• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعجب تو یہ کہ سرے محلوں ،پاناموں ،اقاموں کا دفاع کرنے ،ہر بڑے کی انکوائری ،تفتیش ،احتساب میں سازش تلاش کر کے مخالفتیں کرنے ،سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بلدیہ فیکٹری تک سب کچھ ہضم کر جانے اور آخری دموں تک پرانے پاکستان کی جنگیں لڑنے والے بھی اب واویلے کر رہے کہ کہاں ہے ریاست ِ مدینہ۔

جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا ، گالم گلوچ ،نعرے بازی ،افراتفری ، بھگڈر ، اسکے بعد یہ توقع رکھنا کہ پارلیمنٹ کی عزت ہوگی ، کسی مذاق سے کم نہیں ، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار وں کی گلے پھاڑ پرفارمنس اپنی جگہ ،لیکن کمزور اسپیکر شپ ، گیلری سے چیختے ،چھنگاڑتے جیالوں نے ماحول کو ’’چار چاند‘‘ لگادئیے ،چلو اپوزیشن کا شورشرابہ ، بھڑاس نکالنا تو سمجھ میں آئے، یہ ہارے ہوئے، اقتدار چھن چکا ، سب کچھ برداشت سے باہر ، ان کا تو کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے بنتا، مگر جو حکومتی بنچوں نے جواباً کیا ، وہ سمجھ سے بالاتر ،جیتے ہوؤں کو یقینا دل بڑا ،حوصلے ، برداشت ، صبر سے کام لینا چاہئے تھا ،لہذا وہی ہوا ، نہ عمران خان وہ تقریر کر سکے جو کرنا چاہتے تھے ،نہ شہباز شریف وہ کہہ سکے جو انہوں نے کہنا تھا ، البتہ بلاول بھٹو نے اچھی تقریر کی مگر بات وہی کہ اچھی انتخابی مہم اور عمدہ تقریر کے بعد کیا لاڑکانہ کے کھائے گئے 90ارب واپس عوام پر لگ گئے ،کیا 35ہزار رفاعی پلاٹوں کی بندر بانٹ کا معاملہ حل ہو گیا ، کیا کراچی کوڑے کرکٹ سے صاف ہوچکا ، کیا سندھ کی غربت ،بیڈ گورننس ، کرپشن ختم ہوگئی ،کیا صاف پینے کے پانی سے روزگارتک اور دووقت کی روٹی سے ڈنگر اسپتالوں تک، قبرستان بنے سندھ کی حالت بہتر ہوچکی ،اگر نہیں تو پھر بہت ہو چکی تقریریں ،خوبصورت باتیں ،انگریزی ،اردو کے مکسچرز ،اب بھاشن نہیں ،راشن دیں ،اب قول نہیں ،فعل کی ضرورت،اب بھٹو ، بی بی کے فرمان نہیں ،عملی اقدامات کی طرف آئیں ،اب خواب نہیں ،تعبیر چاہئے ،اب وعدے ،دعو ے نہیں ،کام ،کام اور کام۔

آپ ذرا سی دیر کیلئے بلاول کے سندھ کی الف لیلیٰ کرپشن داستانوں کوا یک طرف رکھیں، صرف آڈیٹر جنرل پاکستان کی گزشتہ مالی سال ،ہاں صرف ایک سال کی رپورٹ پڑھ لیں ،آڈیٹر جنرل کے مطابق 12مہینوں میں ،سندھ میں 274ارب کے مالی گھپلے ہوئے ،کہیں ٹینڈر میں شفافیت نہیں تو کہیں ٹینڈر جاری کرنے کی سرے سے زحمت ہی نہ ہوئی ،بچوں کی نصابی کتابوں سے حفاظتی ٹیکوں تک ،سندھ کے حکمرانوں نے اربوں کے ٹیکے کچھ اس طرح لگائے کہ سندھ کا محکمہ خزانہ 50ارب کا حساب ہی نہ دے سکا ، محکمہ صحت کے پاس 16ارب کے اخراجات کا ریکارڈہی نہیں ، 4ارب کا کچھ نہ بتاپا نے والے محکمہ توانائی نے ’’کے الیکٹرک ‘‘کو 5ارب کی غیر منصفانہ ادائیگی بھی کردی ، محکمہ خوراک نے ایک ارب کہاں کر دیئے، کچھ معلوم نہیں ، محکمہ اطلاعات نے 3ارب کہاں لگا دیئے، کچھ پتا نہیں ،محکمہ آبپاشی کے پاس ساڑھے 5ارب کا ڈیٹا ہی نہیں، اسکول بنے نہیں فرنیچر 6کروڑ کاخرید لیا گیا، سندھ کول اتھارٹی نے بنا ٹینڈر ساڑھے 7ارب کی خریداری کر لی، محکمہ داخلہ کے بجلی کے بلوں میں ایک ارب کے گھپلے، 30کروڑ کی دوائیاں بغیر ڈرگ ٹیسٹنگ، 5کروڑ کی ادویات زائد المدت لے لی گئیں، سندھی بھوکے مررہے جبکہ پونے ارب کی گندم کھلے آسمان تلے پڑی پڑی گل سڑ گئی، یہ تو چند مثالیں ،اسکے علاوہ درجنوں کہانیاں او ربھی۔

اب اس صورتحال میں بلاول کی اسمبلی فلو ر سے قوم کو بھاشن بازی ،یقین جانئے یہ اسی ملک میں ممکن ،بھلا کسی مہذب ملک میں یہ کر کے کوئی لیڈر لائیو لیڈریاں کر سکے ،کسی تہذیب یافتہ معاشرے میں ایسی کارکردگی والی لیڈر شپ کو قوم کندھوں پر بٹھاتی ہے ،آگے سنیے، 2010میں ایف آئی اے کو خفیہ اطلاع ملی کہ چار جعلی اکاؤنٹس میں بھاری رقمیں آجارہیں ،انکوائری شروع ہوئی ، دائرہ کار وسیع ہوا، بات 4سے 29مشکوک اکاؤنٹس تک ،چند ٹرانزیکشن سے 10ہزار ٹرانزیکشن تک اور 35ارب کی رقم 250ارب تک جا پہنچی ،جب یہ بات پھیلی ،معاملے کی بھنک متعلقہ حلقوں تک پہنچی ،سندھ کی بااثر شخصیا ت حرکت میں آئیں، انکوائری رک گئی اور کئی سال رکی یا رینگتی رہی، یہاں تک کہ دوست رؤف کلاسرا نے یہا سکینڈل بریک کیا، مسلسل پیچھا کیا ،آخر کار سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، کیس کو پہیے لگے اور پاناما لیکس کے بعد ملک کے اس بڑے مالی گھپلے یا منی لانڈرنگ کی کڑیاں انور مجید، حسین لوائی، فریال تالپور سے ہوتی ہوئی آصف علی زرداری سے جا ملیں، بھلاہو چیف جسٹس کا جو مستقل مزاجی سے ڈٹے ہوئے ،جنہوں نے دھڑا دھڑ بلیک سے ہوتی وائٹ رقموں کے طاقتور ترین نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا ، گرفتاریاں کروائیں ، نام ای سی ایل میں ڈلوائے اور اب یہ کیس حتمی مراحل میں ، اس کیس کے حوالے سے جہاں ڈی جی ایف آئی اے عدالت کو بتا چکے کہ میرے پاس تمام ٹھوس شواہد موجود کہ یہ بلیک منی جسے وائٹ کیا جارہا ،وہاں یہ بھی سنتے جایئے کہ کسی اور کے نام پر اکاؤنٹس کھول کر رقمیں یوں آجارہی تھیں کہ سپریم کورٹ میں وہ خاتون بھی لائی گئی جو کراچی سے اسلام آباد کا کرایہ مانگ کر آئی مگر اس کے اکاؤنٹ میں سوا 4ارب تھے۔

ایک معمولی ملازمت کرتے نوجوان نے بتایا کہ ’’میرے اکاؤنٹ میں 8ارب منتقل ہوئے‘‘ یہ صرف سندھ جہاںپی پی کی حکومت 10سال پورے کر چکی ،ایسی کارکردگی والے سندھ کا مالک بلاول پھر بھی خوبصورت تقریریں کر رہا ، قوم پھر بھی سر دھن رہی، اللہ ہی حافظ پاکستان کا ، جیسا پہلے کہا یہ سندھ کی ایک جھلک ، 56کمپنیوں کے اسکینڈل اور بینک کرپٹ ہوچکے پنجاب ،پسماندگی کی دلدل میں ڈوب چکے بلوچستان اور ابھی تک وار زون بنے خیبر پختونخوا کی داستانیں الگ ،یہ اپنے رہنماؤں کے ہی کرتوت کہ آج ،دریا ،نہریں موجود مگر پانی نہیں ،پی آئی اے ہے مگر جہا ز نہیں ،اسٹیل مل حاضر مگر پیداوار غائب ، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک موجود مگرپیسے نہیں ، وزارت تجارت سر اُٹھائے کھڑی مگرتجارت نہیں ، خارجہ کی وزارت ،سفیروں کے لاؤ لشکر سمیت موجود مگرخارجہ پالیسی نہیں ،وزارت داخلہ ، امن وامان کے لاتعداد محکمے موجود مگرامن نہیں ،عدالتیں ہیں مگرانصاف نہیں ،منشور ہے مگرعمل نہیں ،ہم زندہ قوم ہیں مگر راج کر رہی قبریں ، اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں مگرگھر گھر تقسیم ہوچکا اور ہم آزاد خود مختار ہیں مگرامریکہ ،چین ،آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک کے شکنجے میں ،اب بھی اگر قوم نواز شریف کے بیانیے سننا چاہتی ہے ،شہباز شریف کی مائیگ گراؤ پرفارمنس دیکھنا چاہتی ہے ،بلاول بھٹو زرداری کی خالی خوبصورت باتوں پر بھنگڑے ڈالنا چاہتی ہے ،اچکزئی صاحب سے اسفند یارولی تک کو پھر سے آزمانا چاہتی ہے۔ اور سراج الحق کی میٹھی گفتگو سے پیٹ بھرنا چاہتی ہے تو بسم اللہ ،پہلے کسی نے روکا نہ اب کوئی روکے گا ، بھک ننگ گھروں میں ناچ رہی اورگھر کے مکین سیاسی مزاروں پر ، جنا تیری مرضی نچا بیلیا۔

