقعی ویساہی ہوگا نیا پاکستان جہاں راوی چین ہی چین لکھے گا ۔
تازہ ترین