• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آپ کو اپنے ایک پرانے ایڈونچر کی کہانی سناتا ہوں۔ یہ میری جوانی کے دن تھے۔

خیبر میل فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی میری منزل حیدر آباد تھی اور میں تھرڈ کلاس ڈبے میں بیٹھا اپنے سمیت دوسرے مسافروں کی کسمپرسی پر غور کررہا تھا۔ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ خریدتے ہوئے تو میں ا یڈونچر کے موڈ میں تھا مگر اب یہ ایڈونچر میرے لئے وبال جان ثابت ہورہا تھا’’کیونکہ اس ڈبے میں اگر سو مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی تو لاہور سے خانیوال تک کے سفر کے دوران میں غالباً دو سو مزید مسافر بغیر ریزرویشن کے سوار ہوچکے تھے۔ سو اس وقت صورتحال یہ تھی کہ جس نشست پر میں بیٹھا تھا وہ چار مسافروں کیلئے تھی مگر اب سات مسافر اس پر براجمان تھے۔ یہی حال دوسری نشستوں کا بھی تھا، مگر اصل تکلیف دہ صورتحال توان درویش صفت مسافروں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی جو فرش پر بیٹھے تھے اور کچھ اس طرح ایک دوسرے میں پیوست تھے کہ نوبیاہتا لگتے تھے۔ بوگی کے دونوں دروازے بھی ان فرش نشینوں کی وجہ سے بند ہوچکے تھے اور واش روم(ان دنوں اسے لیٹرین کہا جاتا تھا) تک رسائی بھی ممکن نہیں تھی کیونکہ اس کے سامنے بھی مسافر اکڑوں بیٹھے تھے۔ سو اب صورت یہ تھی کہ باہر سے کوئی مسافر اس ڈبے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا اور ڈبے کا کوئی مسافر باہر نہیں جاسکتا تھا۔

میں صبح دس بجے سے اس بلیک ہول میں بند تھا اور اب شام ہونے کو تھی گاڑی آہستہ آہستہ خانیوال اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں داخل ہورہی تھی اور بالآخر وہ ایک ہلکے سے دھچکے کے ساتھ رک گئی۔ پلیٹ فارم پر خوانچہ فروشوں کی آوازوں اور مسافروں کی بھگدڑ نے فضا میں ایک عجیب بحران سا پھیلا رکھا تھا۔ میں نے ٹانگیں سیدھی کرنے کے لئے پلیٹ فارم پر چہل قدمی کا پروگرام بنایا مگر باہر کو جانے والے تمام رستے بند تھے۔ بس ایک رستہ کھلا تھا اور یہ کھڑکی کا رستہ تھا جس سے باہر کودنے کے لئے مطلوبہ ہمت مجھ میں موجود نہیں تھی کیونکہ پروگرام صرف جانے جانے کا نہیں واپس آنے کا بھی تھا اور یہ واپسی اسی رستے سے ہونا تھی، تاہم وہ جو کسی نے کہا’’ ہمت مرداں مدد خدا‘‘ تو میں نے بھی ہمت سے کام لیا ۔ پہلے اپنی دونوں ٹانگیں کھڑکی کے رستے باہر نکالیں اور پھر اللہ کا نام لے کر پلیٹ فارم پر کود گیا۔ پیاس سے میری زبان پر چھالے سے پڑرہے تھے۔ میں نلکے کی طرف جانے کے لئے بوگیوں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا کہ پہلے میرے کانوں میں شی شی کی نسوانی آواز آئی اور پھر میرے کپڑے بھیگ سے گئے۔ میں نے ڈبے کی طرف نگاہ ڈالی تو ایک عورت اپنے بچے کو کھڑکی سے باہر کئے اسے شی شی کرارہی تھی۔ اس وقت بچے کے چہرے پر عجب شانتی نظر آرہی تھی،لگتا تھا کافی دیر بعد اس کی سنی گئی ہے۔ اگلے ڈبے میں سے ایک صاحب نے پان کی پیک پچکاری کی صورت میں پلیٹ فارم پر پھونکی مگر ان کا نشانہ خطا گیا کیونکہ میں خطرہ بھانپ کر پچکاری کی زد سے نکل گیا تھا۔

نلکے پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا اور پانی تک رسائی نہ ہونے کے باوجود وہ سب پانی میں نہائے ہوئے تھے کیونکہ ٹوٹی لیک کررہی تھی ،تھوڑے فاصلے پر دو عرب لڑکیاں ٹاپ اور جینز پہنے اپنے ایک عرب ساتھی کے ساتھ کھڑی تھیں۔ میں نے بائیں جانب دیکھا تو گاڑیوں کی بوگیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والے درمیانہ حصہ میں ریلوے کے دو ملازم پورے اطمینان کے ساتھ بیٹھے لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے۔ انہوں نے ایک ہاتھ میں روٹی اور روٹی پر کباب رکھے تھے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں جتے ہوئے تھے۔

میں نے نلکے کے پاس کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوگیا تو واپس اپنے ڈبے کی طرف جانے کی ٹھانی۔ اس دوران گارڈ نے وسل بھی دے دی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ ڈبے میں دروازے کے رستے سے داخل ہوں مگر فرش نشین مسافروں کی وجہ سے یہ رستہ سیل ہوچکا تھا چنانچہ میں نے افراتفری میں اپنا سر کھڑکی میں داخل کیا اور اس سلسلے کے باقی کام اندر بیٹھے ہوئے مسافروں نے انجام دئیے جنہوں نے مجھے دھون(گردن) سے پکڑ کر اندر کھینچا اور شکر ہے میں پورے کا پورا اندر داخل ہوگیا ورنہ اس امر کا قوی امکان موجود تھا کہ میری گردن ان کے ہاتھ میں رہ جاتی اور میرا باقی وجود پلیٹ فارم پر کھڑا بےثباتی دنیا پر غور کررہا ہوتا۔ دیکھو جی کیسا زمانہ آگیا ہے میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک گہرے گندمی مائل نوجوان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ اوپر والی برتھ میں نے ریزرو کروائی تھی اب میں اوپر جاکر آرام کرنا چاہتا ہوں مگر یہ شخص لاہور سے براجمان ہے اور اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ میں نے برتھ کی طرف نگاہ ڈالی تو ایک خشخشی داڑھی والے ادھیڑ عمر شخص کو استراحت فرماتے پایا۔ اس کے چہرے پر ’’ڈینٹ‘‘ پڑے ہوئے تھے اور اس کا چہرہ قاتلوں جیسا تھا۔ میرے لئے ایسے لوگ ناقابل برداشت ہوتے ہیں جودھونس اور دھاندلی کے ذریعے دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ اوپر سے اس بے آرام سفر نے بھی مجھے بائولا بنا دیا تھا۔

چنانچہ نوجوان کی یہ بات سن کر میں نے اس سے پوچھا’’کیا تم چاہتے ہو کہ یہ شخص تمہاری برتھ خالی کردے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے کہا تم اسے ایک دفعہ میرے سامنے یہ برتھ خالی کرنے کیلئے کہو، نوجوان نے یہ سن کر ڈرتے ڈرتے اس شخص کی پنڈلی کو ہاتھ لگایا اور کہا بھا جی! آپ کی بڑی مہربانی اگر آپ مجھے آرام کرنے دیں۔ اس پر قاتلوں جیسے چہرے والا شخص غصے سے لال پیلا ہو کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور چیخ کر بولا کیوں خالی کردوں میں برتھ میں مفت سفر نہیں کررہا میں نے بھی ٹکٹ خرچہ ہوا ہے، اس پر ایک دم سے میراپارہ چڑ ھ گیا اور ان لمحوں میں میں نے اپنا لٹریچر اور پروفیسری طاق پر رکھی اور آستین چڑھا کر کہا تم نیچے اترتے ہو یا آکر تمہیں اتاروں۔

اس پر اس نے گھور کر مجھے دیکھا اور پھر دوسرے ہی لمحے وہ مجھ پر حملہ آور ہونے کیلئے نیچے کی طرف جھکا مجھے یوں لگا جیسے مجھ پر دیوانگی کی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔ میری آنکھیں ابل کر باہر کو آرہی تھیں میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے ساتھ گتھم گتھا ہونے کے لئے اس کی طرف بڑھا مگر دوسرے مسافروں نے آگے بڑھ کر میرا رستہ روک لیا۔ میں شاید اس وقت ان کے روکے سے بھی نہ رکتا مگر اچانک میری نظر اس نوجوان پر پڑی جس کے حقوق کے لئے میں’’مسلح جدوجہد‘‘ پر آمادہ ہورہا تھا وہ آرام سے اپنی نشست پر بیٹھا میری طرف دیکھتا تھا اورمسکراتا جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے ڈبے کے مسافروں کی رائے کا احترام کیا اور دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

میں آپ کو پہچان گیا ہوں’’اس نوجوان نے مجھے محبت بھری نظروں سے دیکھتے اور احمقانہ سی مسکراہٹ چہرے پر بکھرتے ہوئے کہا‘‘ آپ وارث ڈرامے کے چودھری حشمت ہیں نا!‘‘ مجھے اس ڈرامے میں بھی آپ کا کام بہت پسند آیا تھا‘‘۔

