• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بننے پر مبارک۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد ہماری اُن سے ملاقات ہوئی تو خان صاحب کو اپنی جیت پر خوش پایا۔ وہ اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہے تھے۔ اس خوشی کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے پہاڑ جیسے مسائل کی وجہ سے فکر مند بھی تھے۔ خان صاحب پُر امید تھے کہ ِان مسائل کو حل کرنے میں وہ ان شاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔ اُن کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ لوگوں کی اُن سے جو توقعات ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ خان صاحب پاکستان کے مالی حالات کے بارے میں کافی پریشان تھے لیکن اُنہیں بھروسہ تھا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر اور بیرون ملک پاکستانیوں کی مدد سے وہ پاکستان کو موجود معاشی مشکلات سے کامیابی سے نکال لیں گے۔ میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ کیا خان صاحب اپنے نئے رول کے مطابق اپنے آپ کو بدلیں گے اور ایک مشکل اور طاقت ور اپوزیشن کے ہوتے ہوئے اُس ایجنڈے کی تکمیل کر پائیں جس کا اُنہوں نے عوام سے وعدہ کیا۔ میں نے خان صاحب کو کہا کہ اُنہیں اب اپنا دل بہت بڑا کرنا پڑے گا گزشتہ پانچ سال والے لب ولہجہ چھو ڑنا پڑے گا اور ایک statesman بن کر ہی ایک مضبوط اپوزیشن کو ساتھ لے کر نظام میں اصلاحات اور تبدیلیاں لانی پڑیں گی جس کے لیے قوانین کے ساتھ ساتھ آئین میں بھی ترمیم کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے میرے ساتھیوں نے خان صاحب سے کہا کہ الیکشن جیتنے پر اُن کی تقریر بہت اچھی تھی۔ میں نے اُن سے کہا کہ اُنہوں نے بہت اچھا کیا کہ جن لوگوں نے اُن پر الزامات لگائے اور اُن کو بُرا بھلا کہا اُن کے بارے میں اپنی تقریر میں اُنہوں نے کہا کہ میں یہ سب بھول کر آگے چلنا چاہتا ہوں۔ میری خان صاحب سے گزارش تھی کہ بہت اچھا ہوگا کہ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اُن لوگوں سے بھی معذرت کر لیں جن کے بارے میں گزشتہ چار پانچ سالوں کے دوران اُنہوں نے غلط الزامات لگائے۔ میں نے یہ بات دوبارہ کی تو محسوس کیا کہ خان صاحب شاید ایسا نہیں کرنا چاہتے لیکن انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ماضی کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔ خان صاحب اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے میڈیا کا تعاون چاہتے ہیں۔ میڈیا کو یقیناً حکومت کے ہر اچھے کام میں مدد کرنی چاہیے لیکن جب کسی حکومت کے کسی کام پر تنقید کی جاتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں میڈیا کو اپنا دشمن سمجھ لیتی ہیں۔ تعمیری تنقید اور ایسی خبریں جو حکومت کو پسند نہیں ہوتیں اُنہیں سازش سمجھا جاتا ہے۔ خان صاحب نے اس بات کا یقین دلایا کہ میڈیا کی آزادی کا وہ احترام کریں گے اور تنقید کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ اُن کو گزشتہ چار سال کا حوالہ دیا گیا جس دوران جنگ گروپ خاص طور پر اُن کی نشانہ پر رہا۔ میں نے خان صاحب کو کہا کہ ہم تو گزشتہ چار پانچ سال والے عمران خان کو جانتے ہی نہیں بلکہ 2013 سے پہلے والا اُس عمران خان کو جانتے ہیں جو تنقید کو خوشدلی سے برداشت کرتے تھے۔ خان صاحب نے یقین دلایا کہ اب آپ کو 2013 سے پہلے والا عمران خان ہی نظر آئے گا۔ میری دعا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ انتخابات جیسے بھی ہوئے اب اس ملک کو سیاسی استحکام چاہیے جو معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ نظام میں بہتری لانے کے لیے وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ بہت سوں کی توقعات کے برعکس قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ن لیگ کے احتجاج سے چڑ کر خان صاحب نے وہ تقریر کی جو اُن کی الیکشن جیتنے کے بعد کی گئی تقریر کے بالکل برعکس تھی۔ ایسا محسوس ہوا اور بعد میں شاہ محمود قریشی صاحب کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے بھی ظاہر ہوا کہ وزیر اعظم کے انتخاب پر عمران خان کوئی اور تقریر کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن کے احتجاج نے اُنہیں غصہ دلا دیا اور وہ ایسی تقریر کر بیٹھے جس کا لہجہ قائد ایوان کی بجائے کسی اپوزیشن لیڈر کا لگا۔ خان صاحب کو اب بہت برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اب وہ حکومت میں ہیں۔ وہ احتساب ضرور کریں لیکن احتساب کسی فرد کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ آزاد اور خودمختار اداروں کے ذریعے میرٹ کی بنیاد پر شفاف انداز میں کیا جانا چاہیے۔ احتساب میں سیاسی انتقام کی کوئی جھلک نظر نہیں آنی چاہیے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ احتساب across the board ہو۔ شیخ رشید صاحب نے ایک دو روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن کے کچھ رہنمائوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو تین ماہ میں ان سب کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے خان صاحب کی بھی یہ خواہش ہو لیکن کون کرپٹ ہے اور کس کو پکڑا جانا چاہیے اس کا فیصلہ شیخ رشید یا خان صاحب کو نہیں کرنا بلکہ یہ کام ایف بی آر، ایس ای سی پی، ایف آئی اے اور نیب جیسے اداروں کو آزاد اورخود مختار بنا کر اُن پر چھوڑا جائے کہ وہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کرپٹ اور بدعنوان کے خلاف ایکشن لیں چاہے اُس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا ادارہ یا شعبہ سے ہو۔ شیخ صاحب کی خواہش پر اگر حکومت چل نکلی تو پھر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور اپوزیشن آپس میں دھینگامشتی میں ہی لگے رہیں گے اور نقصان پاکستان اور عوام کا ہو گا۔ انتخابات سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کے الزامات کے ازالہ کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے پارلیمانی کمیشن بنانے کے مطالبہ کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس سے اپوزیشن کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر احتجاج کرنے کا جواز ختم ہو جائے گا اور خان صاحب کو موقع ملے گا کہ وہ توجہ سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا کام کر سکیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین