فکر جہاں…محمد مہدی امریکی معاشرے میں یہ تصور نہایت راسخ ہے کہ امریکی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء میں بنیادی نوعیت کی اہمیت آزادیٔ اظہار کو حاصل ہے اور اگر اس آزادی کو سلب کر لیا گیا یا ایسا تاثر بھی قائم کر دیا گیا کہ بات کرنے کی آزادی خطرے میں ہے یا قصہ پارینہ بنائی جا سکتی ہے تو دو صدیوں پر محیط امریکی جمہوریت ڈانواں ڈول بلکہ خود ماضی کی داستان بن کر رہ جائے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے وہ اپنے جارحانہ اقدام کے سبب سے دنیا میں اپنی شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جن اقدامات کا اپنی انتخابی مہم کے دوران نعرہ بلند کیا تھا وہ ان کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔ یورپ سے امریکہ کے تعلقات ہوں یا معاملہ کینیڈا اور چین کا ہو دنیا دیکھ رہی ہے کہ ’’ثابت قدم‘‘ ثابت ہو رہے ہیں اس لیے جب انہوں نے امریکی صحافی برادری کے حوالے سے تندوتیز فقروں اور سخت الفاظ کا چنائو کیا تو امریکہ میں موجود اہل صحافت تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ عمومی طور پر کسی ملک کے سربراہ یا صف اول کے سیاستدان صحافیوں سے پریس کانفرنس کے دوران اظہار ناپسندیدگی کو عیاں نہیں کرتے مگر صدر ٹرمپ نے اس اخلاقی اصول کو اس وقت پامال کر ڈالا جب انہوں نے CNNکے صحافی جم اکوسٹا کو دوران پریس کانفرنس سوال کرنے سے روک دیا اور کہا کہ تمہارا ادارہ فیک نیوز ہے۔ یہ صرف ایک تنہا واقعہ نہیں اہل صحافت سے ان کا معاندانہ رویہ اس وقت مزید سامنے آیا جب انہوں نے اپنے تئیں شرارتاً 2017 میں اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کو از خود ہی فیک نیوز ایوارڈ بھی جاری کر ڈالا۔ میڈیا کو عوام دشمن ثابت کرنے میں جُت گئے اور ان کے ان اقدامات کے نتیجے کے طور پر ان کی جماعت ری پبلکن پارٹی کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد میڈیا کے متعلق ایسی ہی گفتگو کو سچ سمجھنے لگی۔ اہل صحافت اس صورتحال کو بہت تشویش سے دیکھ رہے تھے اور محسوس کر رہے تھے کہ کہیں صدر ٹرمپ اپنے کسی صدارتی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسا اقدام نہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ جس سے آزادی صحافت پر زد پڑتی ہو۔ بوسٹن گلوب نے سب سے پہلے اس جانب نہایت سنجیدگی سے توجہ دی اور اداریے تحریر کرنا شروع کر دیئے جن میں یہ بتایا گیا کہ ہماری تنقید یا تاریخ امریکہ کی بہتری کے لیے ہوتی ہے اور ہمارے اس حق کے راستے میں اگر روڑے اٹکائے گئے تو امریکہ کی دو صدیوں پر مشتمل جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ بوسٹن گلوب کی اس مہم نے اس وقت ایک شاندار عروج حاصل کیا جب امریکہ کے تقریباً 350اخبارات نے ایک دن ہی آزادیٔ صحافت کے موضوع پر اداریے چھاپنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر عملدرآمد بھی کر ڈالا۔ ایک دن میں 350اخبارات کا ایک ہی مؤقف رکھتے ہوئے اداریوں کو چھاپ ڈالنا امریکہ میں اس گفتگو کو ایک نیا رنگ دے گیا کہ چاہے صدر جتنے مرضی طاقتور ہوں مگر صحافی بھی اپنی بات کہنے کے حق سے دستبردار ہونے سے امریکہ کی مخالفت سمجھتے ہیں اور اس نے اپنے اس حق کو کسی شک وشبہ میں نہیں ڈالنا چاہا۔ امریکی اخبارات کے اس اقدام کو صدر ٹرمپ نے ’’حزب اختلاف کی جماعت‘‘ قرار دیا۔ وال اسٹریٹ جنرل نیو یارک پوسٹ کی سطح کے اخبارات نے اداریوں کے اس مشترکہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا۔ لیکن اس کو نہ درست کہنے کا سبب یہ نہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں بلکہ انہوں نے واضح کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا حق ہے کہ وہ معاملات پر جس طرح چاہیں خیالات کا اظہار کریں اور ان کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اخبارات میں موجود دونوں نظریات اس پر یکجا ہیں کہ آزادیٔ اظہار پر کسی صورت کمزوری نہیں دکھائی جاسکتی۔ اگر کمزوری دکھائی گئی تو امریکہ کی جمہوریت کہ جس کے سبب سے ہی آج وہ دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقت کے طور پر موجود ہے، کو بے پناہ نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں بلکہ یقین ہے۔اوپر لکھی امریکی مثال میں پاکستانی میڈیا کے لئے ایک سبق چھپا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں۔