• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلف، توقعات، نئی کابینہ

22ویں بار وزارت عظمیٰ حلف، 22ویں کابینہ اور بے شمار توقعات 22مرتبہ قوم کے سامنے یہ حلف نامہ دہرایا گیا، اب یہ ہر پاکستانی کو ازبر ہے جس سے چاہیں اٹھوا لیں، البتہ اس مرتبہ وزیراعظم ایک مقام پر ایسے اٹکے کہ تھوڑی دیر کیلئے انتقال اقتدار کی ڈولی ہل کر رہ گئی بہرحال صدر گرامی قدر نے اپنے نحیف کاندھوں پر سارا بوجھ لے کر یہ مرحلہ پورا کرا دیا، بہرحال بڑی دیر کے بعد نیا دولہا دیکھنے کو ملا، دولہے کا خواب تو حقیقت بن گیا باراتیوں کے خواب کیسے اور کب پورے ہوں گے یہ نہ ہوں کہ بقول غالب؎

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

نئی کابینہ جو کئی ولیمے کھا چکی ہے، کچھ شرکاء نے پہلی بار بریانی کھائی، بہرحال عددی سادگی میں اپنی مثال آپ ہے، وزیراعظم کو اختیارات منتقل ہو چکے ہیں، اب انہیں وہ کیسے استعمال کرتے ہیں اور پہلے سو دنوں میں کس سمت چل نکلتے ہیں یہ بھی جلد معلوم ہو جائے گا، زرداری نے ایک ہی جست میں سارے بدلے لے لئے یہ بھی انوکھی بات کہ جتنی توقعات اپوزیشن کو ہیں اتنی عوام کو نہیں، اگر فوری طور پر بجلی پانی کی فراوانی ہو جائے تو لوگوں کو باقی توقعات بھول بھی سکتی ہیں اگر نئی کابینہ کم خرچ، زیادہ مفید ثابت ہوئی تو حکومت کو ڈرائونے خواب نہیں آئیں گے، اگر نئی حکومت کی نبض دیکھی جائے تو دو باتیں یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں کہ وہ انتہائی کامیاب ہو گی یا پھر ناکامی کی مثال بن جائے گی؎

اپنوں کو اپنا بنانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ غیروں کو اپنا بنا لے ساقی

طوطا مینا کی کہانی اگرچہ پرانی ہو گئی مگر طوطا مینا کو بھلانا بہت مشکل ہو گا۔

٭٭٭٭

دو اچھی باتیں

پی پی کے رضا ربانی :عمران خان وزیراعظم تسلیم، ان کے فیصلے ملکی مفاد میں ہوں گے تو ساتھ دیں گے، ن لیگ کے حمزہ شہباز:کسی قیمت پر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے، دونوں صاحبان نوجوان ہیں، دونوں کی دونوں باتیں بہت اچھی ہیں، اگر ایسے ماحول میں تحریک انصاف کے حکومتی افراد نے اگر کچھ کر نہ دکھایا تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہو گا، کہ آسمان تو مہربان تھا زمین نے ستم ڈھا دیا، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے زنگ آلود فرسودہ نظام کو ایک اچھے مفید عوام نظام سے بدلنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے، اور شاید پھر کبھی اتنا سازگار موسم نہ آئے، دو اچھی باتیں تو آپ نے سن لیں اب ایک تیسری خوش کن بات ہماری بھی سن لیں کہ ہم پوری پاکستانی قوم جیسی بھی ہیں پاکستان سے عشق کرتی ہے الحمد للہ یہاں کوئی بھی لیلائے وطن سے بیوفائی نہیں کر سکتا۔ یہاں کوئی میر جعفر، میر صادق نہیں اس طرح کی بات کوئی نہ کرے جس کا وجود ہی نہیں، غلطیاں، بھول چوک، مفاد پرستی اگرچہ گناہ ہے تاہم توبہ کے دروازے کھلے ہیں، تلافی بھی کی جا سکتی ہے، نقصان پورا کیا جا سکتا ہے دنیا میں بڑے بڑے گناہ گار جب راہ راست پر آئے تو ولی اللہ بن گئے، ہمیں یقین کہ حب الوطنی ہماری خطائوں کو نیکیوں میں بدل دے گی۔ پاکستانی قوم میں وہ صلاحیت کہ مٹی کو سونا بنا دے، مگر سونا اپنے گھر ہی میں رہنے دے تو یہاں جنت اتر سکتی ہے۔ ہم سے علم کی توہین ہوئی ہے، اہلیت و صلاحیت کی حق تلفی ہوئی ہے، اس لئے نئی حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھرپور توجہ دے تو یہاں سارے داغ دھل سکتے ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نئی حکومت یہ سب کچھ کر دکھائے گی تو یہ دیوانے کا خواب ہو گا ہم سب حاکم بھی ہیں محکوم بھی، داعی بھی ہیں رعیت بھی، دوسرے کی جانب اصلاح کی نظر سے دیکھنے سے پہلے ہر فرد اپنی اصلاح پر توجہ دے، اختلاف اس لئے نہ کرے کہ اس نے اختلاف ہی کرنا ہے۔