یہ تو تھا پرانا پاکستان ،اب ذرا نئے کا حال بھی سن لیں ، بلاشبہ کپتان کو اپنی ٹیم چننے کا حق ،بلاشبہ فائدے ،خسارے کے وہی ذمہ دار اور بلاشبہ انہیں مناسب وقت بھی ملنا چاہئے لیکن جو تقرریاں کیں وہ کمال کی ،چوہدری سرور گورنر پنجاب ، مسلم لیگ ن کی گورنری بھگتا کر اور اپنی پارٹی بنانے میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف میں آئے چوہدری صاحب کے عمران خان کے حوالے سے جو خیالات تھے ،وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، پنجاب کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی ق لیگ کے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار قتل مقدمے ،کرپشن معاملے جھوٹے یا سچے یہ ایک طرف رکھ دیں ،بتانا یہ کہ تحصیل ناظم ق لیگ کے تھے ، ایم پی اے ن لیگ کے رہے ، اب ڈھائی ماہ سے تحریک انصاف میں ،وفاقی کابینہ میں بیرسٹر فروغ نسیم ،مشرف کے وکیل ،چوہدری طارق بشیر چیمہ ق لیگ ،غلام سرور خان مشرف دور کے وزیر ،مخدوم شاہ محمود قریشی پی پی دور میں وزیرخارجہ، شاہ صاحب نے بحیثیت وزیر خارجہ اپنے وفاقی دارالحکومت کے ایک دوست کو’’ ایمبیسڈرایٹ لارج‘‘ لگا کر 50ملکوں کے دورے کروائے ، ڈیڑھ کروڑ ٹی ڈی اے بھی لیکر دیا۔

شیخ رشید احمد (کس دور میں وزارت کے مزے نہیں لوٹے ) ،فہمیدہ مرزا بحیثیت اسپیکر قومی اسمبلی پیپلز پارٹی دور میں 80کروڑ قرضہ معاف کروایا ، خالد محمود صدیقی (پہلے بھی وزیررہ چکے )،زبیدہ جلال مشرف کابینہ کی وزیر ،عبدالرزاق داود ،مشرف دور میں وزیر تجارت ،سنگین الزامات ،عشرت حسین پہلے اصلاحات میں ناکام ہو کر پھر سے اصلاحات کریں گے ،بابر اعوا ن نندی پور پاور پروجیکٹ الزامات ، انہیں نیب نے بلایا ہوا ،تو یہ وہ پرانے مستری جو کپتان کی سربراہی میں نیا پاکستان بنائیں گے ،اللہ خیر ہی کرے ، لیکن کپتان کی ٹیم پر ہوتی تنقید ایک طرف،زرتاج گل ،فرخ حبیب ،فیصل واڈا جیسے نظرانداز ہوچکے پی ٹی اے چہرے ، وعدے ،دعوے ایک طرف ،توقعات اور جلد ازجلد خواہشیں پوری ہونے کی خواہش دوسری طرف مگر ان سب باتوں کے باوجود مجھے تعجب تو یہ کہ سرے محلوں ،پاناموں ،اقاموں کا دفاع کرنے ،ہربڑے کی انکوائری ،تفتیش ،احتساب کو سازش میں تلاش کرکے مخالفتیں کرنے ،سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بلدیہ فیکٹری تک سب ہضم کر جانے اور آخری دموں تک پرانے پاکستان کی جنگیں لڑنے والے بھی اب واویلے کر رہے کہ کہاں ہے ریاست ِ مدینہ۔

تازہ ترین