اب ڈبے میں رات پڑگئی تھی میں نے اپنی برتھ پر بستر بچھالیا اور سونے کی کوشش میں تھا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی مجھے یہ دھڑکا لگا ہوا تھاکہ اگر بے دھیانی میں میں نے کروٹ بدلی تو اس کا انجام کیا ہوگا، کیونکہ اس برتھ کی چوڑائی کروٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ ڈبے میں اب مکمل سکوت طاری تھا، تمام مسافر اونگھ رہے تھے۔ گاڑی کا شور اب ان کیلئے بے معنی تھا، کیونکہ گزشتہ تیرہ گھنٹے کے سفر کے دوران وہ اسکے عادی ہوچکے تھے۔ کچھ لوگ سیٹوں کے نیچے سوئے ہوئے تھے اور جو سیٹوں کے اوپر تھے وہ ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھ کر یوں سورہے تھے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کے آشنا ہوں۔ فرش پر بیٹھے ہوئے لوگ دونوں ٹانگیں سکیڑ کر اپنے گھٹنوں پر سر رکھے اونگھ رہے تھے۔ ایک مسافر نے چادر کا ایک سرا برتھ اور دوسرا اس کے مقابل سامان رکھنے والی جگہ کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور خود اس میں لیٹا ہوا فضا میں جھول رہا تھا۔ بہت سے مسافر ایک نشست والی سیٹ کی چوٹی پر بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنے پائوں نشست پر بیٹھے مسافر کی پشت کی طرف لٹکائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ سیٹ کے ساتھ ٹیک نہیں لگاسکتے تھے۔ گاڑی صبح چار بجے کے قریب حیدر آباد پہنچنا تھی۔ اب میری آنکھیں نیند سے ہولے ہولے بند ہورہی تھیں کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ میں نہیں جانتا میں کتنی دیر سویا بس اس اثنا میں ایک مسافر نے مجھے پائوں سے پکڑ کر بلایا اور کہا بابو جی! حیدر آباد آرہا ہے تیار ہوجائیں میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا برتھ سے نیچے اترا اپنا سامان سمیٹااور ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر حیدرآباد کا انتظار کرنے لگا، کیونکہ دوسری ٹانگ کے لئے فرش پر کوئی جگہ نہ تھی۔ مجھے حیدر آباد کی آمد کی اطلاع دینے والا مسافر میری برتھ سنبھال چکا تھا۔ میں قریباً آدھ گھنٹے تک اسی پوزیشن میں کھڑا رہا، بالآخر میں نے اس کی طرف رجوع کیا تاکہ اس صورتحال کے بارے میں اس سے استفسار کرسکوں، مگر گہری نیند میں تھا اور انتہائی خوفناک قسم کے خراٹے لے رہا تھا۔ میں نے ڈبے کے باقی مسافروں کی طرف نظر ڈالی اور اونگھتے اونگھتے تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں کھولیںجو بے خوابی کی وجہ سے انگارے کی طرح سرخ ہورہی تھیں۔ حیدر آباد بھی دور تھا، میں بگلے کی طرف ایک ٹانگ پر کھڑا تھا اور میرے جسم کا یہ حصہ اب بالکل بےجان ہوچکا تھا۔ قریب تھا کہ میری مدافعت دم توڑ دیتی اور میں کھڑے کھڑے کسی پر گرپڑتا، ٹرین حیدرآباد کے پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح فرش پر پڑے ہوئے ا شرف المخلوقات کے جسموں پر پائوں رکھتا ہوا کھڑکی کی طرف بڑھا۔ اپنا سامان باہر پلیٹ فارم پر پھینکا اور پھر کھڑکی میں سے باہر پلیٹ فارم پر چھلانگ لگادی۔ اسٹیشن سے باہر برآمدے میں لوگ کچے فرش پر بے سدھ پڑے تھے اس وقت فضا میں خاصی خنکی تھی مگر ان کے جسموں پر چادر نہیں تھی اور ان کے بازو ہی ان کے سرہانے تھے۔ تھرڈ کلاس کے ڈبے میں میرے ہمسفر اور یہ سب لوگ غالباً میری ہی طرح’’ایڈونچر‘‘ کے موڈ میں تھے بلکہ مہم جوئی میں مجھ سے کہیں زیادہ تھے کہ میں تو اس روز چند گھنٹوں کے لئے ان کے دکھوں میں شامل ہوا تھا جبکہ ان کی تو ساری زندگی اسی طرح بسر ہوتی ہے۔

تازہ ترین