٭٭٭٭

کہاں یہ مقام اللہ اللہ

عمران خان کی شرمیلی مسکراہٹوں، تسبیح پھیرنے، انگوٹھی گھمانے، شیروانی کا پلو اٹھا کر چشمہ نکالنے کی کوشش، صدر کا حیرت سے دیکھنا کہ نہ جانے اندر کی جیب سے کیا نکال رہے ہیں، حلف کے الفاظ میں اٹکنا سنبھلنا، یہ سب کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہائے وہ کتنے شرمیلے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں، ان کی تمام حرکات و سکنات میں حسین غلطیاں تبدیلیاں دراصل اس وجہ سے تھیں کہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت شرمیلے، بہت سادہ بہت بھولے بھالے ہیں وہ شیخ سعدی کی یہ بات یاد رکھیں کہ ’’شاید درایں بیشہ پلنگ خفتہ باشد‘‘ (شاید اس جنگل میں چیتا سو رہا ہے) اس لئے شور و غل نہ مچا کہیں وہ شیروانی کو واسکٹ نہ بنا دے، اور اچانک ’’چھال‘‘ نہ مار دے، بہرحال ڈرنے کی بات نہیں اب وہ حکومت میں ہیں، توقعات اور اپنے وعدوں کے پنجرے میں بند، اب کنٹینر کی چھت پر اوئے اوئے کی بانگیں دینے والا دوسروں کو مفت کنٹینر بمع خورونوش اور مجمع دینے کے لئے تیار ہے، ہر انسان چاہے باہر سے کتنا ہی با رعب اور خوفناک نظر آئے اس کے اندر ایک نازک سا شرمیلا سا ڈرپوک سا انسان ضرور چھپا ہوتا ہے۔ اس لئے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہوتی، بس ہمیں ہماری ظاہر پرستی ہی ڈراتی رہتی ہے، کچھ دنوں سے ہم محسوس کر رہے تھے کہ شاید میڈیا کے پاس مواد ختم ہونے والا ہے، مگر عمران خان کی شکل میں ایک ایسا قد آور موضوع اسے مل گیا ہے جس نےاسے نہال کر دیا ہے، اور یوں لگتا ہے کہ ’’للی پٹینز‘‘ کی بستی میں ’’گلیور‘‘ داخل ہو گیا ہے، اب اسے خوب ’’چونڈیاں وڈیں‘‘ گلیور کے خراٹے اور بلند ہوں گے۔بہرحال وہ ہم سب کے وزیراعظم پاکستان ہیں، احترام لازم ہے۔

٭٭٭٭

ہوتا ہے دلدوز تماشا مرے آگے

....Oخاتون اول بشریٰ بی بی:اقتدار کی کرسی آنی جانی آج میں خوش نہیں، ڈری ہوئی ہوں۔

اب یہ پتہ نہیں کہ یہ کرسی جانی، آنی ہے یا آنی جانی ہے، لگتا ہے دونوں کو نہ پتہ ہے مزے کی یہ بات ہے۔

....Oنعیم الحق بنی گالا میں داخلے سے روکے جانے پر برہم۔

گارڈز کو کیا پتہ تھا کہ انہوں نے سوئے ہوئے آتش فشاں کو جگا دیا۔

....O عمران خان کی شیروانی پر جمائما کا ٹویٹ: بہت اچھے لگ رہے ہیں،

جذبے کب جدا ہوتے ہیں۔

....Oبختاور بھٹو:ہم عدالتوں سے بچپن میں چھپے نہ اب چھپے ہیں، 

مگر اس چھپن چھپائی کی نوبت ہی کیوں آئی؟

....Oچیف جسٹس نے عمران شاہ کے شہری پر تشدد کا نوٹس لے لیا۔

باقی کارروائی تو ہوتی رہے گی مگر قرآن کریم کی آیت قصاص کے تحت سرعام اس ایم پی اے کو گن کر اتنے ہی تھپڑ متاثرہ شخص مارے جتنے اس خمار اقتدار کے نشے میں دھت نے مارے۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین