• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان، پہلے سیاسی ٹیسٹ میچ کا آغاز ہوگیا

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور کرکٹ کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ عمران خان نے ہفتے کے روز ایوان صدر میں پاکستان کے22ویں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ ایوان صدر میں یہ تقریب اس لحاظ سے منفردتھی کہ اس میں روایتی مہمانوں اور خاندانوں کے بجائے مختلف شعبہ ہائے زندگی خاص کر سپورٹس (بالخصوص) کرکٹ اور سوشل سیکٹر کی شخصیات زیادہ موجود تھیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کی حلف وفاداری کی تقریب انگریز دور کے طے کردہ ضوابط کار کے تحت ہوتی ہے۔ ماضی کے ہر وزیر اعظم کی تقریب کا اپنا ہی ماحول ہوتا تھا۔ اب 25جولائی 2018کے انتخابات میں ایک کروڑ 66لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے بعد پہلی بار اقتدار پی ٹی آئی کو ملا ہے جسے 2013کے انتخابات میں76لاکھ 79ہزار ووٹ ملے تھے۔ ان کی پیش رو مسلم لیگ(ن) کو2018کے انتخابات میں ایک کروڑ28لاکھ اور 2013میں ایک کروڑ 48لاکھ ووٹ ملے تھے۔ اب ووٹوں کے تناسب اور قومی اسمبلی میں اکثریت کے لحاظ سے عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اس طرح ان کی 20۔22سالہ سیاسی زندگی میں ایک عظیم کامیابی کے بعد سیاسی میدان میں ان کے پہلے ٹیسٹ میچ کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک طویل عرصہ پاکستان بھر میں اپنی جدوجہد میں مصروف تھے۔ اب اللہ کرے ماضی کی دو حکومتوں کی طرح عمران خان کی حکومت کی آئینی مدت بھی پوری ہو ا ور اس کے لئے حکومت کیسا تھ ساتھ اپوزیشن یا حکومت مخالف جماعتوں کوپاکستان میں اعلیٰ سیاسی روایات کے تحت برداشت اور انصاف کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے سے تعاون کے ساتھ ملکی معاملات کو چلانے کیلئے حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ عمران خان کے لئے وزارت عظمیٰ کا عہدہ اور پی ٹی آئی کے لئے حکمرانی ملنا بالکل نیا تجربہ ہے، مگر انہیں پاکستان کی خواتین اور یوتھ کی سپورٹ سے جو کامیابی ملی ہے، اب پی ٹی آئی کو اس کے بدلے میں انہیں کچھ دینے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی ترجیح کے طور پر گورننس، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر توجہ دینے کے لئے وزیر اعظم کو اپنی قابل اور محنتی ٹیم سے کام لینا ہوگا جبکہ نوجوانوں کے لئے فوری روزگار کے نام پر مقامی صنعتوں(مینوفیکچرنگ) کی بحالی کا جامع پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس طرح زراعت اورSMEسیکٹر پر توجہ دینے سے اگر داخلی معیشت مضبوط ہوجاتی ہے تو اس سے بیرونی وسائل پر انحصار کم کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اسکے علاوہFBRاور دوسرے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مانیٹرنگ کے نظام کو رائج کرنا ہوگا جس میں ایسے لوگ شامل کئے جانے چاہئیں جن کا ان محکموں یا اداروں سے کبھی تعلق نہ رہا ہو۔ اس کے علاوہ معاشی اور اقتصادی مسائل کے قلیل المدت اور طویل المدت حل کے لئے وفاق اور صوبوں کی سطح پر خصوصی ٹاسک فورسز جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شامل کیا جائے جو ملک سے غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس کے مالی حالات بہتر بنانے پر توجہ دے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے پہلے سیاسی ٹیسٹ میچ (مطلب پہلی مدت) میں عوام کو کچھ نہ کچھ تو دینا ہوگا۔ اس کے لئے سستی بجلی کی فراہمی کے لئے سرکلر ڈٹ اور دوسرے ایشوز کے حل کے لئے پرائیویٹ پاور کمپنیوں کے ساتھ حالیہ حکومتوں کے ادوار میں کئے جانے والے معاہدوں کو ری وزٹ کرنا ہوگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بجلی اور مہنگائی کے طوفان کو روکنا وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کے معاملہ کو سمجھداری سے ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس وقت و زیر اعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ سعودی عرب، ایران اور چین سمیت سب پاکستان سے اقتصادی تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ خاص کر سعودی عرب حکمران فیملی کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش پوری کرنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کی مروجہ پالیسی کو مزید موثر اور بااعتماد بنانا ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ و زیر اعظم جب عمرہ کی سعادت کے لئے جدہ جائیں تو سعودی بادشاہ پاکستان کو ایک بڑا ریلیف دینے کا اعلان کردیں جس کی مالیت بھی حیران کن ہو اور سستے تیل کی فراہمی کی مد میں بہت بڑی سپورٹ بھی مل جائے، تو اس کے بعد آئی ایم ایف سے کسی نئے قرضہ کے معاملہ کو کچھ عرصہ کیلئے موخر کردیا جائے، مگر پی ٹی آئی کی حکومت کو سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے ملک سے ریلیف لیتے وقت یہ احتیاط کرنا ہوگی کہ کہیں اسکے بدلے میں اسے کچھ دینا نہ پڑجائے، جس سے انکے ٹیسٹ میچ کے پہلے مرحلہ ہی میں انہیں خطرناک یا پریشان سیاسی مسائل سے دوچار ہونا پڑے۔ اسلئے کہ درپردہ سیاسی حالات کے پس منظر میں کچھ نہ کچھ تو ہوہی رہا ہے۔ اب یہ وزیر اعظم عمران خان پر منحصر ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی اور سماجی چیلنجز کو نمٹنے کے لئے وہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا کیا اقدامات کرتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین